صراط المستقیم قسط نمبر ٣

آ۔۔۔۔ آپ ! مم مگر ۔۔۔۔۔ ہائے میرا بچا ۔۔۔۔

وہ پروفیسر ابرار کا ذکر شہباز سے سن چکا تھا ۔۔۔ جیسے ہی انہوں نے اپنا نام بتایا ۔۔۔۔ وہ پہلے تو چونکا تھا پھر شہباز عرف شیلا کا یونیورسٹی جانے سے انکار کی اصل وجہ سمجھ آگئی تو گھر کی چوکھٹ پر ہی سینے پر ہاتھ رکھے ایک دم ڈھے جانے والے انداز میں بیٹھ گیا تھا ۔۔۔۔۔ اور رونے لگا تھا ۔۔۔۔۔

دیکھئے پلیز مجھے اندر آنے دیجئے ۔۔۔۔ میں شہباز سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔ یا پھر آپ اسے یہیں بلالیں ۔۔۔

ہائے اللہ یہ کیا ہوگیا ۔۔۔۔۔ اسی لئے وہ موئی یونیورسٹی جانے سے انکار کر رہی تھی ۔۔۔۔۔

وہ ان کی بات کہاں سن رہا تھا ۔۔۔۔ بس اسے اپنے شہباز کا ہی درد اندر سے کچوکے لگا رہا تھا ۔۔۔ کبھی اپنے سینے پر دونوں ہاتھوں سے مارتا اور کبھی سر پر اپنے مارے جارہا تھا ۔۔۔۔ پروفیسر ابرار اس کی یہ حالت دیکھ کر پریشان ہوگئے تھے ۔۔۔۔

پلیز اگر آپ میری بات آرام سے سن لیں تو بڑی مہربانی ہوگی ۔۔۔۔

وہ پھر بولے تھے ۔۔۔۔ تو روتے روتے شبنم نے ان کی طرف دیکھا تھا ۔۔۔۔ اور پھر دونوں ہاتھ ان کے سامنے جوڑ دئے تھے ۔۔۔ اور پھر اُٹھ کر اندر آنے کا راستہ دیا تھا انہیں ۔۔۔۔۔ اس کے اس طرح ہاتھ جوڑنے پر وہ کچھ شرمندہ سے ہوگئے تھے ۔۔۔۔ پھر جھجکتے ہوئے اس کے پیچھے اندر داخل ہوئے تھے ۔۔۔۔ ریما بھی ان دونوں کے پیچھے اندر گھر کے آگئی تھی ۔۔۔۔ مگر پھر کچھ یاد آنے پر واپس پلٹ کر شبنم کے گھر سے باہر نکل گئی تھی ۔۔۔۔۔ ریما کے گھر سے باہر
نکلتے ہی شبنم نے سکون کا سانس لیا تھا ۔۔۔۔ اور پھر تیزی سے پروفیسر ابرار کے قریب آکر ان کے سامنے جھکتے ہوئے ان کے پیر پکڑ کر رونے لگا تھا ۔۔۔۔۔

ارے رے ! یہ کیا کر رہے ہیں آپ ۔۔۔۔۔

صاحب تمہیں خدا کا واسطہ ۔۔۔۔ اس بات کا ذکر کسی سے باہر نہیں کرنا ۔۔۔۔ میرا بچہ مر جائے گا ۔۔۔۔ اس کا مستقبل تباہ ہوجائے گا ۔۔۔۔

اللہ نہ کرے کہ ایسا کچھ ہو ۔۔۔۔۔ دیکھئے آرام سے بیٹھئے ۔۔۔۔۔ میں یہاں آپ لوگوں کو ہیرس (تنگ) کرنے نہیں آیا ۔۔۔۔ بلکہ میں آپ سے شہباز کے سلسلے میں کچھ بات کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔ اور آپ اطمینان رکھئے یہ راز راز ہی رہے گا ۔۔ مگر مجھے شہباز سے متعلق کچھ باتیں کرنا ہیں آپ سے ۔۔۔۔۔
شبنم ان کی باتیں سن کر دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کرنے لگی تھی ۔۔۔۔۔ بندہ شکل سے ہی کھرا اور سچا لگا تھا ۔۔۔

ہاں ہاں بولو صاحب ۔۔۔۔ لیکن ایک منٹ صاحب میں شہباز کو یہیں بلا لوں ۔۔۔۔۔ آآ ۔۔۔آپ بیٹھو صاحب یہاں پر ۔۔۔

