شرح بخاری میں علامہ محمد دائود راز رحمہ اللہ
کی ترجمہ نگاری اور اس کا اادبی اسلوب
٭عبدالباری شفیق السلفی
مدیر ماہنامہ مجلہ ’’ النو ر ‘‘ ممبئی
ترجمہ نگاری کی اہمیت وضرورت ہر دور اورہر زمانہ میں مسلم رہی ہے یہ ایک
ایسا فن ہے جس کے بغیر دوسری زبانوں کے علوم وفنون سے آشنائی ناممکن ہے
۔اورنہ ہی اس کے بغیر کوئی بھی زبان جدید اور ترقی پذیر ہونے کا دعویٰ
کرسکتی ہے۔نیز ترجمہ نگاری ہی وہ فن ہے جس کے ذریعہ ایک قوم دوسری قوم کے
ذخیرہ علم وادب سے مستفید ہوتی ہے ۔
فن ترجمہ نگاری تصنیفی وتالیفی کاموں سے قدرے مختلف اور مشکل وپیچیدہ ہے
،کیونکہ تصنیف وتالیف میں مصنف یا مولف اپنے الفاظ میں اپنے مافی الضمیر کی
ادائیگی کا پورا اختیار رکھتاہے جب کہ ترجمہ نگاری میں مترجم اس بات کا
مکلف ہوتاہے کہ صاحب کتاب یا صاحب مضمون کے فکر وخیال سے بھٹکنے نہ پائے۔
یہی وجہ ہے کہ ایک خیال کو تخلیق کا جامہ پہنانے والا شاید اتنا زیادہ نہیں
سوچتا جتنا کہ دوسری زبان میں اس تخلیق کو منتقل کرنے والا سوچتاہے اس کی
تخلیق تو ایک طرح سے جبری اور فطری تقاضے کا نتیجہ اور مکلف ہوتی ہے ۔
ڈاکٹر جمیل جالبی فن ترجمہ نگاری کی باریکی اور اہمیت کو بیان کرتے
ہوئےلکھتے ہیں کہ : ’’ترجمے کا کام یقینا ایک مشکل کام ہے اس میں مترجم
،مصنف کی شخصیت ،فکر واسلوب سے بندھا ہوتاہے۔ایک طرف اس زبان کا کلچر جس کا
ترجمہ کیا جارہاہے اسے اپنی طرف کھینچتاہے اور دوسری طرف اس زبان کا کلچر
،جس میں ترجمہ کیاجارہے ،یہ دونوں خود مترجم کی شخصیت کو توڑ دیتی ہے‘‘۔
لیکن ان مصائب ومشکلات کے باوجود ترجمہ نگاری کی اہمیت کی وجہ سے اس اہم فن
کی طرف خصوصی توجہ دی گئی اور ماضی قریب وبعید میں بھی اہل علم وفن نے نہ
صرف اس کی طرف توجہ دی بلکہ دنیا کے مختلف اہم دینی وتاریخی شہ پاروں کو
عربی زبان سے دوسری زندہ جاوید زبانوں میں ترجمہ کیا۔حتی کہ حکمراں
وبادشاہوں نے کتب خانے قائم کرکے منفرد اور اہم کتابوں کی تصنیف وتالیف کے
ساتھ ساتھ ترجمہ نگاری پر بھی خصوصی توجہ دیا۔ بغداد کے بیت الحکمت اور مصر
کے بیت الحکم جیسے کتب خانے اس کی زندہ مثالیں ہیں ۔ اہم بات یہ ہے کہ جب
ہم اردو زبان وادب کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ
برصغیر ہندوپاک میں ترجمہ نگاری کا کام تقریبا پندرہویں صدی کے نصف آخر ہی
سے نظر آتا ہے ،اورسولہویں وسترہویں صدی میں اس فن کو کافی ترقی حاصل ہوئی
۔ چنانچہ اٹھارویں صدی کے خاتمے ( 1786)پر دلی میں قرآن مجید کے دوترجمے
اردو زبان میں کئے گئے ۔اور یہ دونوں ترجمے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ
اللہ کے صاحبزادے مولانا شاہ رفیع الدین اور ان کے چھوٹے بھائی شاہ
عبدالقادر (1795)نے کئے۔ شاہ رفیع الدین کا ترجمہ لفظی تھا ،اس میں ہر لفظ
کا اس طرح ترجمہ کیا گیا تھا کہ اردو فقروں کی ساخت یا شکل بدل گئی تھی اور
اس میں سلا ست وروانی باقی نہ تھی ،اس لئے اس کا اصل مفہوم سمجھنے میں دقت
ہوتی تھی۔ لیکن شاہ عبدالقادر صاحب کاترجمہ شاہ رفیع الدین کے مقابلے میں
آسان،شستہ ، سلیس اور رواںتھا اور ان کے ترجمہ کا مقصد یہ تھا کہ جو لوگ
عربی زبان سے ناواقف ہیں وہ بھی اس مقدس کتاب (قرآن مجید ) کو بآسانی
سمجھ سکیں اوراس کے معانی ومفاہیم تک رسائی حاصل کرسکیں۔
اسی طرح قرآن مجید کی ترجمہ نگاری کے بعد اہل علم وفن نے دوسری مذہبی
کتابوں کا بھی اردو میں ترجمہ کیا ہے ۔جہاں تک امام المحدثین ابوعبداللہ
محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ کی شہرہ آفاق کتاب صحیح بخاری کا تعلق
ہے جسے دنیا میں اصح الکتب بعد کتاب اللہ کا درجہ حاصل ہے جس کی تصنیف
وتالیف میں امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی عرق ریزی اور محنت وجانفشانی کے
ساتھ تقریبا چھ لاکھ حدیثوں میں سے منتخب فرمایا ،جس کی تصنیف کے بارے میں
محدثین اور علمائے امت کا اجماع ہے کہ اس کی تمام حدیثیں صحیح اوراعلیٰ
