" میرے سنہرے سفرنامے "۔ از عبدالمالک
مجاہد
تبصرہ نگار : محمد اسلم لودھی
عبدالمالک مجاہد صاحب سے میری شناسائی نہیں ہے لیکن ان کا ایک سفرنامہ جس
کانام "میرے سنہرے سفر نامے"کسی دوست نے مجھے پڑھنے کے لیے دی ۔جب میں نے
اس کتاب کو پڑھنا شروع کیا تو تحریر کی سادگی اور خوبصورتی ٗواقعات کی ندرت
نے مجھے بے حد متاثر کیا اورمیں بے ساختہ ان کے سفر نامے پڑھتا چلا گیا ۔جس
سفرنامے کو بھی میں نے پڑھا اس کے بعد یوں محسوس ہوا کہ میں نے بہت ہی لذیذ
کوئی چیز کھالی ہے جس کا ذائقہ ذہن و دل میں بہت عرصے تک محفوظ رہا ۔ ایک
سفر نامے کے بعد دوسرا شروع کرتا تو پہلے سے بھی زیادہ لطف آتا ۔عبدالمالک
مجاہد سعودی عرب کے دارالحکومت" ریاض" میں ہوتے ہیں جہاں وہ ایک عالمی
طباعتی ادارے" دارالسلام "سے وابستہ ہیں ۔ دارالسلام کامرکزی دفتر تو ریاض
میں ہے لیکن مکہ مکرمہ ٗمدینہ منورہ ٗجدہ ٗالخبر ٗینبع البحرٗ قمیس مشیط
میں بھی برانچیں موجود ہیں جبکہ شارجہ ٗلاہور ٗ کراچی ٗاسلام آباد ٗ لندن ٗ
آسٹریلیا ٗہیوسٹن اور نیویارک میں بھی دارالسلام کتاب وسنت کی اشاعت کا یہ
عالمی ادارہ موجود ہے ۔ عبدالمالک مجاہد صاحب کو انبیاء کرام کے حوالے سے
مقدس مقامات کی سیر کا بے حد شوق ہے وہ آنکھوں دیکھا حال بتانے میں اس قدر
مہارت رکھتے ہیں کہ پڑھنے والا خود کو اسی مقام پر محسوس کرتا ہے ۔ اس کتاب
میں سعودی عرب کی مختصر تاریخ ٗ مدینتہ الرسول کی پہلی زیارت ٗ سیدہ حلیمہ
سعدیہ کے دیس میں ٗ بدر شہر میں چند گھنٹے ٗ تبوک کاایک مطالعاتی سفر ٗ
خیبر کے علاقے کی سیر ٗ دومتہ الجندل کی سیر ٗ نجران اصحاب الاخدود کے
علاقے کی سیر ٗ عکاظ کامیلہ ٗاردن ٗ موتہ کے میدان میں ٗ افریقی ممالک کے
سفر کی کچھ یادیں ٗ جنوبی افریقہ دنیاکے آخری کنارے پر ٗ چین ٗ سفر چین کی
خوشگوار یادیں ٗ اطالیہ (اٹلی )ٗ یورپ کا سفر ٗ اسپین ۔اندلس ٗ یورپ کا سفر
ٗ غرناطہ اور قرطبہ کا سفر ٗ سرزمین فرانس پر وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔صرف
تحریرہی دلکش نہیں بلکہ تاریخی اہمیت کی حامل مقدس مقامات کی اصل تصویریں
بھی اس کتاب میں شامل ہیں ۔
مصنف سعودی عرب کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں کہ تہامہ کے مشرق میں حجاز
کاپہاڑی سلسلہ واقع ہے جسے جبال السراۃ کہاجاتاہے ۔حجاز میں مکہ معظمہ ٗ
مدینہ منورہ ٗ خیبر ٗ تبوک اورطائف کے شہر ہیں ۔سعودی عرب کا صحت افزا شہر
