اشتہارات کی ہماری زندگی میں بہت زیادہ اہمیت ہے، ہر
کمپنی اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیے اشتہارات کا سہارا لیتی ہے۔ بل بورڈز،
ریڈیو، اخبارات ، انٹرنیٹ اور ٹیلی ویژن مصنوعات کی موثر تشہر کے بہترین
ذرائع ہیں۔ ان تمام کی ہی اپنی جگہ اہمیت ہے لیکن ٹیلیویژن کے اشتہارات ان
میں سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں کیوں کہ وطنِ عزیزپاکستان میں اخبارات
اور انٹر نیٹ کی نسبت ٹیلی ویژن سب سے زیادہ عوام تک رسائی رکھتا ہے، اس
لیے تمام ہی کمپنیوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ ٹی وی پر اپنے اشتہارات
چلوائیں۔
لیکن گزشہ کچھ عرصے سے اشتہارات کو ذہن سازی کے لیے بھی استعمال کیا جارہا
ہے اور ان میں بظاہر تو کسی چیز کی فروخت کا ذکر ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ
ساتھ بین السطور کچھ دیگر پیغامات بھی دیے جاتے ہیں۔ ایسے اشتہارات کی ایک
طویل فہرست ہے لیکن ہم یہاں چند اشتہارات کا بالخصوص ذکر کریں گے جو کہ
ہمارے روز مرہ استعمال کی چیزوں سے متعلق ہیں۔
گزشتہ ماہ سے بچوں کی ایک ٹافی یا کینڈی کا اشتہار ٹی وی پر دکھایا جارہا
ہے، اس اشتہار میں ایک چھوٹا سا بچہ اپنے دادا، والد، والدہ اور دیگر اہل
خانہ کو ٹافیاں تقسیم کرتا ہے، اسکے بعد جب اس کے اسکول سے اس کی ٹیچر اُس
بچے کی شکایت لے کر آتی ہیں تو دادا، والد، والدہ سمیت کوئی بھی گھر والا
ان کی شکایت کو سنجیدگی سے نہیں لیتا اور بات کو ہنسی میں اڑا دیتا ہے،
آخر میں بچے کو خوش ہوتے دکھایا گیا ہے کہ کس طرح میں نے ٹافی دے کر سب کو
اپنے حق میں کرلیا ہے اور ٹیچر پریشان کھڑی ہوتی ہیں۔ اس طرح یہ اشتہار
ہلکے پھلکے انداز میں ختم ہوجاتا ہے لیکن درپردہ اس میں بچوں کو رشوت کی
ترغیب دی گئی ہے کہ اگر گھر والوں کو ٹافیوں کی رشوت دیدو تو پھر وہ تمہاری
شکایت نہیں سنیں گے، کوئی سزا نہیں دیں گے۔کیا کسی نے اس پر غور کیا ہے؟؟؟
اب ہم ذکر کریں گے گھر کے عام استعمال کی چیز ڈش واش بار کی ۔ ایک ڈش واش
بار کا اشتہار بھی آج کل ٹی وی پر دکھایا جارہا ہے۔ اس اشتہار میں دکھایا
جارہا ہے کہ ایک نوجوان دفتر سے گھر آتا ہے، تمام اہلِ خانہ دستر خوان پر
موجود ہیں اور کھانا کھا رہے ہیں، اس کو کھانے کا کہا جاتا ہے لیکن وہ
طبیعت کی ناسازی کا بہانہ بنا کر کھانا نہیں کھاتا اور اپنی بیوی کو بھی
اشارے سے بلا لیتا ہے۔ اس کے بعد دکھایا گیا ہے کہ جب تمام اہل خانہ سو گئے
ہیں یا کھانے سے فارغ ہوگئے ہیں تو اس وقت یہ نوجوان اپنے آفس بیگ سے
بریانی کے دو پیکٹ نکالتا ہے اور دونوں میاں بیوی اکیلے بیٹھ کر وہ بریانی
کھاتے ہیں، کھانے کے بعد بیوی کو پریشانی لاحق ہوتی ہے کہ اب برتن کیسے
دھوئے جائیں کیوں کہ گزشتہ بار پکڑے گئے تھے ، اور پھر شوہر ِ نامدار بڑے
انداز سےمذکورہ ڈش واش بار نکالتے ہیں اور کہتے ہیں اس بار نہیں۔۔۔۔۔ ذرا
غور کیجیے! اس اشتہار میں بظاہر تو ایک ڈش واش بار کی تشہیر کی گئی ہے لیکن
درپردہ اس میں بڑے باریک انداز میں مشترکہ خاندانی نظام کو نشانہ بنایا گیا
ہے اور یہ پیغام دیا گیا ہے کہ مشترکہ خاندانی نظام میں لوگ اپنی پسند کا
کھانا تک نہیں کھا سکتے۔
اسی ڈش واش کا اس سے پہلے بھی ایسا ہی ایک اشتہار چلایا گیا تھا اور اس میں
بھی مشترکہ خاندانی نظام کو نشانہ بنایا گیا تھا۔جی میں آپ کو یاد دلاتا
ہوں۔ پچھلے اشتہار میں میاں بیوی کو دکھایا گیا ہے کہ جب وہ لانگ ڈرائیو پر
جانے کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں تو بیوی کی ساس کہتی ہیں کہ ’’ بہو سارے برتن
ہاتھ کے ہاتھ دھو کر جانا۔‘‘ بہو برا سا منہ بناتی ہے تو شوہر فوراً دش واش
بار نکال کر دیتے ہیں، بہو جب سارے برتن دھو کر جانے کے لیے تیار ہوتی ہے
تو ساس بھی فوراً آجاتی ہے کہ چلو چلو جلدی چلو دیر ہورہی ہے۔ ساس کے آنے
پر دونوں میاں بیوی برا سا منہ بناتے ہیں اور یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ جیسے
ساس نے ان کے رنگ میں بھنگ ڈال دیا ہے اور دونوں کو ساس کا آنا پسند نہیں
آیا۔ اس طرح یہ اشتہار ختم ہوجاتا ہے۔ بظاہر یہ بھی ایک ہلکا پھلکا مزاحیہ
اشتہار ہے لیکن درحقیقت اس میں بھی بڑے باریک انداز میں خاندانی نظام کو
نشانہ بنایا گیا ہے۔
اس کے علاوہ جتنے بھی انرجی ڈرنکس اور کولڈدرنکس کے اشتہارات میں بھی
نوجوان نسل کو ذو معنی پیغامات دیے جاتے ہیں مثلاً ’’ اپنی پیاس کو مانو‘‘
’’ جیسے چاہو جیو‘‘ وغیرہ ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پیمرا کو اس جانب متوجہ
کیا جائے اور ان اشتہارات کی نشاندہی کی جائے تاکہ ان کو روکا جاسکے اور
اشتہاری کمپنیوں کوبھی پابند کیا جائے کہ اشتہارات کو مصنوعات کی تشہیر تک
محدود رکھیں اس کے ذریعے برین واشنگ کی کوشش نہ کریں۔ |