معیار کی ہیں ،محدثین کے اس متفقہ فیصلہ کو اگرچہ الہامی اور حتمی نہیں
قرار دیاجاسکتا لیکن اس کے باوجود جب ہم نقل حدیث کے اصول وضوابط پر غور
کرتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ صحت حدیث کی تمام بنیادی شرائط بدرجہ اتم اس
میں موجودہیں ۔ حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ اس کی اہمیت کے پیش نظر لکھتے
ہیں کہ : ’’کتاب بخاری ایک محدث ومجتہد کی محض کتاب ہی نہیں بلکہ مجتہد گر
کتاب ہے کہ جو مجتہد بنادیتی ہے ،غور وتعمق سے پڑھنے والوں کو ‘‘۔
صحیح بخاری میں امام بخاری رحمہ اللہ نے جس فنکارانہ اور مجتہدانہ انداز
اور نئے اسلوب کے ساتھ ابواب بندی کا معیار قائم کیاہے اور ایک الگ طرز سے
اس کے ابواب باندھے ہیں جو آپ کے تفقہ فی العلم والحدیث کابین ثبوت ہے
،یہی وہ خاصیت اور جامعیت نیز اسلوب نگارش ہے جسے بعد کے ائمہ نے بھی مشعل
راہ بنایا۔اس شہرہ آفاق کتاب کے مؤلف شہر بخارا میں ۱۳؍شوال ۱۹۴ھ بعد
نماز جمعہ پیدا ہوئے ،آپ ایک زاہد ومتقی اور پر ہیز گار انسان تھے،آپ کے
والد بزرگوار حضرت العلام مولانا اسماعیل صاحب رحمہ اللہ بھی اکابر محدثین
میںسے تھے ،جن کی کنیت ابوالحسن تھی جو امام مالک کے اخص تلامذہ میںسےشمار
کیے جاتےہیںاورانہوں نےامام مالک کے علاوہ حماد بن زید اور ابو معاویہ
عبداللہ بن مبارک وغیرہ سےاحادیث روایت کی ہیںجبکہ احمد بن حفص نصر بن حسین
وغیرہ آپ کے شاگر د خاص ہیں ۔
امام بخاری رحمہ اللہ بہت نیک اور خداترس شخصیت کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ
بہت ذہین وفطین بھی تھے ،آپ نے صحیح بخاری کو چھ لاکھ حدیثوں سے منتخب
کرکے سولہ سال کی طویل مدت میں جمع کیا ،اور اس جامع ترین کتاب کے طریقہ
تالیف کے متعلق خود فرمایاکہ : میں نے کوئی حدیث اس کتا ب میںاس وقت تک
داخل نہیں کیا جب تک غسل کرکے دورکعت نماز نہ ادا کرلی ،بیت اللہ شریف میں
اسے میںنے تالیف کیا ،اور دو رکعت نماز پڑھ کر ہر حدیث کے لئے استخارہ کیا
مجھے جب ہر طرح سے اس حدیث کی صحت کا یقین ہوا تب میں نے اس کے اندراج کے
لئے قلم اٹھایا ،اس کو میں نے اپنی نجات کے لئے حجت بنایا اور چھ لاکھ
حدیثوں سے چھانٹ چھانٹ کر میں نے اسے جمع کیا‘‘۔ اسی طرح علامہ ابن عدی
اپنے شیوخ کی ایک جماعت سے ناقل ہیں کہ امام بخاری الجامع الصحیح کے تمام
تراجم ابواب کو حجرہ نبوی اور منبر کے درمیان بیٹھ کر اور ہر ترجمۃ الباب
کو دو رکعت نماز پڑھ کر اور استخارہ کرکے کامل اطمینان قلب ہونے پر صاف
کرتے‘‘۔وراق نے اپنا ایک واقعہ بیان کیاہے کہ میں امام بخاری کے ساتھ تھا
میں نے آپ کو کتاب التفسیر لکھتے وقت دیکھا کہ رات میں پندرہ بیس مرتبہ
اٹھتے ،چقماق سے آگ روشن کرتے اور چراغ جلاتے اور حدیثوں پر نشان دے کر سو
رہتے ۔اس سے پتہ چلتاہے کہ امام صاحب سفر وحضر میں ہر جگہ تالیف کتاب میں
مشغول رہا کرتے تھے اور جب بھی کسی حدیث کے صحیح ہونے کا یقین ہوجاتااس پر
نشان لگا دیتے ،جہاں تک معاملہ تراجم ابواب کی ترتیب وتہذیب اور ہر باب کے
تحت حدیثوں کے درج کرنے کا ہےتو اس کو امام صاحب نے ایک بار حرم شریف
میںاور دوسری بار مدینہ منورہ میں مسجد نبوی منبر ومحراب نبوی کے درمیان
بیٹھ کر انجام دیا ۔اسی طرح تراجم ابواب کی تہذیب وتبویب کے وقت جو حدیثیں
ابواب کے تحت لکھتے، تو پہلے غسل کرکے استخارہ کرلیتےپھر لکھتے ،اس طرح پوے
سولہ سال کی مدت میں اس عظیم کتاب کی تالیف سے فارغ ہوئے‘‘۔(سوانح امام
بخاری ۔از صحیح بخاری ،مترجم دائود راز : ص ۳۴،۳۵)
جب ہم شروحات بخاری پر ایک طائرانہ نگاہ دوڑاتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ بر
صغیرہند وپاک میں اس کے متعدد تراجم وحواشی اور شرحیں عربی واردو کے علاوہ
دیگر زندہ زبانوں میںموجود ہیں،عربی زبان میں علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی
کی مایہ ناز شرح ’’فتح الباری ‘‘ عالمی شہرت یافتہ کتاب ہے ،اسی طرح اردو