وہ چارپائی پر بچھی چادر درست کرتے ہوئے انہیں بیٹھنے کے لئے بولتا ہوا ۔۔۔۔ شہباز کے کمرے کے طرف بڑھ گیا تھا ۔۔۔۔۔ وہ چارپائی پر بیٹھ کر اس چھوٹے سے دالان کا جائزہ لینے لگے تھے ۔۔۔۔۔ چارپائی کے علاوہ تین چوکیاں اور ایک چھوٹی سی دری بچھی ہوئی تھی کبوتروں کے پنجرے کے سامنے ۔۔۔۔۔ ایک طرف کپڑے سکھانے کی رسی بندھی ہوئی تھی ۔۔۔۔ جس پر مردانہ اور زنانہ کپڑے سوکھ رہے تھے ۔۔۔۔ دالان کی دائیں طرف باورچی خانہ اور ساتھ میں دو کمرے بھی بنے ہوئے تھے ۔۔۔۔ یہ چھوٹا سا بوسیدہ سا گھر تھا ۔۔۔۔ جس کی دیواریں تو پکی سمنٹ اور گارے سے بنی ہوئی تھیں مگر چھت ٹین کی بنی ہوئی تھی ۔۔۔۔ الٹے ہاتھ پر کچھ چھوٹے بڑے گملے بھی رکھے ہوئے تھے جن میں کچھ میں تو موگرے (موتیا) کے پودے اگے ہوئے تھے ۔۔۔ اور کچھ میں پودینا ، ہرا دھنیا ، ہری مرچ ، کڑی پتہ اور ٹماٹر اُگائے گئے تھے ۔۔۔۔ ابھی وہ اس کی درودیوار کا جائزہ ہی لے رہے تھے کہ شبنم کی چیخ و پکار پر چونک اُٹھے ۔۔۔۔۔ اور تیزی سے دائیں طرف بنے اس کمرے تک پہنچے تھے جو پورا کھلا ہوا تھا ۔۔۔۔ مگر جیسے ہی کمرے میں نگاہ دوڑائی تو شہباز کا سر گود میں لئے شبنم کو روتے ہوئے اور سینہ کوبی کرتے پایا ۔۔۔۔ وہ تیزی سے آگے بڑھے تھے ۔۔۔ شہباز اپنے پلنگ پر بےہوش پڑا تھا ۔۔۔۔ اس میں کوئی حرکت نہیں ہورہی تھی ۔۔۔۔ منے سے کف جیسا کوئی محلول نکل رہا تھا ۔۔۔۔۔ وہ اسے اس حال میں دیکھ کر سمجھ گئے تھے کہ اس نے خودکشی کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔

پلیز آپ روئے مت ہمیں اسے فوراَ ہسپتال لیجانا پڑے گا ۔۔۔۔۔

پروفیسر ابرار شبنم سے کہتے ہوئے ۔۔۔تیزی سے شہباز پر جھکے تھے ۔۔۔۔ اور شبنم کی مدد سے اسے اٹھا کر تیزی سے دالان کو عبور کرتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھے تھے ۔۔۔۔

×××××××××××××××××

کیا نجو کام تو صحیح کرلیا کرو ۔۔۔۔ دیکھ نہیں رہی ہو اماں بیمار ہے ۔۔۔۔

تو میں کیا کروں ۔۔۔۔ ہر تھوڑے دنوں میں اماں کو کھانسی کا دورہ پڑ جاتا ہے ۔۔۔۔ اور وہ اتنی سی کھانسی پر چارپائی پر پڑ جاتی ہے ۔۔۔۔ ارے بولا بھی تھا اماں میرے امتحانوں تک بیمار نہیں ہونا پلیز ۔۔۔۔ مگر مجال ہے اپنی معصوم بیٹی کی بات سن لے ۔۔۔۔ تم تو چلے جاتی ہو بچوں کا مستقبل خراب کرنے اسکول اور لے دے کر مجھ غریب کی ہی گردن پھنستی ہے ۔۔۔

اچھا زیادہ بکو نہیں ۔۔۔۔ دوپہر اور رات کا کھانا تو میں بنا کر گئی تھی ۔۔۔۔ تمہیں تو صرف اماں کو وقت پر دوا دینا تھی اور چھیکے کو دیکھنا تھا ۔۔۔ اب وہ بھی تمہیں بار پڑ رہا ہے تو مان لو میری کہ تم بہت نکمی اور کام چور واقع ہوئی ہو ۔۔۔

اچھا جی ہم نکمے مگر تم ابا کو کیا کہوگی ۔۔۔۔۔ وہ تو پھر میرے ہی باپ ہوئے ناں ۔۔۔۔

وہ زینب عرف زیبو کی بات سن کر چمک کر تپے لہجے میں بولی تھی ۔۔۔۔۔

شرم پکڑو ابا کو دمے کا مرض ہے ۔۔۔۔ اس بیماری کی وجہ سے ہی وہ بیچارے کچھ کرنے کے قابل نہیں ۔۔۔۔۔

اوہ ہو ۔۔۔ دمے کا مرض ہے مگر زبان ابا کی قینچی کی طرح چلتی ہے ۔۔۔۔ یہ دمہ زبان پر بھی ہوجاتا تو کتنا اچھا ہوتا ۔۔۔ تمہاری ، میری اور اماں بیچاری کی جان تو گالم گلوچ سے چھوٹ جاتی ۔۔۔۔ چھیکا تو بیچارہ نہ تین میں ہے اور نہ تیرہ میں وہ تو بیچارہ ہر بات پر ہی کھی کھی کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتا ۔۔۔۔

