عالمی سیاست دانوں کے استعفے دینے کی وجو ہات

جاپان کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے تاہم اس کی ترقی کی ایک وجہ ”شنزوایبے” جیسے فیصلے ہیں شنزو ایبے جاپان کے 90ویں وزیراعظم تھے۔ یہ 26 ستمبر 2006ء سے 26 ستمبر 2007ء تک وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہے لیکن انہوں نے 12 ستمبر 2007ء کو وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ کیوں؟ اس لیے کہ ان کے وزرا پر کرپشن کے الزامات لگ گئے جس کے نتیجے میں شینزو ایبے کی کابینہ کے ایک وزیر نے استعفیٰ دے دیا اور دوسرے وزیر نے خود کشی کرلی تھی مگر اس کے باوجود شینزو ایبے کی تسلی نہیں ہوئی اور وہ بھی مستعفی ہوگئے۔ شینزو ایبے کا یہ فیصلہ جاپان کی ترقی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

شینزو ایبے کے بعد ”یاسوفوکوڈا”
شینزو ایبے کے بعد ”یاسوفوکوڈا” جاپان کے 91 ویں وزیراعظم منتخب ہوئے۔ یہ 26 ستمبر 2007ء سے 24 ستمبر 2008ء تک وزیراعظم رہے۔ انہوں نے یکم ستمبر2008ء کو اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیا۔ کیوں؟ کیونکہ ان کے دور میں جاپان میں سیاسی ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا تھا چنانچہ انہوں نے وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیا۔ یاسو فوکوڈا اور شینزو ایبے کے یہ استعفے جاپان کی اصل طاقت، اصل ترقی اور اصل خوبی ہیں اور یہی وجہ ہے آج ایشیا سے لے کر امریکا تک اور کینیڈا سے لے کر ساؤتھ افریقہ تک جاپان ہی جاپان ہے۔۔

اسرائیل
اسرائیل کے صدر موشے کاٹساؤ کی مثال
اسرائیل کے صدر موشے کاٹساؤ کی مثال بھی لیجیے۔ موشے یکم جولائی 2000ء سے یکم جولائی 2007ء تک اسرائیل کے صدر رہے۔ موشے پر 2006ء میں بدکاری اور کرپشن کے الزامات لگے اور ان الزامات کے نتیجے میں موشے نے 29جون 2007ءکو استعفیٰ دے دیا۔

ایہود المرٹ اسرائیل کے 12ویں وزیراعظم
دنیا کے غیر مہذب، ناجائز اور بدنام ترین ملک اسرائیل کی مثال بھی سامنے رکھیے تو ہمیں اپنے ملک مہذب ہونے پر حیرانی ہوتی ہے ۔