زبان میں بھی اس کے بے شمار ترجمے ہوچکے ہیں ۔اس حوالے سے سب سے زیادہ
مشہورترجمہ علامہ وحید الزماں خان صاحب کاہے۔ اسی طرح برصغیر ہندوپاک کے
مشہور عالم دین حضرت العلام مولانا محمد دائود راز رحمہ اللہ کا ترجمہ
بخاری ہے۔اس کے علاوہ فیض الباری ازابو الحسن سیالکوٹی ، توفیق الباری شرح
صحیح بخاری ڈاکٹر عبد الکبیر محسن وغیرہ کے تراجم قابل ذکر ہیں ۔لیکن جب ہم
علامہ داؤد راز کے ترجمہ کے علاوہ دیگر تراجم کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم
ہوتا ہے کہ علامہ داؤد راز کے ترجمہ وتشریح کو دیگر تمام شروحات پر فوقیت
حاصل ہے ۔آپ کے الفاظ وجملے ،اسلوب نگارش اور طرز تشریح ،ترجمہ نگاری ادبی
ومعنوی ذوق سے بالکل پر ہے اور اس کتاب کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد
معلوم ہوتاہے کہ علامہ راز کا ترجمہ متن حدیث کی مکمل عکاسی کرتا ہے آپ کے
ترجمہ کی زبان بالکل سادہ ،سلیس اور ہر خاص وعام کے لیے قابل فہم ہے اور
زبان وادب کی جامعیت ومعنویت سے بھر پور ہے، عموماترجمہ نگاری میں سلاست
اور زبان وادب کی لفظی ومعنوی جامعیت اور فساحت وبلاغت کو قائم رکھنا بڑاہی
مشکل امر ہوتا ہےمگر راز صاحب کے ترجمہ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ آپ کے
یہاں زبان وادب کی پوری چاشنی اور فصاحت وبلاغت کی پوری لذت آفرینی موجود
ہے۔جو دیگر مترجمین کے یہاں نایاب تو نہیں مگر کمیاب ضرور ہیں ۔ بطور دلیل
ہم صحیح بخاری کی پہلی حدیث آپکی خدمت عالیہ میں پیش کرتے ہیں جس سےعلامہ
دوائود راز صاحب کی ترجمہ نگاری میںمہارت کا پتہ لگتا ہے: حدیث نمبر : 1 :
حدثنا الحميدي عبد الله بن الزبير، قال حدثنا سفيان، قال حدثنا يحيى بن
سعيد الأنصاري، قال أخبرني محمد بن إبراهيم التيمي، أنه سمع علقمة بن
وقاص الليثي، يقول سمعت عمر بن الخطاب ـ رضى الله عنه ـ على المنبر قال
سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول " إنما الأعمال بالنيات، وإنما
لكل امرئ ما نوى، فمن كانت هجرته إلى دنيا يصيبها أو إلى امرأة ينكحها
فهجرته إلى ما هاجر إليه "۔ (صحیح بخاری جلد 1، از ترجمہ وتشریح: حضرت
مولانا محمد داؤد راز رحمہ الله ۔ کتاب الوحی۔حدیث :۱ ص : ۱۴۹،۱۵۰۔ناشر
مکتبہ قدوسیہ اردوبازار لاہور،سن اشاعت مارچ 2001) ترجمہ : ہم کو حمیدی نے
یہ حدیث بیان کی، انھوں نے کہا کہ ہم کو سفیان نے یہ حدیث بیان کی، وہ کہتے
ہیں ہم کو یحییٰ بن سعید انصاری نے یہ حدیث بیان کی، انھوں نے کہا کہ مجھے
یہ حدیث محمد بن ابراہیم تیمی سے حاصل ہوئی۔ انھوں نے اس حدیث کو علقمہ بن
وقاص لیثی سے سنا، ان کا بیان ہے کہ میں نے مسجد نبوی میں منبر رسول صلی
اللہ علیہ وسلم پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی زبان سے سنا، وہ فرما
رہے تھے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ
علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر عمل کا
نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ پس جس کی ہجرت ( ترک وطن
) دولت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض ہو۔ پس اس کی
ہجرت ان ہی چیزوں کے لیے ہو گی جن کے حاصل کرنے کی نیت سے اس نے ہجرت کی
ہے۔اسی حدیث کا ترجمہ علامہ وحید الزماں نے کچھ اس انداز سے کیا ہے۔
ترجمہ : ہم سے بیان کیا حمیدی نے کہا ہم سے بیان کیا سفیان نے کہا ہم سے
بیان کیا یحیٰ بن سعید انصاری نے کہا مجھکو خبردی محمد بن ابراہیم تیمی نے
انہوں نے سنا علقمہ بن وقاص سے وہ کہتے ہیں میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی
اللہ عنہ سے منبر پر سنا فرماتے تھے ، جتنے ( ثواب کے ) کام ہیں وہ نیت ہی
سے ٹھیک ہوتے ہیں اورہر آدمی کو وہ ملے گا جو نیت کرے پھر جس نے دنیا
کمانے یا کوئی عورت بیاہنے کے لیے ہجرت کی ( دیس چھوڑا) اس کی ہجرت اسی کام
کے لئے ہوگی۔ ( صحیح عکسی بخاری شریف ،مترجم حضرت علامہ وحید الزماں خان
،جلداول ،پہلا پارہ ،ص: ۱۰۲ ،کتاب الوحی ،باب کیف کان بدالوحی الی رسول
