جب سے لکھنا شروع کیا ہے مجھے نہیں یاد کبھی مولانا فضل
الرحمن کے بارے میں کلمہ خیر کہا ہو۔وہ بالعموم طنز اور تنقید کا عنوان ہی
بنے رہے۔ہم طالب علموں نے انہیں جب بھی دیکھا ’’ رخصت ‘‘ اوڑھ کر بارگاہ
اقتدار کی جانب رواں دیکھا ۔گاہے گماں ہوتا جس راستے پر مولانا کے قدموں کی
چاپ سنائی دیتی ہے ’’عزیمت‘‘ وہ راستہ بدل کر دوسری طرف چلی جاتی ہے۔مولانا
پاکستانی سیاست کا وہ شجر سایہ دار ہیں جس پر خزاں رت آتے ہم نے کبھی نہیں
دیکھی ، اس کی مہربان اور میٹھی چھاؤں میں البتہ ہر حکمران کو قیلولہ کرتے
ضرور دیکھا گیا۔جب جب کسی نے سوال کیا: مولانا کیسے آدمی ہیں، ایک ہی جواب
زبان پر آیا:
وہ محل نشینوں کے پائیں باغ کی بلبل ہیں ، باغ میں جب تک یہ بلبل نہ چہکے
اقتدار ادھورا رہتا ہے۔ایک سہ پہر اکوڑہ خٹک میں مولانا سمیع الحق کی
پرتکلف دعوت کے بے تکلف ماحول میں ، میں نے سوال پوچھا : مولانا ! پاکستانی
سیاست میں سب سے سمجھدار سیاست دان کون ہے، آصف زردای یا مولانا فضل الرحمن
؟مولانا نے قدرے تامل کے بعد مجھ سے سوال کیا: آپ سیاست کی مروجہ سمجھداری
کی بات کر رہے ہیں؟میں نے عرض کی ،جی ہاں سکہ رائج الوقت سمجھداری کی بات
کر رہا ہوں۔مولانا نے قہقہہ لگا کر جواب دیا: پھر تو مولانا فضل الرحمن کا
کوئی مقابلہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔یہ گویا اس موقف کی تائید تھی جو برسوں سے میرا ہم
سفر تھا۔
اب مگر وقت نے ،کہ وہ آدمی کی تہذیب بھی کرتا ہے اور اس کے نتائج فکر کی
بھی ،کچھ سوالات بھی میرے ہم سفر بنا دیے ہیں۔ان میں بنیادی سوال یہ ہے کہ
پاکستان کی مروجہ سیاست اولیاء اللہ کی مجلس ہے یا اہل سیاست کی بزم؟اگر تو
یہ اہل اللہ کی مجلس ہے تو مولانا فضل الرحمن کو پرکھنے کے معیارات وہی ہوں
گے جن پر اللہ کے ولیوں کو جانچا جاتا ہے۔لیکن اگر یہ اہل سیاست کی بزم ہے
تو مولانا کے بارے میں فیصلہ انہی اصولوں کی بنیاد پر ہو گا جن پر باقی اہل
سیاست کو پرکھا جاتا ہے۔مولانا فضل الرحمن سیاست کی دنیا کے آدمی ہیں اس
لیے انہیں سیاست کے ذیل ہی میں پرکھا جانا چاہیے۔اس ضمن میں چند پہلو قابل
توجہ ہیں۔
۔ نائن الیون کے بعد اب طوفان کھڑا ہو گیا تھا۔ایک طرف مغرب کا دباؤ اور
دوسری جانب اندرون ملک سیکولر لابی کی بے تابیاں ۔دینی مدارس کے خلاف ایک
ماحول بن چکا تھا۔دیو بند مکتب فکر بالخصوص پریشان کن صورت حال سے دوچار
تھا۔ اس پر الزام تھا کہ یہ طالبان کا ممدو معاون رہا ہے ۔تھوڑی سے بے
بصیرتی یا جذباتی طرز عمل کا مظاہرہ ہوتا تو خود جے یو آئی کے بارے میں
خدشات موجود تھے کہ کالعدم قرار دے دی جاتی یا اس کے لیے کام کرنا مشکل بنا
دیا جاتا۔مولانا فضل الرحمن نے اپنے وابستگان کو اس مرحلے سے یوں نکالا
جیسے مرغی بچوں کو پروں میں چھپا کر عافیت کی جانب لے جاتی ہے۔طوفان آیا
اور گزر گیا۔آج مدارس کام کر رہے ہیں اور جے یو آئی نہ صرف سیاست کر رہی ہے
بلکہ حکومت کا حصہ ہے ۔اور نہ صرف حصہ ہے بلکہ اسے حکومت کا بکتر بند کہا
