جب وہ کمرے میں آیا تو حسنہ آنکھوں پر بازو رکھے لیٹی تھی۔
جب والی کمرے میں آیا اس نے محسوس کیا تھا جیسے کوئی اندر آیا ہو شاید وہ
والی کی آہٹ پہچانتی تھی، تبھی بے فکر ہو کر ویسے ہی لیٹی رہی۔
اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کہے وہ بے حد شرمندہ تھا۔ کچھ دیر کھڑا وہ
اسے دیکھتا رہا،،، “ حسنہ “ اسنے ہمت کر کے اتنا کہا۔ حسنہ نے آنکھوں سے
بازو ہٹا کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا اسکی آنکھیں بھیگی ہوئی تھی پہلی
بار اسکی آنکھوں میں نمی دیکھ کر والی کے دل کو کچھ ہوا۔ پر وہ نظریں چرا
گیا۔
“ اپنا سامان پیک کرو ضرورت کی چیزیں لے لو بس۔“ والی نے کہا
“ سامان پیک کرو ؟ ہم کہاں جا رہے ہیں اور اس طرح اچانک سے؟ “ حسنہ نے
حیرانی سے کئی سوال کر ڈالے۔
“ بتاؤ گا سب پر ابھی ان باتوں کا ٹائم نہیں ہمیں ابھی نکلنا ہوگا۔“ وہ
اتنا کہہ کر اپنی ضرورت کی چیزیں سمیٹنے لگا، وہ بھی چپ چاپ اٹھ کر اپنی
چیزیں بریف کیس میں رکھنے لگی۔ کچھ دیر بعد وہ دونوں جانے کے لئے اپنے روم
سے باہر نکلے سامنے ہی شازمہ بیٹھی چائے پی رہی تھی ان دونوں کو اس طرح
سامان سے لدا دیکھ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
“ کہاں جا رہے ہو بیٹا ؟“ شازمہ نے حیرانی سے پوچھا۔
حسنہ نے حیرانی سے والی پھر شازمہ کی طرف دیکھا جو خود حیرانگی کی مورت بنی
ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔ حسنہ کو نہیں پتا تھا کہ انکے اس طرح جانے سے
آنٹی بے خبر تھی۔ والی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ شازمہ کو تشویش ہونے لگی آخر
یہ لوگ اس طرح بیگ لے کر کہاں جا رہے تھے۔
“ ہم کہاں جا رہے ہیں ؟ آپ بتا کیوں نہیں رہے آنٹی کو۔“
“ ہم ان کی وجہ سے ہی جا رہے ہیں تو میں بتانا ضروری نہیں سمجھتا “ والی نے
سخت لہجے میں کہا
“ ان کی وجہ سے ؟ “ حسنہ نے منہ میں دھرایا۔ شازمہ سکتے کی سی کیفیت میں
والی کو دیکھے جا رہی تھی اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی اسکا بیٹا یہ کیسی باتیں
کر رہا ہے۔ اسے اپنی سماعت پر یقین نہیں ہو رہا تھا کہ وہ میری وجہ سے گھر
چھوڑ کر جا رہا ہے۔
“ آخر کیوں بیٹا ؟ “ شازمہ نے والی کے پاس آکر کہا
“ کیوں ؟ اس کیوں کا جواب آپ مجھ سے بہتر جانتی ہیں۔ چلو حسنہ“ والی نے
مضبوط لہجے میں کہا اور اسکا بازو کھینچ کر جانے لگا۔ والی کو اس وقت حیرت
کا شدید جھٹکا لگا جب حسنہ نے اپنا بازو اسکی گرفت سے چھڑوانے کی ناکام
کوشش کی۔
“ میں نہیں جاؤں گی کہیں بھی اپنا گھر چھوڑ کر آپکے ساتھ“ والی نے حیرت سے
اسے دیکھا پھر ایک جھٹکے سے اسکا بازو اپنی گرفت سے آزاد کیا۔
“ تم جانتی ہو انھوں نے تمھارے ساتھ کیسا گھناؤنا کھیل کھیلا ؟ “والی نے
شازمہ کی طرف شہادت کی انگلی کرتے ہوئے کہا پر وہ دیکھ حسنہ کی طرف رہا تھا
غصے کی وجہ سے اسکی آنکھوں سے انگارے نکل رہے تھے۔
“ ہاں میں جانتی ہوں۔“ اسنے آہستگی سے کہا، شازمہ کی سمجھ میں ساری بات
آگئی تھی۔ وہ وہی صوفے پر بیٹھتی چلی گئی۔
“ تم جانتی ہو پھر بھی میرے ساتھ نہیں جاؤ گی ؟ کس مٹی کی بنی ہو تم ؟ آخر
اتنا صبر اتنی برداشت کہاں سے آتی ہے تم میں؟ “ اسنے کوئی جواب نہیں دیا وہ
خاموشی سے کھڑی رہی اسنے کبھی سوچا تک نہیں تھا کہ والی کو اس سارے معاملے
کی خبر ہو سکتی ہے وہ تو شازمہ کو معاف کر کے سب کچھ بھول چکی تھی کیونکہ
سب ٹھیک ہوتا نظر آ رہا تھا۔
“ دیکھا ماما ہم جسے تکلیفیں دیتے رہے وہ آج مثال بنی کھڑی ہے۔“
والی نے کہا۔
“ ہاں بیٹا مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی میں ،،،، میں اپنی بہن کی نشانی کو
اسکے نا کردہ جرم کی سزا دیتی رہی،،،،، جو اسنے کیا بھی نہیں اور وہ بیچاری
صبر کرتی رہی مجھے معاف کردو بیٹا میں بے حد شرمندہ ہوں “ شازمہ نے روتے
ہوئے اپنے ہاتھ جوڑ دئے۔ حسنہ نے آگے بڑھ کر شازمہ کے ہاتھ پکڑ کر اسے گلے
سے لگا لیا۔
“ بس کردیں آنٹی مجھے اور شرمندہ نہیں کریں میں سب کو سب کچھ معاف کر دیا
میرے دل میں اب کوئی گلہ شکوہ نہیں ،،،، آپ کیوں بار بار معافی مانگ رہی
ہیں آپ میری ماں کی جگہ پر ہیں اور ایک ماں معافی مانگتی اچھی نہیں لگتی۔“
حسنہ نے اسکے آنسو صاف کئے والی مسکراتا ہوا بیگ کمرے میں لے کر چلا گیا۔
(جاری ہے ) |