اللہ ﷺ ، حدیث نمبر۱ ۔ ناشر اعتقاد پبلشنگ ہائو س پرایئویٹ لیمیٹڈ ،دریاگنج
دہلی )
جب کہ شیخ الحدیث ابو محمد حافظ عبدالستار حماد حفظہ اللہ نے اس حدیث کا
ترجمہ ایک الگ اندازسے کیاہے ۔ ترجمہ : حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے ،بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے سنا آپ فرماتے تھے ’’ (
ثواب کے) تمام کام نیتوں پر موقوف ہیں اور ہر آدمی کو اس کی نیت ہی کے
مطابق پھل ملے گا پھر جس شخص نے دنیا کمانے یا کسی عورت سے شادی رچانے کے
لئے وطن چھوڑا تو اس کی ہجرت اسی کے لئےہے ،جس کے لئے اس نے ہجرت کی ہوگی
‘‘۔ (مختصر صحیح بخاری ج؍۱ ص:۷۳،مکتبہ دارالسلام ریاض ، مترجم شیخ الحدیث
ابو محمد حافظ عبدالستار )
اسی طرح صحیح بخاری کی آخری حدیث کاترجمہ علامہ وحید الزماںنےکچھ اس طرح
کیاہے:’’حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِشْكَابٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ
فُضَيْلٍ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ
أَبِي هُرَيْرَةَ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلى
الله عليه وسلم كَلِمَتَانِ حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ خَفِيفَتَانِ
عَلَى اللِّسَانِ ثَقِيلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ سُبْحَانَ اللهِ
وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ‘‘(صحیح بخاری از :وحید الزماںخاں
)ترجمہ: ہم سے احمد ابن اشکاب نے بیان کیا،کہا ہم سے محمد بن فضیل نے انہوں
نے عمارہ بن قعقاع سے انہوں نے ابو زراعہ سے انہوں نےابوہریرہؓ سے انہوں نے
کہا آنحضرت ﷺ نے فرمایا : دوکلمے ایسے ہیں جو خداوند کریم کو بہت پسند ہیں
زبان پر ہلکے ہیں (قیامت کے دن )اعمال کے ترازو میں بوجھل اور وزنی ہونگے
وہ کیا ہیں ’’سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ‘‘۔
جب کہ اسی حدیث کاترجمہ علامہ داؤد راز نے نہایت سلیس اور عام فہم زبان
میں اس طرح کیاہے ۔ترجمہ: ہم سے احمد ابن اشکاب نے بیان کیا ،کہا ہم سے
محمد بن فضیل نے، ان سے عمارہ ابن قعقاع نے ، انہوں نے ابو زراعہ سے ،
انہوں نے ابوہریرہؓ سے ، انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے فرمایا دو کلمے ایسے ہیں
جو اللہ تبارک وتعالی کو بہت ہی پسند ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں اور قیامت کے
دن اعمال کی ترازو میں بوجھل اور باوزن ہوں گے وہ کلمات مبارکہ یہ ہیں
’’سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ‘‘۔(صحیح بخاری
ازداؤد راز: ۷۵۶۳، بَابٌ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى :وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ
الْقِسْطَ،مکتبہ قدوسیہ صفحہ ۶۴۹)اور تشریح کچھ اس طرح کیا ہےکہ:
’’كَلِمَتَانِ حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ خَفِيفَتَانِ عَلَى
اللِّسَانِ ثَقِيلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ
سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ‘‘اس حدیث کو لاکر امام بخاری ؒ نے ترازو کا
اثبات کیا ہے اور آخر کتاب میں اس حدیث کو اس لیے بیان کیاکہ مومن کے
معاملات جو دنیا سے متعلق تھے وہ سب وزن اعمال پر ختم ہوںگےاس کے بعد یا
دوزخ میں چند روز کے لیے جانا یا بہشت میں ہمیشہ کے لیے رہنا ۔امام بخاری ؒ
کا کمال ہے کہ انہوں نے کتاب کو حدیث ’’إنما الاعمال بالنیات‘‘سے شروع کیا
اس لیے کہ ہر عمل کی مشروعیت نیت ہی سے ہوتی ہے اور نیت ہی پر ثواب ملتا ہے
اور اس حدیث پر ختم کیا کیونکہ وزن اعمال کا انتہائی نتیجہ ہے ۔ غرض امام
بخاریؒ نے اپنی اس کتاب میں عجیب عجیب لطائف اور ظرائف رکھے ہیں جو غور کے
بعد آپ کی کمال عقل اور وفور فہم اور دقت نظر اور باریکی استنباط پر دلالت
کرتے ہیں ‘‘۔اورمولانا داؤد رازؒ مزید آگے لکھتے ہیں کہ ’’ کوئی شک نہیں
