بسم اﷲ الرحمن الرحیم
کلیم اﷲ
وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید
باجوہ نے سعودی عرب کا ایک روزہ دورہ کیا ہے۔ دورہ کے دوران وزیر خارجہ
خواجہ محمد آصف اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار بھی ان کے
ہمراہ تھے۔ ریاض آمد پر گورنر ریاض شہزادہ فیصل بن بندر السعود نے وزیر
اعظم پاکستان کا استقبال کیا۔ اپنے دورہ کے دوران وزیر اعظم پاکستان شاہد
خاقان عباسی نے خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد
شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقاتیں کی ہیں۔شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے
پاکستانی وفد کے اعزاز میں ظہرانہ دیا اور ملاقات کے دوران علاقائی اور
عالمی امور سمیت باہمی تعلقات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ملاقات میں مختلف
شعبوں میں باہمی تعلقات میں مزید اضافے کے مختلف طریقوں پر بھی غور
کیاگیا۔وزیر اعظم پاکستان نے خطے میں امن و استحکام کے لیے سعودی عرب کی
قیادت کی کوششوں کی تعریف کی اور سعودی عرب کے شاہ سلمان کو اس سلسلے میں
پاکستان کے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔سعودی فرمانروا نے دونوں ممالک کے
درمیان مضبوط تعلقات اور پاکستانی سرزمین سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کو
جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پاکستان کی کوششوں کو سراہا۔پاکستان کی اعلیٰ
سیاسی و عسکری قیادت نے ایسے موقع پر سعودی عرب کا دورہ کیاہے کہ جب سعودی
دارالحکومت الریاض میں انسداد دہشت گردی کے لیے قائم 41 مسلم ممالک کے فوجی
اتحاد کا اجلاس جاری ہے۔دو دن قبل سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے
سعودی عرب کی زیر قیادت دہشت گردی کے خلاف اسلامی فوجی اتحاد کے پہلے
باضابطہ اجلاس میں رکن ممالک کے وزرائے دفاع کی میزبانی کی تھی۔
صلیبی جنگوں کے بعد مسلم خطوں و علاقوں پر عالم کفر نے قبضے کئے اور
مسلمانوں کو غلامی کی دلدل میں دھکیل دیا گیا۔ ایک طویل عرصہ یونہی گزرا
لیکن جب مسلمانوں نے اپنی آزادیوں و حقوق کے تحفظ کیلئے میدانوں کا راستہ
اختیار کیا تو دنیا میں نام نہاد امن کے ٹھیکیدار ملک سب ایک ہو گئے اور
امریکہ کی قیادت میں فوجی اتحاد بنا کر مسلم ملکوں پر چڑھائی کا سلسلہ شروع
کر دیا گیا۔ پہلے نائن الیون کے بہانے افغانستان پر حملہ کیا اور بارود
برسا کر دس لاکھ سے زائد مسلمانوں کوخاک و خون میں نہلا دیاگیا۔ پھر عراق
میں کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کا جھوٹا الزام لگایا اوروہاں بھی آتش و
آہن کی بارش کر کے لاکھوں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔امریکہ اور اس کے
اتحادیوں نے بغیر کسی ثبوت کے مسلمان ملکوں کیخلاف پروپیگنڈا کیااور مسلم
خطوں و علاقوں پر قبضے کر نے کیلئے ڈیزی کٹر بم برسائے جاتے رہے لیکن کوئی
انہیں پوچھنے والا نہیں تھا۔ اقوام متحدہ جیسے اداروں نے بھی امریکہ کی
لونڈی ہونے کا کردار ادا کیا اور نہتے مسلمانوں کابہتا ہوا خون روکنے کیلئے
کسی قسم کا کردار ادا کرنے کی سرے سے کوئی کوشش ہی نہیں کی۔ امریکہ کی
قیادت میں نیٹو فورسز نے مظالم کی نئی داستانیں رقم کیں تاہم کسی نے ان کا
ہاتھ نہیں روکا تاہم جب افغانستان میں اتحادیوں کو بدترین شکست کا سامنا
کرنا پڑا اور انہوں نے دیکھا کہ اس سے پوری دنیا میں مظلوم مسلمانوں کے
حوصلے بلند ہوئے ہیں اور وہ سمجھ رہے ہیں کہ اگر نہتے افغانی امریکیوں کو
شکست دے سکتے ہیں تو کشمیری و فلسطینی مسلمان بھی بھارت و اسرائیل کو شکست
دے سکتے ہیں۔ اسی طرح دیگر خطوں کے مظلوم مسلمانوں میں بھی آزادیوں کے حصول
کیلئے جدوجہد کا جذبہ پیدا ہواتو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو پریشانی
لاحق ہوئی اور میدانوں میں ناکامی دیکھ کر وہی پرانے حربے اختیار کئے
گئے۔مسلمان ملکوں میں فتنہ تکفیر اور خارجیت کے بیج بونا شروع کر دیے۔ عراق
و شام میں داعش جیسی تنظیمیں کھڑی کی گئیں تو دوسری جانب پاکستان ،
افغانستان، سعودی عرب، ترکی، مصر اور دیگر اسلامی ملکوں میں بھی تکفیری
گروہوں کوپروان چڑھانے کا آغاز کر دیا گیا۔ اس مقصد کیلئے بے پناہ وسائل
خرچ کئے گئے اور مسلمانوں کو باہم دست و گریباں کرنے کی خوفناک سازشیں کی
گئیں۔ منظم منصوبہ بندی کے تحت فرقہ واریت میں تشدد پیدا کیا گیا۔ خودکش