طائف بھی انہی پہاڑوں میں واقع ہے ۔ طائف سے جبال السراۃ کا سلسلہ جنوب میں
عسیر اور سرحد یمن تک بلند ہوتا چلاگیاہے ۔ یہاں الباحہ اور ابہا کے شہر
ہیں ۔ ابہا کے شمال مغرب میں سعودی عرب کی بلند ترین چوٹی 3015میٹر اونچی
ہے ۔ سعودی عرب میں ماضی کی نافرمان قوموں کی تباہی کے آثار بھی کثرت سے
ملتے ہیں ۔ ربع الخالی کے جنوب میں سعودی عرب اور یمن کی سرحد کے ساتھ ساتھ
حضر موت ( یمن ) میں قوم عاد ٗ آباد تھی ۔ اس علاقے کو قرآن میں الاحقاف کے
نام سے تعبیر کیاگیا ہے ۔ حجاز مقدس میں وادی القری ( الغلا اور مدائن صالح
( الحجر ) حجاز ( صوبہ المدینتہ المنورہ ) میں واقع ہیں ۔ یہاں قوم ثمود کے
آثار بھی ملتے ہیں۔ صوبہ تبوک میں قوم شعیب (مدین) کے آثار ملتے ہیں ۔سیرت
نبوی ﷺ ٗغزوات ٗ سرایا اورصحابہ کرام ؓ کے حوالے سے واقعات اپنی مثال آپ
ہیں ۔
******************
یوں تو اس کتاب میں شامل ہر سفر نامہ اپنی مثال آپ ہےٗ جسے پڑھنا شروع کریں
پھر چھوڑنے کو دل نہیں کرتا لیکن یہاں صرف ایک سفرکو بطور مثال پیش
کیاجارہاہے ۔ تاکہ قارئین اس کتاب کی اہمیت اورافادیت سے آگاہ ہوسکیں ۔
نجران ( اصحاب الا خدود کے علاقے کی سیر کے عنوان سے مصنف لکھتے ہیں نجران
سعودی عرب کے شمال میں یمن کی سرحد پر واقع ہے ۔ریاض سے اس کا فاصلہ ایک
ہزار کلومیٹر بنتا ہے ۔ یوں توہر شہر اپنی علاقائی معاشرتی وجوہات کی بنا
پر بڑی اہمیت کا حامل ہے مگر اس شہر کی کشش دو چیزوں کے حوالے سے سب سے
زیادہ ہے ۔ ایک اصحاب الاخدود کا مقام اور دوسرا یہاں سے آٹھ ہجری میں
عیسائیوں کا وفد مدینہ منورہ آیا تھا۔ اس وفد کے بارے میں قرآن کریم میں
آیات مباہلہ نازل ہوئی تھیں ۔ مگر مباہلہ کا چیلنج قبول کرنے سے عیسائی
بھاگ گئے تھے اور جزیہ دینا قبول کرلیا تھا ۔ میری خواہش تھی کہ جس شہر کا
ذکر قرآن پاک میں ہے ٗ اسے جاکے دیکھا جائے ۔ 23 ستمبر ہم فیملی سمیت نجران
کے لیے نکلے ۔ ابہا سے نجران کم و بیس اڑھائی سو کلومیٹر دور ہے ۔جبکہ
اصحاب الاخدود کا علاقہ نجران سے کوئی آٹھ دس کلومیٹر ہے ۔ خوبصورت سڑک کے
کنارے دور دور تک یہ علاقہ نظر آتا ہے ۔ اس منطقہ کو چار دیواری کے ساتھ
بندکردیاگیا ہے اس کو دیکھنے کے لیے سہ پہر تین بجے سے چھ بجے تک کا وقت
مقرر ہے ۔ قرآن پاک کی سورہ البروج میں اصحاب الاخدود کاذکر بڑی تفصیل سے
موجود ہے ۔ اس علاقہ پر بنی حمیر نے صدیوں تک حکومت کی ہے ۔ حضرت موسی علیہ
السلام کے بعد یمن کے علاقے میں یہودیوں کی حکومت رہی ۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ
اس علاقے کی تاریخ حضرت عیسی علیہ السلام سے چھ سو سال قبل شروع ہوئی ۔
حضرت عیسی علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے تقریبا پانچ سو سال
بعداصحاب الاخدود کا واقعہ پیش آیا ۔ اس واقعہ کو تقریبا ڈیڑھ ہزار سال گزر
چکے ہیں ۔یہاں کا حاکم ایک جادوگر کا خاص عقیدت مند تھا ۔ وہ جادوگر کی ہر
بات مانتا اور اس پر عمل بھی کرتا ۔ بادشاہ عقیدے کے اعتبار سے یہودی
تھامگر موسی علیہ السلام کی تعلیمات سے اتنادور تھا کہ ایمان کھو بیٹھا اور
اپنی پوجا شروع کروا دی اور خود کو رب کہلوانے لگا ۔
اﷲ رب العزت ہر دورمیں اپنے بندوں کی آزمائش کرتا رہا ہے اور ہر دور میں
دین کی تجدید کا کام ہوتا رہاہے ۔ ایک دن جادوگرنے بادشاہ سے کہا۔ بادشا ہ
سلامت میں اب بوڑھا ہوچکا ہوں اور کسی بھی وقت موت مجھے آسکتی ہے ۔ میری
خواہش ہے کہ کوئی ذہین وفطین بچہ مجھ کو مل جائے تاکہ میں اسے اپنا کالا
علم سکھادوں اور مرنے کے بعد وہ میرا جانشین بن جائے ۔ بادشاہ نے حکم دیا
کہ کسی ذہین لڑکے کو منتخب کرکے اسے جادوگر کاشاگردبنا دیا جائے ۔ حکم کی
تعمیل ہوئی اور ایک نہایت ذہین لڑکے کو جادو گر کے سپرد کردیاگیا ۔ لڑکا
صبح سویرے اپنے گھر سے جادوگر کے پاس جاتا اور اس سے کالا علم سیکھتا ٗ
راستے میں ایک راہب کا ٹھکانہ تھا ۔ ایک دن وہ راہب سے ملا تو اس کی باتیں
اسے اچھی لگیں۔ وہ راہب موحد اور حضرت عیسی علیہ السلام کا پیروکار تھا ۔
اس لڑکے نے کچھ وقت اس راہب کے ساتھ گزارنا شروع کردیا۔ وہ اس لڑکے کو
عقیدہ توحید کی تعلیم دیتا ۔ اس طرح وہ کالا علم بھی سیکھتا رہا اور راہب
سے علم ربانی بھی حاصل کرتا رہا ۔ کچھ عرصے بعد اسے یقین ہوگیا کہ جادوگر
کاعلم شیطان کاراستہ ہے جبکہ راہب کاراستہ رحمن کا ہے اور حقیقتا یہی صراط
مستقیم ہے وہ اکیلے رب کی پرستش کرنے لگا ۔
وقت گزرتا رہا ایک دن وہ نوعمر لڑکا بازار میں جارہا ہے ۔اس نے دیکھا کہ
ایک بہت بڑے اور خوفناک جانور نے لوگوں کا راستہ روک رکھا ہے اورلوگ اس کی
وجہ سے راستہ عبور نہیں کرسکتے ۔ لوگوں کی خاصی تعداد وہاں جمع ہے۔ لڑکے نے
دل میں سوچا آج یہ دیکھنے کا وقت ہے کہ راہب کا معاملہ جادوگر سے بہتر ہے
یا نہیں ۔ اے اﷲ اگر راہب کاطریقہ جادوگرکی نسبت تجھے زیادہ پسند ہے تو اس
خوفناک جانور کو ہلاک کردے ۔یہ دعا مانگ کر اس نے چھوٹا سا پتھراٹھا کر اس
جانور کو مارا ٗ پتھر لگتے ہی دیوہیکل خوفناک جانور ہلاک ہوگیا ٗ لوگوں کے