کہ امام بخاریؒ کی یہ کتاب الجامع الصحیح بتلاتی ہے کہ وہ فن فقہ میں امام
الفقہاء اور فن حدیث میں امیر المومنین وسید المحدثین تھے ۔روایت اور درایت
ہر دومیں امام فن تھے۔ الجامع الصحیح کو کتاب التوحید پر ختم کرنا بھی امام
کی دقت نظرہے،پھر توحید کے ذیل میں اسماء وصفات الہی کا بیان کرنا اور
معتزلہ وجہمیہ و قدریہ وغیرہ فرقۂ باطلہ کا رد کرنا اس طرف اشارہ ہے کہ
توحید کا عقیدہ اپنی وسعت کے لحاظ سے ازاول تا آخر مسلک سلف کی رہنمائی
کرتا ہے ‘‘۔علامہ داؤد راز ؒ اپنے ترجمہ وتشریح اپنی شرح کی اسلوب نگارش
اور اسکی سلاست وروانگی کے متعلق خود لکھا ہے کہ ’’ترجمہ اردو میں الفاظ کی
رعایت کو با محاورہ ترجمہ میں ادا کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، تشریحات کے
ماخذ کتب شروح عربی و فارسی و اردو ہیں خاص طور پر مولانا وحید الزماں ؒ کے
ترجمہ وحواشی کو زیادہ سامنے رکھا گیا ہے ‘‘۔ (دیکھئےصحیح بخاری: ترجمہ
وتشریح داؤد راز ، صفحہ ۶۵۰)
مذکورہ دلائل کے ساتھ صحیح بخاری کی اس حدیث کابھی جائزہ لیتے ہیں جسے کتب
حدیث میں حدیث ابو زرعۃکے نام سے جانا جاتاہے جسکے بارے میں اہل علم کے
مابین یہ بات معروف ہے کہ حدیث ابوزرعہ بہت مشکل اور کٹھن ہے جس کے الفاظ
کافی پیچیدہ اور معانی ومفاہم کافی دقیق ہیںجس کاعلامہ دائود راز رحمہ اللہ
نے اپنے علمی بصیرت وبصارت اور ادبی اسلوب نگارش کی روشنی اس کونہایت ہی
عام فہم آسان زبان بنا دیاہے۔آیئے حدیث اور اس کا ترجمہ دیکھتے ہیں
:’’حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ
قَالاَ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ
عُرْوَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ
عَائِشَةَ ، قَالَتْ : جَلَسَ إِحْدَى عَشْرَةَ امْرَأَةً فَتَعَاهَدْنَ
وَتَعَاقَدْنَ أَنْ لاَ يَكْتُمْنَ مِنْ أَخْبَارِ أَزْوَاجِهِنَّ
شَيْئًا قَالَتِ الأُولَى زَوْجِي لَحْمُ جَمَلٍ غَثٌّ عَلَى رَأْسِ
جَبَلٍ لاَ سَهْلٍ فَيُرْتَقَى ، وَلاَ سَمِينٍ فَيُنْتَقَلُ قَالَتِ
الثَّانِيَةُ زَوْجِي لاَ أَبُثُّ خَبَرَهُ إِنِّي أَخَافُ أَنْ لاَ
أَذَرَهُ إِنْ أَذْكُرْهُ أَذْكُرْ عُجَرَهُ وَبُجَرَهُ قَالَتِ
الثَّالِثَةُ زَوْجِي الْعَشَنَّقُ إِنْ أَنْطِقْ أُطَلَّقْ وَإِنْ
أَسْكُتْ أُعَلَّقْ قَالَتِ الرَّابِعَةُ زَوْجِي كَلَيْلِ تِهَامَةَ لاَ
حَرٌّ ، وَلاَ قُرٌّ ، وَلاَ مَخَافَةَ ، وَلاَ سَآمَةَ قَالَتِ
الْخَامِسَةُ زَوْجِي إِنْ دَخَلَفَهِدَ وَإِنْ خَرَجَ أَسِدَ ، وَلاَ
يَسْأَلُ عَمَّا عَهِدَ قَالَتِ السَّادِسَةُ زَوْجِي إِنْ أَكَلَ لَفَّ
وَإِنْ شَرِبَ اشْتَفَّ وَإِنْ اضْطَجَعَ الْتَفَّ ، وَلاَ يُولِجُ
الْكَفَّ لِيَعْلَمَ الْبَثَّ قَالَتِ السَّابِعَةُ زَوْجِي غَيَايَاءُ ،
أَوْ عَيَايَاءُ طَبَاقَاءُ كُلُّ دَاءٍ لَهُ دَاءٌ شَجَّكِ ، أَوْ
فَلَّكِ ، أَوْ جَمَعَ كُلاًّ لَكِ قَالَتِ الثَّامِنَةُ زَوْجِي الْمَسُّ
مَسُّ أَرْنَبٍ وَالرِّيحُ رِيحُ زَرْنَبٍ قَالَتِ التَّاسِعَةُ زَوْجِي
رَفِيعُ الْعِمَادِ طَوِيلُ النِّجَادِ عَظِيمُ الرَّمَادِ قَرِيبُ
الْبَيْتِ مِنَ النَّادِ قَالَتِ الْعَاشِرَةُ زَوْجِي مَالِكٌ وَمَا
مَالِكٌ مَالِكٌ خَيْرٌ مِنْ ذَلِكِ لَهُ إِبِلٌ كَثِيرَاتُ الْمَبَارِكِ
قَلِيلاَتُ الْمَسَارِحِ ، وَإِذَا سَمِعْنَ صَوْتَ الْمِزْهَرِ أَيْقَنَّ
أَنَّهُنَّ هَوَالِكُ قَالَتِ الْحَادِيَةَ عَشْرَةَ زَوْجِي أَبُو
زَرْعٍ فَمَا أَبُو زَرْعٍ أَنَاسَ مِنْ حُلِيٍّ أُذُنَيَّ وَمَلأَ
مِنْ شَحْمٍ عَضُدَيَّ وَبَجَّحَنِي فَبَجِحَتْ إِلَيَّ نَفْسِي وَجَدَنِي
فِي أَهْلِ غُنَيْمَةٍ بِشِقٍّ فَجَعَلَنِي فِي أَهْلِ صَهِيلٍ
وَأَطِيطٍ وَدَائِسٍ وَمُنَقٍّ فَعِنْدَهُ أَقُولُ فَلاَ أُقَبَّحُ
وَأَرْقُدُ فَأَتَصَبَّحُ وَأَشْرَبُ فَأَتَقَنَّحُ أُمُّ أَبِي
زَرْعٍ فَمَا أُمُّ أَبِي زَرْعٍ عُكُومُهَا رَدَاحٌ وَبَيْتُهَا فَسَاحٌ
ابْنُ أَبِي زَرْعٍ فَمَا ابْنُ أَبِي زَرْعٍ مَضْجِعُهُ كَمَسَلِّ