وہ برے برے منہ بناتے ہوئے بولی تھی زیبو کی بات پر ۔۔۔۔۔ تو زیبو اسے تنبیہی نظروں سے دیکھتی ہوئی اندر اماں کے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی ۔۔۔ جہاں اماں کا کھانس کھانس کر براحال ہوچکا تھا ۔۔۔۔

××××××××××

دھیرے سے آنکھیں کھولی تھیں ۔۔۔ اور دھندلائی نظر سے پہلے خوبصورت چھت پر نظر ڈالی تھی ۔۔۔۔۔ اور پھر اسے سب کچھ یاد آنے لگا تھا ۔۔۔۔ وہ غصے سے ابا سے بدتمیزی کرتا ہوا اپنے کمرے میں گیا تھا اور پھر باتھروم میں رکھی چوہے مار زہر کی بوتل حلق میں انڈیل لی تھی ۔۔۔۔ وہ اس ذلت بھری زندگی سے چھٹکارا چاہتا تھا ۔۔۔۔ مگر کمبخت موت بھی اسے دغا دے گئی تھی ۔۔۔۔ مگر یہ اس کا چھوٹا سا کمراہ تو نہیں تھا ۔۔۔۔ یہ تو کوئی اور ہی بڑا سا کمراہ تھا ۔۔۔۔ پھر اس نے اپنے دائیں اور بائیں طرف سر گھما کر دیکھا تھا ۔۔۔۔ اس کے ایک سائیڈ پر سرہانے سائیڈ ٹیبل رکھی ہوئی تھی جس پر کچھ ادویات اور ایک ٹرے میں سیلڈ چھوٹی دو کانچ کی بوتلیں اور ساتھ دو سرنجز رکھی ہوئی تھیں ۔۔۔اور بائیں طرف نگاہ کی تو ابا کو مردانا کپڑوں میں ایک سوفا کم بیڈ پر بیٹھے اونگتے دیکھا تھا ۔۔۔۔

اب با ۔۔۔۔

نحیف باریک سی آواز میں بڑی تکلیف سے اسے پکارا تھا ۔۔۔۔۔ گلے میں بہت تکلیف ہورہی تھی ۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے پورا گلا کسی نے چھیل دیا ہو کسی تیز دھار آلے سے ۔۔۔۔۔۔

شبنم جس کی ابھی تھوڑی ہی دیر پہلے آنکھ لگی تھی ۔۔۔ اس کے دھیمے سے خود کو پکارنے پر ایک دم اُٹھ بیٹھا تھا اور تیزی سے اس کے قریب پہنچ کر اس پر جھکا تھا ۔۔۔۔

ہاں بیٹا بولو ۔۔۔۔ میرے بچے ۔۔۔۔ تجھے ہوش آگیا ۔۔۔ اللہ پاک نے میری سن لی ۔۔۔۔

اس کر سر پر ہاتھ پھیرتا ہوا وہ اس پر جھکا بول رہا تھا ۔۔۔۔

ابب با میں مم میں کہاں ہوں ۔۔۔۔۔

بڑے ہسپتال میں ۔۔۔۔ صاحب اگر نہ ہوتے تو نا جانے کیا ہوجاتا ۔۔۔۔

کک کیوں بچایا اب با تم نے مجھے ۔۔۔۔ مرجانے دیا ہوتا تو اچھا ہوتا ۔۔۔۔۔

ہاں بہت خوب شہباز ۔۔۔۔ بہت اچھے ۔۔۔۔۔۔ مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی بالکل بھی ۔۔۔۔ واہ بھئی حرام موت مر کر کیا تم سمجھتے ہو ۔۔۔۔ تم اپنی پرابلمز سے چھٹکارا پالیتے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ تمہیں واقعی بچانا نہیں چاہئے تھا ۔۔۔۔ ایسی موت مرنا بزدل لوگ پسند کرتے ہیں ۔۔۔ بہادر نہیں ۔۔۔۔ تمہیں اپنی پڑی ہے ۔۔۔اپنے رب کو بھول گئے ۔۔۔۔ اپنے رب کی ہمیشہ کی ناراضگی مول لینا چاہتے ہو ۔۔۔۔ دنیا کے ساتھ آخرت کو بھی کھونا چاہتے ہو ۔۔۔۔

وہ اس آواز پر چونکا تھا ۔۔۔۔ اور شبنم کے پیچھے کھڑے غصے سے گھورتے اس شخص کو دیکھا تھا ۔۔ جو اسے تاسف اور غصے سے گھور رہا تھا ۔۔۔۔۔ وہ اس کے سب سے فیورٹ پروفیسر سر ابرار تھے ۔۔۔۔ وہ انہیں وہاں دیکھ کر شاکڈ رہ گیا تھا ۔۔۔۔

×××××××××××

باقی آئندہ ۔۔۔۔
 

farah ejaz
About the Author: farah ejaz Read More Articles by farah ejaz: 146 Articles with 230397 views My name is Farah Ejaz. I love to read and write novels and articles. Basically, I am from Karachi, but I live in the United States. .. View More