لیے راستہ صاف ہوگیا ۔لڑکا وہاں سے سیدھا راہب کے پاس پہنچا اور اسے سارا
واقعہ سنایا ۔راہب بہت خوش ہوااور کہنے لگا بیٹے اب تم مجھ سے بھی بڑھ کر
ہو ۔ مگر یاد رکھنا اﷲ کی راہ میں چلنے والوں کی آزمائش ضرور ہوتی ہے
۔عنقریب تم بھی آزمائش میں ڈالے جاؤ گے ۔ اگر تمہیں بادشاہ پریشان کرے تو
اسے میرے بارے میں نہ بتانا ۔ وقت گزر تا رہا لڑکے کی کرامات میں اضافہ
ہوتا رہا ۔ اس کے پاس اندھے اور پھلبری کے مریض آتے ٗوہ دعا کرتا اور وہ اﷲ
کے حکم سے صحت یاب ہوجاتے ۔ اس طرح اس کی شہرت بڑھتی چلی گئی ۔
اچانک بادشاہ کے ایک خاص وزیر کی آنکھیں خراب ہوگئیں ۔علاج کے باوجود کوئی
افاقہ نہ ہوا اور وہ اندھا ہوگیا ۔کسی نے بادشاہ کواس لڑکے کے بارے میں
بتایا۔چنانچہ بادشاہ کے حکم پروہ وزیربہت سارے تحائف لے کر اس لڑکے کے پاس
پہنچا۔ اس نے لڑکے سے کہا اگر تم مجھے شفا دے دو تو میں یہ سارے تحائف اور
سامان تمہیں دے دوں گا ۔لڑکے نے جواب میں کسی کو شفا نہیں دے سکتا ۔شفا
دینا صرف اﷲ کا کام ہے ۔ ہاں اگر تم اﷲ پر ایمان لے آؤ تو میں اپنے رب سے
دعا کرتاہوں کہ وہ تمہیں بینائی عطاکردے۔آنکھیں واپس ملنے کا سن کر وزیر اﷲ
تعالی پر ایمان لے آیا ۔اس لڑکے نے دعاکے لیے ہاتھ اٹھا ئے اور وزیر کی
بینائی لوٹ آئی ۔
آنکھیں ٹھیک ہونے کے بعد وزیرٗ بادشاہ کے دربار میں آیا۔ بادشاہ نے پوچھا
تمہاری بینائی کیسے واپس آئی۔ وہ کہنے لگا میرے رب نے مجھے دوبارہ بینائی
عطا کردی ہے ۔ بادشاہ جو خود کو ہی رب سمجھتا تھا اور کہلواتا بھی تھا۔
کہنے لگا ارے میں نے کب تمہاری بینائی درست کی ہے ۔ ؟ وزیرنے جواب دیا
بادشاہ سلامت آپ نے نہیں بلکہ میری نظر اس رب نے درست کی ہے جو میرا بھی رب
ہے اور آپ کا بھی ۔یہ سن کر بادشاہ کو بہت غصہ آیا کہ میرے سوا اور کون رب
ہوسکتا ہے ۔ اس نے اسی وقت وزیر کو گستاخی کی سزا دی اور تشدد شروع کردیا
۔جب سزاحد سے زیادہ بڑھ گئی تو وزیر نے بادشاہ کو اس لڑکے کے بارے میں بتا
دیا ۔ بادشاہ نے اس لڑکے کو بلایا لڑکا دربار میں کھڑا تھا۔ بادشاہ لڑکے سے
مخاطب ہوا ۔ ہاں تو اب تمہارا جادو اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ تم اندھوں سمیت
جان لیوا بیماریوں میں مبتلا مریضوں کو بھی شفا دیتے ہو۔لڑکے نے جواب دیا
میں کسی کو شفا نہیں دیتا ٗ شفا دینا تو صرف رب کا کام ہے ۔ لڑکے کاجواب سن
کربادشاہ غصے سے لال پیلا ہوگیا اور بولا نہیں شفا تو سب کو میں دیتا ہوں ۔
