تعارف و تبصرہ : وصیل خان
نام کتاب : ضیاءفتح آباد ی :حیات اور کارنامے
مصنف : ڈاکٹر شبیر اقبال
صفحات : 368 قیمت : 450/- روپئے
ناشر : مہر فاؤنڈیشن دھولیہ ( متاع ابوالفخر2532 گلی نمبر 14مادھوپورہ ،پالابازار
دھولیہ 424001( مہاراشٹر)
ملنے کےپتے : انجمن ترقی اردو ہند ، اردو گھر212 راؤزایوینیو نئی دہلی
110001 مکتبہ جامعہ لمٹیڈ ،نئی دہلی اور ممبئی ۔سٹی بکڈپو، قصاب باڑہ مسجد
شاپنگ سینٹرمالیگاؤں ( ناسک ) مہاراشٹر ،صالحہ
بک سیلرزجامع مسجد مومن پورہ ناگپور۔مدینہ بکڈپو، مولوی گنج دھولیہ 440018
(مہاراشٹر )
ڈاکٹر شبیر اقبال سے میری ایک نہایت مختصر ملاقات اس لئے ذہن میں محفوظ رہ
گئی کہ انہوں نے اس وقت جو باتیں کیں اس میں انتہائی خلوص اور انکسار شامل
تھا ، ان کی آنکھوں میں اردو زبان و ادب کے بقاوتحفظ کیلئے ایسا درد نظر
آیا جس نے مجھے ان کا گرویدہ بنادیا وہ اردو کے سچے سپاہی اور صحیح معنوں
میں ایک خاموش خدمت گار نظرآئے ،خاموش سے میری مراد وہ خدمتگار جو صرف
محنت و لگن پر یقین رکھتا ہے ،شورو غوغا پر نہیںجیسا کہ فی زمانہ اس کا چلن
بہت بڑھ گیا ہے ۔اسی دوران انہوں نے مجھے اپنی ایک کتاب عنایت کی تھی کہ
میں اس پر کچھ اظہار خیال کردوں لیکن کسی سبب ایسا نہ ہوسکا اور وہ کتاب
بھی دفتری تبدیلیوں کے سبب میرے ہاتھوں سے جاتی رہی جس کا مجھے بے حد افسوس
ہوا ، بات آئی گئی ہوگئی ۔ابھی کچھ دنوں قبل انہوں نے بذریعہ ٹیلی فون جب
استفسار کیا تو میں معقول عذر پیش کرتے ہوئے کتاب کے تلف ہوجانے کی بات
بتادی ، انہو ں نے فورا ً میرا عذر قبول کرلیا اور دوبارہ وہ کتاب مجھے
ارسال کردی ، جو اس وقت میرے سامنے ہے اور اسی پر اپنے کچھ شکستہ تاثرات
پیش کررہا ہوں ۔دراصل یہ کتاب موصوف کا ایک تحقیقی مقالہ ہے جس پر انہیں
ڈاکٹریٹ کی سند تفویض کی گئی ہے۔یہ مقالہ گلستان داغ کے مشہور اور قدآور
شاعر علامہ سیماب اکبرآبادی کے شاگر د مہر لال سونی ضیاء فتح آباد ی کی
حیات اور ادبی کارناموں پر محیط ہے ۔کتاب کا بالاستیعاب مطالعہ یہ باور
کرتا ہے کہ انہوں نے رسماً یا محض حصول سند کی خاطر یہ کتاب نہیں تصنیف کی
ہے بلکہ اس میں انہوں نے انتہائی سچے جذبے اور خلوص کی آمیزش کی ہے ۔تحقیق
کا حق اس طرح ادا کیا ہے کہ اس مقالے کی تیاری میں انہوں نے نہ صرف کتب
خانوں کی خاک چھانی بلکہ اس تعلق سے متعدد صبر آزما اسفار بھی کئے نتیجتا
ً ایوان ادب میں ایک ایسی کتاب کا اضافہ ہوا جسے ہمیشہ قدر کی نگاہوں سے
دیکھا جائے گا ۔ایک ایسے دور میں جب شعبہ ٔ تعلیمات میں یہ چلن عام ہوچکا
ہے کہ طلباءاپنی تن آسانی کیلئےایسے افراد کی تلاش میں رہتے ہیں جو چند
پیسوں کے عوض مقالات فروشی کا کام کرتے ہیں اور مقالات بھی ان کے اپنے نہیں
ہوتے بلکہ انہیں وہ مختلف کتابوں کے ذریعے ادھر ادھر سے جوڑتوڑ کرکے تیار
کرلیتے ہیں ۔ڈاکٹر شبیر اقبال کی یہ تحقیقی کتاب خود فریبی کے شکار ان تن
آسانو ں کیلئے کسی تازیانے سے کم نہیں جس میںسخت محنت کے ساتھ اپنی
صلاحیتوں کا مظاہر ہ کیا گیا ہے ۔آج اردو اسکولوں ، کالجوں یہاں تک کہ
یونیورسٹیوں کا اگر سرسری جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اردو اساتذہ کی
بیشتر تعداد ایسی ہے جو اردو کے رموز و نکات سے بہت کم علاقہ رکھتی ہے اور
پیسو ں کے بل پر دوسروں سےمستعار لیاقتوں کے ذریعے حاصل کردہ ڈگریوں کی
بدولت مختلف درسگاہوں پر قبضہ جمائے ہوئے ہے، ایسے میںیہ اندازہ کیا جاسکتا