جاتا ہے۔اب یہ نواز شریف کا احسان نہیں کہ اس نے جے یو آئی کو حکومت میں
شریک کیا بلکہ حکومت مولانا کی ممنون ہے کہ وہ اس کا حصہ بنے۔مسلم لیگ نون
آج تک جے یو آئی کو یہ طعنہ نہیں دے سکی کہ اس نے مغربی دباؤ کے باوجود جے
یو آئی کے مولویوں کو حکومت کا حصہ بنا کر ان پر احسان کیا۔ کیا اسے ناکام
سیاست کہا جائے گا؟
مولانا فضل الرحمان سب اہل سیاست کے ماسٹر مائنڈ ہیں ان کو براہ راست
برطانیہ اور امریکہ سے احکامات موصول ہوتے ہیں یوں کہا جا سکتا ہے کہ
مولانا فضل الرحمان کرپٹ سیاست دانوں کو تمام مذہبی جماعتوں کی طرف سے ڈھال
فراہم کرتے ہیں موجودہ سیاست اگر جوا ہے جو درحقیقت جوا ہے تو مولانا ان کو
کھل کھیلنے کا موقع فراہم کرتے ہیں کہتے ہیں لگے رہو منّا بھائی اہل اسلام
اور اہل پاکستان مذہبی رہنماوں کی موجودہ سیاست دانوں کی سدھارنے کی تمام
کوششوں کو میں ناکام بنا دوں گا اور مذہبی دلائل سے یہ ثابت کردوں گا کہ
موجودہ سیاست دانوں کی تمام غدّاریاں اور بدعنوانیاں نا صرف جائز ہیں بلکہ
اسلام میں اس کی اجازت ہے جو لوگ جمہوریت کے خلاف آواز اٹھا تے ہیں وہ
انتہا پسند ہیں دلائل ا تنے ہی زیادہ مضبوط ہونگے جتنا زیادہ بیرونی اور
سیاست دانوں کا تعاون ہوگا -
مولانا صاحب اپنے ایک انٹر ویو میں فرماتےہیں کہ سب کو یکساں سہولیات کی
تقسیم کے لیے یعنی سب فرقوں کو تعلیمی امداد مالی امداد قانونی امداد اور
تحفّظ فراہم کرنے کے لیے سیکولرازم نہایت ضروری ہے ہم اس بات کے حامی ہیں
کہ سب حکمرانوں کا فرض ہے کہ تمام فرقوں والوں کو انصاف مہیّا کریں ہیلتھہ
کے لحاظ سے سہولیات دیں پجلی پانی ٹیلی فون گیس روٹی کپڑا مکان مہیّا کریں
ہم یہ تو نہیں کہ سکتے کہ یہ آدمی فلاں فرقے کا ہے ہمارے فرقے کا نہیں ہے
اس لیے ہم اسے تمام بنیادی سہولیات سے محروم رکھیں گے ایسا نہیں ہو سکتا کہ
سب کو یکساں حقوق دینا ہمارا فرض ہم اسلامی سیکولر ازم کو مانتے ہیں ہم
دنیا وی سیکولرازم کو نہیں مانتے جو آج کل کے سیاست دانوں میں پایا جاتا ہے
کہ جو جس مذہب پر چاہے چلے جو عیسائی بننا چاہے وہ عیسائی بنے جو ہندو سکھہ
بننا چاہے وہ ہندو سکھہ بنے جو چاہے
مسلمان بنے یا نا بنے اس سیکولرازم کو تو ہم بھی نہیں مانتے لیکن اس حد تک
تو ماننا پڑتا ہے کوئی اگر اہل حدیث ہے یا سنی ہے دیوبندی ہے یا شیعہ ہے
کوئی بریلوی ہے یا اہل طریقت کوئی مزاروں پر چڑھاوے چڑھانے والا ہے یا غیر
مقلّد ہے ہمیں سب سے یکساں سلوک کرنا پڑتا ہے ورنہ تو ملک مین امن و امان
کی صورت حال کو بہتر نہیں بنا یا جاسکتا فرقہ پرستی کے ہم بھی خلاف ہیں
لیکن اب کیا کیا جائے مجبوری ہے لیکن یہ بات کوئی نہیں جان سکتا کہ امریکہ
اور برطانیہ اور عیسائیت کو خوش کرنے کے لیے وہ ایسے بیان دیتے ہیں کیونکہ
امریکہ برطانیہ اور سیکولر ملکوں کی ڈیمانڈ یہ ہے کہ سیکولرازم ہونا چاہیے
چاہے مذہبی ہو یا غیر مذہبی سیکولرازم سیکولرازم ہے اس کوجو بھی رنگ دے لیں
حاصل یہی ہے کہ جو جہاں لگا ہوا ہے ٹھیک لگا ہوا ہے - |