شَطْبَةٍ وَيُشْبِعُهُ ذِرَاعُ الْجَفْرَةِ بِنْتُ أَبِي زَرْعٍ فَمَا
بِنْتُ أَبِي زَرْعٍ طَوْعُ أَبِيهَا وَطَوْعُ أُمِّهَا وَمِلْءُ
كِسَائِهَا وَغَيْظُ جَارَتِهَا جَارِيَةُ أَبِي زَرْعٍ فَمَا جَارِيَةُ
أَبِي زَرْعٍ لاَ تَبُثُّ حَدِيثَنَا تَبْثِيثًا ، وَلاَ تُنَقِّثُ
مِيرَتَنَا تَنْقِيثًا ، وَلاَ تَمْلأُ بَيْتَنَا تَعْشِيشًا قَالَتْ
خَرَجَ أَبُو زَرْعٍ وَالأَوْطَابُ تُمْخَضُ فَلَقِيَ امْرَأَةً مَعَهَا
وَلَدَانِ لَهَا كَالْفَهْدَيْنِ يَلْعَبَانِ مِنْ تَحْتِ خَصْرِهَا
بِرُمَّانَتَيْنِ فَطَلَّقَنِي وَنَكَحَهَا فَنَكَحْتُ بَعْدَهُ رَجُلاً
سَرِيًّا رَكِبَ شَرِيٍّا وَأَخَذَ خَطِّيًّا وَأَرَاحَ عَلَيَّ نَعَمًا
ثَرِيًّا وَأَعْطَانِي مِنْ كُلِّ رَائِحَةٍ زَوْجًا وَقَالَ كُلِي أُمَّ
زَرْعٍ وَمِيرِي أَهْلَكِ قَالَتْ فَلَوْ جَمَعْتُ كُلَّ شَيْءٍ
أَعْطَانِيهِ مَا بَلَغَ أَصْغَرَ آنِيَةِ أَبِي زَرْعٍ قَالَتْ
عَائِشَةُ قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم : كُنْتُ.لَكِ كَأَبِي
زَرْعٍ لأُمِّ زَرْعٍ.قَالَ أَبُو عَبْدِ اللهِ ، قَالَ : سَعِيدُ بْنُ
سَلَمَةَ عَنْ هِشَامٍ ، وَلاَ تُعَشِّشُ بَيْتَنَا تَعْشِيشًا.قَالَ
أَبُو عَبْدِ اللهِ ، قَالَ : بَعْضُهُمْ فَأَتَقَمَّحُ بِالْمِيمِ
وَهَذَا أَصَحُّ.‘‘( كتاب النكاح: باب حسن المعاشرة مع الأهل‘‘ح: 5189)
ترجمہ : ہم سے سلیمان بن عبد الرحمن اور علی بن حجر نے بیان کیا ، ان دونوں
نے کہا کہ ہم عیسی بن یونس نے خبر دی، اس نےکہا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے
بیان کیا، انہوں نے اپنے بھائی عبد اللہ بن عروہ سے ،انہوں نے اپنے والد
عروہ بن زبیر سے ، انہوںنے عائشہ ؓ سے، انہوں نے کہا کہ گیارہ عورتوں کا
ایک اجتماع ہوا جس میں انہوں نے آپس میں یہ طے کیا کہ مجلس میں وہ اپنے
اپنے خاوند کاصحیح صحیح حال بیان کریں کوئی بات نہ چھپاویں۔ چنانچہ پہلی
عور ت (نام نا معلوم) بولی میرے خاوند کی مثال ایسی ہے جیسے دبلے اونٹ کا
گوشت جو پہاڑ کی چوٹی پر رکھا ہوا ہو نہ تو وہاں تک جانے کا راستہ صاف ہے
کہ آسانی سے چڑھ کر اس کو کوئی لے آوے اور نہ وہ گوشت ہی ایسا موٹا تازہ
ہے جسے لانے کے لیے اس پہاڑ پر چڑھنے کی تکلیف گوارا کرے۔؎۱ دوسری عورت
(عمرہ بنت عمرو تمیمی نامی ) کہنے لگی میں اپنے خاوند کا حال بیان کروں تو
کہاں تک بیان کروں (اس میں اتنے عیب ہیں ) میں ڈرتی ہوں کہ سب بیان نہ
کرسکوں گی،؎۲ اس پر بھی اگر بیان کروں تو اس کے کھلے اور چھپے سارے عیب
بیان کرسکتی ہوں ۔؎۳ تیسری عورت (حیی بنت کعب یمانی ) کہنے لگی ، میرا
خاوند کیا ہے ایک تاڑ کا تاڑ (لمبا تڑنگا) ہے اگر اس کے عیب بیان کروں تو
طلاق تیار ہے اگر خاموش رہوں تو ادھر لٹکی رہوں ۔ ؎۴ چوتھی عورت (مہد وبنت
ابی ہر دمہ) کہنے لگی کہ میرا خاوند ملک تہامہ کی رات کی طرح معتدل ہے نہ
زیادہ گرم نہ بہت ٹھنڈا نہ اس سے مجھ کو خوف ہے نہ اکتاہٹ ہے۔ پانچویں عورت
(کبشہ نامی) کہنے لگی کہ میرا خاوند ایسا ہے کہ گھر میں آتا ہے تو وہ ایک
چیتا ہے؎ ۵ اور جب باہر نکلتا ہے تو شیر (بہادر) کی طرح ہے ۔ جو چیز گھر
میں چھوڑ کر جاتا ہے اس کے بارے میں پوچھتا ہی نہیں ( کہ وہ کہاں گئی؟)
اتنا بے پرواہ ہے جو آج کمایا اسے کل کے لیے اٹھا کر رکھتا ہی نہیں اتنا
سخی ہے ۔ چھٹی عورت (ہند نامی) کہنے لگی کہ میرا خاوند جب کھانے پر آتا ہے
تو سب کچھ چٹ کرجاتا ہے اور جب پینے پر آتا ہے تو ایک بوند بھی باقی نہیں
چھوڑتا اور جب لیٹتا ہے تو تنہا ہی اپنے اوپر کپڑا لپیٹ لیتا ہے اور الگ
پڑکر سوجاتا ہے میرے کپڑے میں کبھی ہاتھ بھی نہیں ڈالتا کہ کبھی میرا دکھ
درد کچھ تو معلوم کرے ۔؎۶ ساتویں عورت( حیی بنت علقمہ ) میرا خاوند تو جاہل
یا مست ہے۔ صحبت کے وقت اپنا سینہ میرے سینے سے لگاکر اوندھا پڑجاتا ہے۔
دنیا میں جتنے عیب لوگوں میں ایک ایک کرکے جمع ہیں وہ سب اس کی ذات میں جمع