لڑکے نے نہایت اعتماد سے جواب دیا نہیں بادشاہ سلامت ۔ شفا دینا صرف اﷲ کے
بس میں ہے ۔ بادشاہ بولا توکیا میرے علاوہ بھی کوئی تیرا رب ہے ۔ لڑکے نے
جواب دیا ہاں ۔میرا ٗ آپ کااور سب کا رب اﷲ تعالی ہے جس نے زمین و آسمان
اور ساری مخلوق کوپیداکیا۔ بادشاہ نے لڑکے کو گرفتار کرکے اندھیری کوٹھری
میں ڈلوا دیااور اس سے تفتیش کی کہ اسے توحید کا درس کس نے دیا ۔ نہایت
ظالمانہ تشدد کے بعد لڑکے نے مجبورا راہب کا نام بتادیا ۔
بادشاہ نے راہب کو گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم دیا ۔جب راہب دربار میں
حاضر ہوا تو بادشاہ نے اس کو توحید سے انکار کا حکم دیا ۔ راہب نے بادشاہ
کوصاف جواب دے دیاکہ وہ توحید سے کسی بھی صورت ہٹنے کو تیار نہیں ہے ۔ وہ
صرف تنہا و یکتا معبود حقیقی ہی کی عبادت کرتا رہے گا ۔ بادشاہ نے حکم دیا
اس راہب کو آرے کے ساتھ چیر دیاجائے۔
چنانچہ اس کے دو ٹکڑے کر دیئے گئے ۔ بادشاہ نے اس وزیر سے بھی دین چھوڑنے
کے لیے کہا جس کی بینائی لڑکے کی دعا سے واپس آئی تھی ۔ اس وزیر نے بھی
آنکھوں کی بینائی کے ساتھ دل کی بینائی پالی تھی لہذا بادشاہ کی بات ماننے
سے انکار کردیا ۔ بادشاہ کو بہت غصہ آیا- اس نے اپنے وزیرپر بھی آرا رکھ
کرچلا دیااوراس کے جسم کے بھی دو ٹکڑے ہوکر زمین پر جاگرے ۔ اب بادشاہ نے
لڑکے کو دین الہی سے پھرنے کا حکم دیا ۔لڑکے نے صاف انکار کردیا ۔بادشاہ کو
سخت طیش آیا اس نے لڑکے کو سپاہیوں کے حوالے کرتے ہوئے حکم دیا کہ اسے پہاڑ
کی چوٹی پر لے جاؤ۔ وہاں پوچھنا یہ اپنے دین کو چھوڑتا ہے یا نہیں ۔ اگر
انکار کرے توپہاڑ سے نیچے گرا دینا ۔
چوٹی پر پہنچ کر بچے نے دعا کی (اللھم اکفنیھم بما شئت )اے اﷲ جس طریقے سے
چاہے مجھے ان سے بچا لے ۔ دعا کرنے کی دیر تھی کہ پہاڑ لرزنے لگا اور سب کے
سب سپاہی پہاڑسے نیچے گرکر ہلاک ہوگئے جبکہ لڑکاصحیح سلامت واپس بادشاہ کے
دربار میں پہنچ گیا ۔ بادشاہ نے لڑکے کو اپنے سامنے پاکر پوچھا تو کیسے بچ
گیا ؟ کیا سپاہیوں نے تجھے گرایا نہیں ۔ لڑکے نے جواب دیا ان کے مقابلے میں
اﷲ تعالی میرے لیے کافی ہوگیا۔ اب بادشاہ نے حکم دیاکہ اس لڑکے کو سمندر پر
لے جاؤ اگر یہ عقیدہ توحید سے انکارکرے تو واپس لے آنا وگرنہ سمندر میں
پھینک دینا ۔ لڑکے نے سمندر میں پہنچ کر پھر وہی دعا کی ۔اے اﷲ تو جس طرح
سے چاہے مجھے ان سے بچا لے ۔چنانچہ جو سپاہی تو اس لڑکے کو سمندر میں ڈبونے