ایہود المرٹ اسرائیل کے 12ویں وزیراعظم تھے۔ اولمرٹ 14 اپریل 2006ء سے 31مارچ 2009ء تک اسرائیل کے وزیراعظم رہے۔اولمرٹ وزیراعظم بننے سے پہلے ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے وفاقی وزیر اور اس سے پہلے یروشلم کے میئر بھی رہے۔ اولمرٹ مئی 2006ء میں وزیراعظم بنے اور 2007ء اور 2008ء کے دوران ان پر کرپشن کے بڑے دلچسپ الزامات لگ گئے ان پر پہلا الزام ڈبل بلنگ تھا۔ان دنوں اسرائیل کے ایک اخبار نے انکشاف کیا اولمرٹ جب میئر تھے تو یہ مختلف اداروں کی دعوت پر یورپ اور امریکا کا دورہ کرتے تھے اور اس دورے کے دوران یہ ایک ٹکٹ میئر کے اکاؤنٹ سے لیتے تھے اور تین، چار ٹکٹس ان اداروں سے لے لیتے تھے۔ ان پر دوسرا الزام یہ تھا جب وہ ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے وزیر تھے تو انہوں نے آئل کا امپورٹ ٹیرف کم کردیا تھا اور اس کا فائدہ ان کے ایک دوست کو ہوا تھا۔ اولمرٹ پر تیسرا الزام یہ لگا انہوں نے وزارت کے دوران اپنی پارٹی کے لوگوں کو سرکاری نوکریاں دی تھیں۔ ان پر چوتھا اور آخری الزام یہ تھا انہوں نے اپنی الیکشن مہم کے دوران ایک امریکی دوست سے ڈیڑھ لاکھ ڈالر، ایک گھڑی، سگارز اور فائیو اسٹار ہوٹل سٹے میں لیا تھا۔ یہاں میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں اولمرٹ پر لگنے والے ان تمام الزامات کا تعلق ان کی وزارت عظمیٰ کے پیریڈ سے پہلے کے دور سے تھا لیکن جب ان پر یہ الزامات لگے تو نہ صرف اولمرٹ کے خلاف مقدمہ درج ہوا بلکہ پولیس نے پانچ بار وزیراعظم ہاؤس جاکر اپنے سیٹنگ پرائم منسٹر کے خلاف تفتیش بھی کی اس تفتیش کے دوران ایہود اولمرٹ ملزم پائے گئے چنانچہ انہوں نے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔ جب اولمرٹ نے استعفے کا اعلان کیا تو ایک ایسا شاندار بیان دیا جسے پڑھ اور سن کر ہمارے جیسے تیسرے درجے کے ممالک اور حکمرانوں کی آنکھیں اور کان کھل جانے چاہیئں۔ اولمرٹ نے کہا تھا: ”مجھے فخر ہے میں ایک ایسے ملک کا شہری ہوں جس میں ایک وزیراعظم کے خلاف بھی اسی طرح تفتیش ہوتی ہے جس طرح عام شہری سے کی جاتی ہے۔” اور آپ یہ بھی ذہن میں رکھیے اولمرٹ آج تک ان الزامات کی وجہ سے عدالتوں میں دھکے کھا رہے ہیں۔

اسی طرح ہنگری کے وزیراعظم ”فرینک گیورسا” نے معاشی بحران کی وجہ سے 14/ اپریل 2009ء کو استعفیٰ دے دیا۔ نیپال کے وزیراعظم ”پشپا کمل پر چندا” 18 اگست 2008ء سے 25 مئی 2009ء تک وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر رہے۔ ان پر کرپشن کے الزامات لگے اور ان الزامات کی بنیاد پر انہوں نے 4مئی 2009ء کو مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔ آئرلینڈ کے وزیراعظم بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ آئرلینڈ کے وزیراعظم برٹی ہارن نے 7مئی 2008ء کو استعفیٰ دے دیا تھا۔

ڈے میر پولینس 12 جنوری 2008ء سے 30 اکتوبر 2009 ء تک کروشیا کا ڈپٹی وزیراعظم رہا لیکن اس نے بھی کرپشن کے الزامات پر استعفیٰ پیش کردیا۔ لٹویا کا وزیراعظم گاڈ منیز 20دسمبر 2007ء سے 12مارچ 2009ء تک وزیراعظم رہا۔ اس پر بھی کرپشن کے الزامات لگے اور اس نے بھی استعفیٰ دے دیا۔ اسی طرح فلسطین کے وزیراعظم سلام فیاض نے 7مارچ 2009ئ، تنزانیہ کے وزیراعظم ایڈورڈ لوواسا نے 7فروری 2008ئ، منگولیا کے وزیراعظم سین جاجن بیار نے 26 اکتوبر 2009ء اور فن لینڈ کی وزیراعظم جیسے تھین میکی نے صرف دو ماہ کی حکومت کے بعد 24جون 2003ء کو کرپشن کے الزامات پر استعفیٰ دے دیا تھا۔31مئی 2010کو جرمن سربراہ مملکت ہورسٹ کوہلر نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ان کے اِس اقدام کی وجہ افغانستان میں جرمن فوج کی کاروائی سے متعلق ان کا ایک بیان بنا۔ جبکہ ان الزامات کے بعد جرمن ہورسٹ کوہلر صدر ان الزامات کو اپنی توہین سمجھتے ہو ئے اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔

22جون2010کو صومالی وزیراعظم عمر عبدالرّاشد شرماک نے حکومت میں سیاسی بحران کی وجہ سے استعفٰی دیدیا ان کی حکومت چھوڑنے کی وجہ ملک کی بگڑتی صورت حال بھی تھی۔26اکتوبر2010کو کینیا کے وزیر خارجہ موسس ویٹنگولا نے کرپشن کے الزامات لگنے پر استعفیٰ دے دیا وزیر خارجہ پر جاپان میں سفارتخانے کیلئے زمین خریدنے کے معاملے پر بدعنوانی کا الزام تھا جس پر انہوں نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا اور ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہے اور ایسا انہوں نے اس لئے کیا ہے تاکہ تحقیقات میں آسانی پیدا ہو سکے۔

13نومبر2010کو بھارت کے وزیر مواصلات اے راجا نے بدعنوانی کے الزامات کے بعد اپنا استعفیٰ وزیر اعظم منموہن سنگھ کو پیش کر دیا، اے راجا نے کہا ہے کہ ان کا ضمیر مطمئین ہے تاہم ملک کے وسیع تر مفاد میں وہ اپنا استعفیٰ پیش کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کیلئے کسی شرمندگی کا باعث نہیں بننا چاہتے اوران کی خواہش ہے کہ پارلیمان میں امن اور ہم آہنگی کو ٹھیس نہ پہنچے۔ ان پر الزام تھا کہ ان کی وجہ سے حکومت کو ریونیو کی مد میں اربوں ڈالرز کا نقصان ہوا ہے۔ لیکن راجا کا کہنا ہے کہ میں نے کسی بھی طور قانون کی خلاف ورزی نہیں کی۔ دوسری جانب بی جے پی نے راجا کے استعفے کو ’جمہوریت کی فتح ‘قرار دیا۔ جبکہ اے راجا سے قبل کانگریس کے 2سینئر رہنما 2مختلف کرپشن اسکینڈلز کی وجہ سے مستعفی ہو چکے ہیں۔ جبکہ کچھ عرصہ پہلے بھارت کے وزیر ریلوے نے ریل گاڑی کے ایک ایکسیڈنٹ پر استعفے دے دیا جبکہ پاکستان کے ریلوے کا ؟

آپ یہ جان کر بھی حیران ہوں گے ڈنمارک کا ٹیکس بریکسٹوفیٹ، سویڈن کا وزیر خارجہ ڈینیل کارل، سویٹزرلینڈ کی جسٹس منسٹر ایلزبتھ کوپ، آسٹریلیا کا منسٹر فار انڈسٹری گورڈن رچرڈ، کینیڈا کی امیگریشن منسٹر جوڈی سیگرو، نیوزی لینڈ کا جسٹس منسٹر فلپ فیلڈ، سنگاپور کا سینئر وزیر چنگ وان اور بھارت کا وزیر دفاع جارج فرنانڈس کرپشن کے معمولی معمولی الزامات پر نہ صرف مستعفی ہوئے بلکہ انہوں نے عدالتوں کا سامنا بھی کیا، انہیں سزا بھی ہوئی اور انہوں نے قانون اور آئین کی بالادستی کے آگے سر جھکا دیا۔۔۔۔۔۔۔ لیکن سوال یہ ہے پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟ پاکستان کی تاریخ میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی جیسے عظیم المیہ پربھی استعفی کی خبر سننے کو نہ ملی۔۔

ہماری تاریخ میں جب بھی کوئی تبدیلی آتی ہے۔ وہ مارشل لاء، آٹھویں ترمیم یا پسٹل پوائنٹ پر آتی ہے۔خوشدلی سے آج تک ہمارے ملک میں کسی نے بھی اپنی غلطی کا اعتراف کر کے حکومت سے مستعفی ہونے کا اعلان نہیں کیا۔ہمارے صدر آصف علی زرداری سے لے کر وزیر داخلہ رحمٰن ملک تک اور جہانگیر بدر سے لے کر قانون و انصاف کے وزیر بابر اعوان تک 34 سیاست دانوں پر کرپشن کے الزامات ہیں لیکن یہ لوگ نہ صرف مستعفی ہورہے ہیں بلکہ یہ ملک کے بڑے بڑے عہدوں سے دھڑلے سے چمٹے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔
Abid Hussain burewala
About the Author: Abid Hussain burewala Read More Articles by Abid Hussain burewala: 64 Articles with 91572 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.