ہیں (کم بخت سے بات کروں تو ) سر پھوڑ ڈالے یا ہاتھ توڑ ڈالے یا دونوں کام
کرڈالے ۔؎۷ آٹھویں عورت ( یاسر بنت اوس) کہنے لگی میرا خاوند چھونے میں
خرگوش کی طرح نرم ہے اور خوشبو میں سونگھو تو زعفران جیسا خوشبودار ہے۔ ؎۸
نویں عورت (نام نا معلوم) کہنے لگی کہ میرے خاوند کا گھر بہت اونچا اور
بلند ہے وہ قد آور بہادر ہے، اس کےیہاں کھانا اس قدر پکتا ہے کہ راکھ کے
ڈھیر کے ڈھیر جمع ہیں (غریبوں کو خوب کھلاتا ہے ) لوگ جہاں صلاح ومشورے کے
لیے بیٹھتے ہیں (یعنی پنچائیت گھر) وہاں سے اس کا گھر بہت نزدیک ہے۔ ؎۹
دسویں عورت (کبشہ بنت رافع) کہنے لگی میرے خاوند کا کیا پوچھنا جائداد والا
ہے، جائداد بھی کیسی بڑی جائداد ویسی کسی کے پاس نہیں ہوسکتی بہت سارے اونٹ
جو جابجا اس کے گھر کے پاس جٹے رہتے ہیں اور جنگل میں چرنے کم جاتے ہیں
۔؎۱۰ جہاں ان اونٹوں نے باجے کی آواز سنی بس ان کو اپنے ذبح ہونے کا یقین
ہوگیا ۔؎۱۱ گیارہویں عورت (ام زرع بنت اکیمل بن ساعدہ) کہنے لگی میرا خاوند
ابو زرع ہے اس کا کیا کہنا اس نے میرے کانوں کو زیوروں سے بوجھل کردیا ہےا
ور میرے دونوں بازو چربی سے پھلا دئیے ہیں مجھے خوب کھلاکر موٹا کردیا ہے
کہ میں بھی اپنے تئیں خوب موٹی سمجھنے لگی ہوں۔ شادی سے پہلے میں تھوڑی سے
بھیڑ بکریوں میںتنگی سے گزر بسر کرتی تھی۔ ابوزرعہ نے مجھ کو گھوڑوں ،
اونٹوں، کھیت کھلیان سب کا مالک بنا دیا ہے اتنی بہت جائداد ملنے پر بھی اس
کا مزاج اتنا عمدہ ہے کہ بات کہوں تو برا نہیں مانتا مجھ کو کبھی برا
نہیںکہتا۔ سوئی پڑی رہوں تو صبح تک مجھے کوئی نہیں جگاتا ۔ پانی پیوں تو
خوب سیرا ب ہوکر پی لوں رہی ابوزرعہ کی ماں ( میری ساس) تو میں اس کی کیا
خوبیاں بیان کروں اس کا توشہ خانہ مال واسباب سے بھرا ہوا ، اس کاگھر بہت
ہی کشادہ ۔ ابوزرعہ کا بیٹا وہ بھی کیسا اچھا خوبصورت (نازک بدن دبلا پتلا)
ہری چھالی یا ننگی تلوار کے برابر اس کے سونے کی جگہ ؎۱۲ ایسا کم خوراک کہ
بکری کے چار ماہ کے بچے کے دست کا گوشت اس کا پیٹ بھر دے ۔ ابو زرعہ کی
بیٹی وہ بھی سبحان اللہ کیا کہنا اپنے باپ کی پیاری ، اپنی ماں کی پیاری
(تابع فرمان اطاعت گزار ) کپڑا بھر پور پہننے والی (موٹی تازی) سوکن کی جلن
۔؎۱۳ ابو زرعہ کی لونڈی اس کی بھی کیا پوچھتے ہو کبھی کوئی بات ہماری مشہور
نہیں کرتی ( گھر کابھید ہمیشہ پوشیدہ رکھتی ہے) کھانے تک نہیں چراتی گھر
میں کوڑا کچڑا نہیں چھوڑتی؎۱۴ مگر ایک دن ایسا ہوا کہ لوگ مکھن نکالنے کو
دودھ متھ رہے تھے۔ (صبح ہی صبح) ابو زرعہ باہر گیا اچانک اس نے ایک عورت
دیکھی جس کے دو بچے چیتوں کی طرح اس کی کمر کے تلے دواناروں سے کھیل رہے
تھے ( مراد اس کی دونوں چھاتیاں ہیں جو انار کی طرح تھیں) ابوزرعہ نے مجھ
کو طلاق دے کر اس عورت سے نکاح کرلیا۔ اس کے بعد میں نے ایک اور شریف سردار
سے نکاح کرلیا جو گھوڑے کا اچھا سوار ،عمدہ نیزہ بازہے، اس نے بھی مجھ کو
بہت سے جانور دے دیئے ہیں اور ہر قسم کے اسباب میں سے ایک ایک جوڑا دیا ہوا
ہے اور مجھ سے کہا کرتا ہے کہ ام زرع! خوب کھاپی، اپنے عزیز واقرباء کو بھی
خوب کھلا پلا تیرے لیے عام اجازت ہے مگر یہ سب کچھ بھی جو میں نے تجھ کو
دیا ہوا ہے اگر اکٹھا کروں تو تیرے پہلے خاوند ابوزرعہ نے جو تجھ کو دیا
تھا ، اس میں کا ایک چھوٹا برتن بھی نہ بھرے۔(یعنی ابو زرعہ کے مال کے
سامنے یہ سارا مال بے حقیقت ہے مگر میں تجھ کو ابوزرعہ کی طرح طلاق دینے
والا نہیں ہوں)۔ عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ یہ سارا قصہ سنانے کے بعد آنحضرت ﷺ
نے مجھ سے فرمایا کہ اے عائشہ ؓ! میں بھی تیرے لیےایسا خاوند ہوں جیسے ابو
زرعہ ام زرعہ کے لیے تھا ‘‘۔ امام بخاری ؒ نے کہا سعید بن سلمہ نے بھی اس
حدیث کو ہشام سے روایت کیا ہے( اس میں لونڈی کے ذکر میں) الفاظ ’’ولا تملا
بیتنا تعشیشا‘‘ کی جگہ ’’ وَلاَ تُعَشِّشُ بَيْتَنَا تَعْشِيشًا.‘‘ کے لفظ
ہیں (معنی وہی ہیں کہ وہ لونڈی ہمارے گھر میں کوڑا کچڑا رکھ کر اسے میلا