آئے تھے ٗ وہ خود ڈوب گئے اور لڑکا پھر بچ گیا اور واپس بادشاہ کے دربار
میں آکھڑا ہوا اور بادشاہ سے مخاطب ہوکر کہنے لگااگر تم مجھے اس وقت تک قتل
نہیں کرسکتے جب تک تم وہ کام نہ کرلو جو میں تمہیں بتاؤں ۔ اگر وہ کام کرلو
گے تو مجھے قتل کرسکوگے ۔ بادشاہ نے پوچھا وہ کام کیا ہے ؟ لڑکے نے کہاسب
لوگوں کو ایک کھلے میدان میں جمع کرو ٗ پھر مجھے ایک درخت کے تنے کے ساتھ
لٹکا دینا اور میرے ہی ترکش سے ایک تیر نکال کر بلند آواز سے یوں کہنا (بسم
اﷲ رب الغلام ۔ترجمہ لڑکے کے رب ٗ اﷲ کے نام سے ) لوگوں کا ایک جم غفیر جمع
تھا ۔بادشاہ نے تیر کمان کے درمیان رکھا پھر (بسم اﷲ رب الغلام )پڑھتے ہوئے
لڑکے کی طرف پھینکا ۔ تیر لڑکے کی کنپٹی پر لگا لڑکے نے اپنا ہاتھ اس جگہ
پر رکھا پھر اس کی روح پرواز کر گئی ۔لوگوں نے جب یہ منظر دیکھا تو بے
ساختہ کہہ اٹھے ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے ۔بادشاہ غصے سے لال پیلا
ہوگیا اس نے حکم دیا جو لوگ میرے حکم کے بغیر لڑکے کے رب پر ایمان لائے
ٗمیں ان کو زندہ آگ میں ڈال دوں گا ۔ اس نے خندقیں کھودی اور ان میں آگ
بھردی اس دہکتی ہوئی آگ میں ایمان والوں کو پھینکا جانے لگا تقریبا بیس
ہزار انسانوں کو آگ میں ڈال کرقتل کردیاگیا ۔ یہ خندقیں 300 میٹر چوڑی اور
ایک کلومیٹر لمبی تھیں۔
قرآن پاک کی سورہ البروج میں یہ آیات نازل ہوئیں ۔ترجمہ ":خندقیں کھودنے
والوں پر لعنت پڑ گئی ٗوہ بڑے ایندھن کی آگ والے تھے ٗ جبکہ وہ ان خندقوں
کے کناروں پر بیٹھے تھے ۔جو کچھ وہ اہل ایمان کے ساتھ کررہے تھے اسے ہم
دیکھ رہے تھے ۔انہوں نے ان مومنین سے اس کے سوا کسی چیز کاانتقام نہیں لیا
کہ وہ زبردست تعریفوں والے اﷲ پر ایمان لائے تھے وہ ذات کہ اسی کے لیے
آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اوراﷲ ہر چیز پر گواہ ہے ۔"
********************
اس کتاب میں مصنف نے چندایسے واقعات کا ذکر بطور خاص کیا جن سے ظاہر ہوتا
ہے کہ آپ ﷺ کو غیب کا علم اﷲ تعالی نے عطا کیا تھا کیونکہ آپ ﷺ جو کچھ بھی
کرتے اور فرماتے وہ سب کا سب اﷲ ہی کی تائیدو حمایت سے ممکن ہوتا ۔ مدین کے
واقعے کا ذکر کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں کہ اﷲ کے رسول ﷺ نے حضرت علی ؓ سے
فرمایا کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ سب سے زیادہ بدبخت کون ہے ؟ حضرت علی
نے عرض کیا جی ہاں فرمائیے ۔ارشاد ہوا ۔ دو شخص ہیں ایک تو قوم ِثمود کا