حملوں کو ہوا دی گئی اور کفر کے فتوے لگا کر قتل و غارت گری کی راہیں ہموار
کی گئیں۔ مسلمانوں کا اتحاد پارہ پارہ ہو گیا۔ دشمن قوتوں کو مسلمان ملکوں
میں مداخلت کے مواقع ملے اور شیعہ سنی کے لڑائی جھگڑے کھڑے کئے جاتے رہے۔
صلیبیوں و یہودیوں کی کوشش تھی کہ کسی طرح مسلمانوں کو آپس میں دست و
گریباں رکھا جائے تاکہ وہ باہم لڑائی جھگڑوں میں اپنے وسائل برباد کرتے
رہیں۔ ان کی اس تخریب کاری اور سازشوں کے نتیجہ میں سارا مشرق وسطیٰ ان
لڑائیوں کی لپیٹ میں آگیا۔پاکستان، سعودی عرب اوردیگر مسلمان ملکوں میں بھی
تکفیری گروہوں کی دہشت گردی سے بہت زیادہ نقصانات ہوئے۔یہ جنگ کی ایک نئی
شکل ہے جو مسلمانوں پر مسلط کی گئی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ داعش کے
جہاز اتحادی ملکوں کی زیر نگرانی تیل کی تجار ت کر رہے ہیں۔ بڑے پیمانے پر
انہیں اسلحہ فرام کیا جارہا ہے ‘کوئی انہیں روکنے والا نہیں ہے لیکن دوسری
جانب دنیا بھر میں ڈھنڈورا پیٹاجا رہا ہے کہ وہ داعش جیسی تنظیموں کے خاتمہ
کیلئے کردار ادا کر رہے ہیں۔حالانکہ یہ بہت بڑا جھوٹ اور دھوکہ ہے۔ ہیلری
کلنٹن اور دوسرے امریکی و برطانوی عہدیداران کے یہ بیانات ساری دنیا کے
سامنے ہیں جن میں ان کی طرف سے داعش بنانے کا جرم تسلیم کیا گیا۔ حقیقت یہ
ہے کہ یہی اسلام کی نام لیوا یہ تنظیمیں اس وقت سب سے زیادہ اسلام کی
بدنامی کا باعث بن رہی ہیں۔ کسی کو جلتی ہوئی آگ میں ڈال کر جلایا جاتا اور
کسی کو پنجرے میں ڈال کر پانی میں ڈبویا اور پھر اس کی ویڈیوز پوری دنیا
میں دکھا کر اسلام کو ایک ظالمانہ مذہب کے طو رپر پیش کیا جارہا ہے۔بہرحال
ان حالات میں اس بات کی بہت زیادہ ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ مسلمان ایک
پلیٹ فارم پر جمع ہوں اور کشمیر، فلسطین و شام جیسے مسائل حل کرنے کیلئے
دنیائے کفر کی طرف دیکھنے کی بجائے خود انہیں حل کرنے کی کوشش کریں۔ اسی
ضرورت و اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے سعودی عرب، پاکستان اور بعض دوسرے
اسلامی ملکوں کی مشترکہ کوششوں سے 41مسلم ملکوں کا اتحاد تشکیل دیا گیا ۔
نیٹو طرز پر اسلامی ملکوں کے فوجی اتحاد پر دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرف سے
زبردست خوشی کا اظہار کیا جارہا ہے۔ طویل عرصہ سے اسلام و مسلمانوں سے
ہمدردی اور خیرخواہی رکھنے والی تنظیموں اور قائدین کی جانب سے مسلم
حکمرانوں پر زور دیا جارہا تھا کہ مسلمانوں کو درپیش مسائل کا حل اتحا
دویکجہتی کا راستہ اختیا رکرنے اور اپنے قدموں پر کھڑاہونے میں ہے ‘ اس لئے
مسلم ملکوں کے اتحاد پر توجہ دی جائے۔ان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ جن
ملکوں اور عالمی اداروں سے مسلم حکومتیں امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں کہ وہ
آپ کے مسئلے حل کریں گے درحقیقت یہی تووہ قوتیں ہیں جنہوں نے سب مسائل کھڑے
کئے اور مسلمان ملکوں کو انتشار و افتراق میں مبتلا کر رکھا ہے۔آنے والے
دنوں میں یہ اتحاد عملی طور پر مضبوط شکل اختیار کرتا ہے تو اس کے یقینا
دور رس اثرات مرتب ہوں گے اور سعودی عرب، پاکستان و دوسرے اسلامی ملکوں
کیخلاف عالم کفر کی جاری سازشوں کو ان شاء اﷲ پوری قوت سے ناکام بنایا
جاسکے گا۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید
باجوہ کا حالیہ دورہ سعودی عرب اس لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ
پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے ایسے موقع پر دورہ کیا ہے جب اسلامی
فوجی اتحاد کے وزرائے دفاع کا اجلاس جاری ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کی
قیادت کے مابین ملاقاتوں کے ان شاء اﷲ مستقبل میں دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
مسلمان ملکوں کو چاہیے کہ وہ دفاع کی طرح اپنی معاشی قوت بھی مضبوط بنائیں
اور ڈالرو پاؤنڈ کی غلامی سے نکل کر اپنی مشترکہ کرنسی تشکیل دیں۔اسی طرح
وہ اسلامی ملک جو سعودی عرب کی زیر قیادت اس اتحاد میں شامل نہیں ہیں‘انہیں
چاہیے کہ وہ بیرونی سازشوں کے توڑ کیلئے اسلامی ملکوں کے اتحاد کا باقاعدہ
حصہ بنیں۔ دشمن کے مذموم عزائم ناکا م بنانے کیلئے مسلمانوں کا عملی طور پر
ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا بہت ضروری ہے۔ |