کچیلا نہیں کر تی۔ بعضوں نے اسے لفظ عتیق سے پڑھا ہے جس کے معنی یہ ہوں گے
کہ وہ ہم سے کبھی دغا فریب نہیں کرتی) نیز امام بخاری ؒ نے کہا کہ (الفاظ
واشرب فانفخ میں ) بعض لوگوں نے فَأَتَقَمَّحُ میم کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ
زیادہ صحیح ہے۔
صحیح بخاری کی اس جامع اورطویل ترین حدیث کے ترجمہ نگاری میں مولانا
دائودراز رحمہ اللہ نے بڑی بصارت سے کام لیاجس کےسبب بہت ہی آسان اور عام
فہم الفاظ میںترجمہ کردیاہے جس سے اس کے معانی ومفاہیم اچھی طرح ادا
ہوجاتےہیں جو مولانا کی ترجمہ نگاری اور کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے ۔ اس کے
علاوہ نیچے اس کی تشریح بھی بہت عام فہم الفاظ میں کیا ہے جس سے ان کےادبی
اسلوب کی جھلک نظر آتی ہے ۔
تشریح: ؎۱ : مطلب یہ کہ اس کا خاوند بخیل ہے جس سے کچھ فائدے کی امید نہیں
دوسرے یہ ہے کہ وہ بد خلق آدمی ہے محض بیکار۔
؎۲ :یا میں ڈرتی ہوں ک میرے خاوند کو کہیں خبر نہ ہوجائے اور وہ مجھے طلاق
دے دے جبکہ میں اس کو چھوڑبھی نہیں سکتی۔
؎۳ : مگر میرے لیے خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔
؎۴ :نہ طلاق ملے کہ دوسرا خاوند کرلوں نہ اس خاوند سے کوئی سکھ ملنا ہے۔
؎۵ :یعنی آیا کہ سورہا گھر گرہستی سے اسے کچھ مطلب نہیں ۔ یا تو آتے ہی
مجھ چڑھ بیٹھتا ہے نہ کلمہ نہ کلام نہ بوس وکنار۔
؎۶ :مطلب یہ ہے کہ بڑا پیٹو ہے مگر میرے لیے نکما ۔
؎۷ :یعنی اول تو شہوت کم ، عورت کا مطلب پورا نہیں کرتا اس پر بد خو کہ بات
کرو تو کاٹ کھانے پر موجود ،مارنے کو ٹنے پر تیار۔
؎۸ : زعفران کا ترجمہ ویسے بامحاورہ کردیا ورنہ زرنب ایک درخت کا چھلکا ہے
جو زعفران کی طرح خوبو دار اور رنگ دار ہوتا ہے ۔ اس نے اپنے خاوند کی
تعریف کی کہ ظاہری اور باطنی اس کے دونوں اخلاق بہت اچھے ہیں۔
؎۹ :اس لیے ایسے لوگ جہاں صلاح ومشورہ کے لیے بلاتے ہیں وہاں اس کی رائے پر
عمل کرتے ہیں۔
؎۱۰: تاکہ مہمان لوگ آئیں تو ان کا گوشت اور دودھ ان کو تیار ملے۔
؎۱۱ :یہ باجا مہمانوں کے آنے پر خوشی سے بجایا جاتا تھا کہ اونٹ سمجھ جاتے
کہ اب ہم مہمانوں کے کاٹے جائیں گے۔
؎۱۲: یعنی چھریرے جسم والا نازک کمر والا جو سوتے وقت بستر پر ٹکتی ہے۔
؎۱۳ :کہ سوکن اس کی خوبصورتی اور ادب ولیاقت پر رشک کرکے جلی جاتی ہے۔
؎۱۴ : ہمیشہ گھر کو جھاڑ پونچھ کر صاف ستھرا رکھتی ہے الغرض سارا گھر نور
علی نور ہے ۔ ابو زرعہ سے لے کر اس کی ماں بیٹی بیٹا لونڈی باندی سب فرد
فرید ہیں۔
مذکورہ دلائل اور صحیح بخاری کی ترجمہ نگاری کا فنی وادبی جائزہ لینے کے
بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہےکہ علامہ داؤد راز ؒ کی شخصیت ایک مترجم اور
شارح کی حیثیت سے بہت بڑی ہے،فن ترجمہ نگاری اور اسلوب نگارش میں ان کی سب
سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ایک ہی بات کو مختلف اسلوب اور انداز سے بیان کرتے
ہیں جس سے قاری کو گرانی محسوس نہیں ہوتی اور نہ ہی طبعیت گراں بار ہوتی ہے
۔اسی طرح ترجمہ اس طرح شستگی اور شفتگی کے ساتھ آسان انداز میں کرتے ہیں
کہ عالم و کم پڑھا لکھا انسان بھی با آسانی سمجھ جاتا ہے۔ مشکل الفاظ اور
محاوروں کی اس انداز سے تشریح کرتے ہیں کہ مشکل اورالفاظ کی گرانی ختم
ہوجاتی ہے ،حالانکہ ترجمہ نگاری میں سب سے مشکل امر یہ ہوتا ہے کہ ترجمہ
نگار کچھ اس انداز سے ترجمہ کرے کہ کوئی بھی لفظ نہ چھوٹنے پائےاور لفظی
ترجمہ بھی محاورہ کی شکل اختیار کرلے یہ خوبی علامہ راز صاحب کو اچھی طرح
حاصل ہے ۔علامہ راز رحمہ اللہ کے ترجمہ میں ادبی اسلوب وانداز کے ساتھ ساتھ
علمی اسلوب بھی پایا جاتاہےجو ذوق ادبی اور شوق علمی پر غماز ہے جو ان کے
علمی گہرائی و گیرائی کا بین ثبوت ہے۔
اللہ آپ کے بشری لغزشوں کو درگذرفرمائے،نیکوں کو قبول فرمائے اوردرجات کو
بلند کرے نیزجنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے۔آمین!
|