ہے کہ وہ اساتذہ اپنے طلباء کو علم ودانش کا کون سا معیار فراہم کرتے ہوں
گے ۔کتاب کا پیش لفظ محمد ضیاء الدین نے تحریر کیا ہے اور مقدمہ ڈاکٹر تابش
مہدی نے لکھا ہے ، جبکہ ڈاکٹر مجاہد حسین حسینی اور ڈاکٹر ہارون فراز نے
اپنے تاثرات پیش کئے ہیں ۔ ڈاکٹر تابش مہدی لکھتے ہیں ۔
’’ زیر نظر کتاب ضیاء فتح آبادی : حیات اور کارنامے ، ڈاکٹر شبیر اقبال کی
علم دوستی ، ان کی شعرو ادب سے غیر مشروط وابستگی اور مخلصانہ تحقیق و
حستجو کا مظہر ہے ۔اس میں انہوں نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے ضیاءفتح آباد
ی کی زندگی اور ان کی شعری و ادبی کاوشوں کا مطالعہ کیا ہے ، انہوں نے اس
تحقیقی مقالے کے سلسلے میں دھولیہ سے دہلی اور دوسرے مقامات کا سفر کرکے
ضیاء فتح آبادی کے عزیزوں ، شاگردوں ، دوستوں اور دوسرے جاننے والوں سے
ملاقاتیں کیں، مختلف لوگوں کے نام ضیاء صاحب کے خطوط جمع کئے ،مختلف
اخبارات و رسائل میں ضیاء صاحب کے یا ان سے متعلق شائع ہونے والے مضامین
حاصل کئے ۔لائبریریوں سے ان کی کتابوں اور دوسرے دستاویزات اکٹھا کئے اور
جہاں ضرورت محسوس ہوئی اہل علم سے زبانی گفت و شنید بھی کی ہے ۔پھر ان سب
تحریروں ، اخباری تراشوں ، خطوط اور زبانی بات چیت کو ابواب کی شکل میں پیش
کرکے ان پر نقد و تجزیہ کرتے ہوئے نذر قارئین کیا ہے اور انتہائی دو ٹوک
اور واضح انداز میں اردو دنیا کو یہ بات بتائی ہے کہ ضیاء فتح آبادی کیا
تھے اور شعرو ادب میں ان کی کیا حیثیت تھی ؟ یہ ان کا ایسا کارنامہ ہے جس
سے علم و ادب کی دنیا میں تا دیر استفادہ کیا جاتا رہے گا ۔ ‘‘
۳۶۸؍صفحات پر مشتمل اس کتاب کو چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ۔پہلے باب
میں ضیا ء فتح آبادی کی شخصیت اور ان کے خاندانی پس منظرکے ساتھ ان کی
حیات کے ان تمام تر پہلوؤں پر نہایت جامعیت کے ساتھ بالتفصیل روشنی بکھیری
گئی ہے جن سے ان کی مکمل زندگی سامنے آجاتی ہے ۔دوسرے باب میں بہ حیثیت
شاعر ان کا تجزیاتی مطالعہ کیا گیا ہے، اس ضمن میں ان کی شعرگوئی کی ابتدا،
سیماب اکبرآبادی سے شرف تلمذ ، تلامذہ ٔ ضیافتح آبادی کے عنوانات سے
روشنی ڈالتے ہوئے ان کے تمام شعری مجموعوں کا الگ الگ جائزہ لیا گیا ہے ،
ساتھ ہی ان کے مشہور شاگردوں کے فن پر بھی مدلل بحث کی گئی ہے ۔اسی طرح
تیسرے باب میں موصوف کی نثر نگاری کے حوالے سے ان کے مضامین اور فن افسانہ
نگاری سے ان کی گہری وابستگی کا تذکرہ کرتے ہوئے مختلف نکات سے ان کے فن کو
پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔چوتھے با ب میں مختلف مشاہیر شعرا و ادبا کی
آراشامل ہیں جن میں موصوف کی مختلف النوع ادبی جہات و تحریکات زیر بحث
لائی گئی ہیں ۔ کتاب میں شامل آراءکی تعداد ۸۶؍ کے قریب ہے ۔وہ کب اورکہاں
شائع ہوئیںاس کی تاریخ اشاعت بھی درج کردی گئی ہے ۔اخیر میں موصوف کی غزلوں
، متفرق اشعار ، قطعات و رباعیات اور نظموں کا ایک انتخاب بھی موجود ہے
۔مجموعی طور پر اس کتاب کے ذریعے ضیاء فتح آبادی کی جملہ ادبی تحریکات کے
تمام زاویئے اس طرح روشن کردیئے گئے ہیں کہ انہیں سمجھنے کیلئے کہیں اور
جانے کی ضرورت نہیں ،بس کتاب اٹھایئے اور سب کچھ دیکھ لیجئے ۔زبان و اسلوب
سادہ و دلکش اور انتہائی سہل ہے جس کے سبب اول تا آخر قاری کی دلچسپی
برقرار رہتی ہے ۔ایوان ادب میں اس کتاب کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے ۔ |