سرخ فام آدمی ٗ جس نے اونٹنی کو قتل کیا تھا اور ایک وہ جو تجھے ٗاے علی اس
جگہ (یعنی سر پر ) ضرب لگائے گا جس سے آپ کی داڑھی خون سے تر ہوجائے گی ۔(
مسند احمد ٗ وسلسلہ احادیث صحیحہ 1888)
آپ ﷺ نے جس طرح فرما یا تھا اسی طرح حضرت علی ؓ کی شہادت واقع ہوئی ۔
ایک اور واقعے کا ذکر یہاں بطور خاص کیاجارہا ہے کہ ہجرت کے چھٹے سال شعبان
کے مہینے میں اﷲ کے رسول ﷺ سیدنا عبدالرحمن بن عوف کی دستار بندی فرما ئی
اور اور فرمایا اگر تم دشمن پر فتح حاصل کرلو تو سردار قبیلہ کی بیٹی کے
ساتھ شادی کرلینا ۔ اور دلہن ساتھ لے کر مدینہ واپس لوٹنا ۔چنانچہ حضرت
عبدالرحمن بن عوف ؓ سا ت سو مجاہدین کے ساتھ دومۃالجندل کے علاقے میں
پہنچتے ہیں اور بنو کلب قبیلے کے لوگوں کو دعوت اسلام دیتے ہیں ۔ اس قبیلے
کا سردار اصبغ بن عمرو اور اس کے قبیلے نے آپ کے دست مبارک اسلام قبول
کرلیا۔سیدنا عبدالرحمن بن عوف نے نبی کریم ﷺ کے فرمان کی روشنی میں اصبغ کو
اس کی بیٹی سیدہ تماضر کے لیے نکاح کا پیغام دیا ٗجو قبول کرلیا گیا۔
چنانچہ یہ شادی دومۃ الجندل ہی کی سرزمین پر انجام پائی اور نبی کریم ﷺ کے
ارشادکے مطابق سیدنا عبدالرحمن بن عوف فتح یاب ہوکر اپنی دلہن کے ہمراہ
مدینہ طیبہ پہنچے ۔
اردن کے دارالحکومت عمان کے سفر نامے میں مصنف ایک اور واقعے کا ذکر کرتے
ہیں کہ عمان سے متصل شہر زرقا کا ذکر کرتے ہیں ۔یہ وہی جگہ ہے جہاں اﷲ کے
رسول ﷺ کی بددعا سے ابولہب کے بیٹے عتیبہ کو شیر نے پھاڑ کھایا تھا ۔یہ اور
اس اس کا بھائی عتبہ وہ بدبخت ہیں جنہوں نے اﷲ کے رسول ﷺ کی والدین کے گھر
بیٹھی بیٹیوں سیدہ رقیہ اورام کلثوم کو بلاوجہ طلاق دی تھی ۔
اس کے علاوہ بھی بے شمار واقعات اس سفرنامے میں ایسے جو اسلام کی سربلندی
اور نبی کریم ﷺ کی شان رسالت ﷺ کا اظہار بنتے ہیں کہ آپ ﷺنے جوبھی فرمایا
اﷲ تعالی نے اسے حقیقت میں بدل دیا ۔ عبدالمالک مجاہد کی یہ کتاب اس قدر
خوبصورت پیرائے اور تحریر کی گئی ہے کہ پڑھنے والے کی دلچسپی آخری الفاظ تک
قائم رہتی ہے ۔ بلکہ ایمان پہلے سے زیادہ پختہ ہوجاتاہے ۔ روحانیت کا اثر
کئی دن تک موجود رہتا ہے ۔سفرنامے تو بے شمار پڑھے اور خود بھی میں نے لکھے
ہیں لیکن ایسے سفر نامے بہت کم ہی دیکھے ہیں۔391 صفحات پر مشتمل یہ کتاب
دار السلام 36لوئر مال لاہور سے مل سکتی ہے کتاب پر قیمت کا ذکر
موجودنہیں۔لیکن یہ کتاب اس قدر لاثانی ہے کہ مدتوں اس تحریروں کا اثر ذہن
پر موجود رہتا ہے ۔ |