٢٠١٣ الیکشن کا سال ہے یا ٢٠١٤، ٢٠١٥، ٢٠١٦، ٢٠١٧ اور یا اب ٢٠١٨

جب سے عام انتخابات ٢٠١٣ میں منعقد ہوئے اس کے بعد سے جو وفاق میں حکومت بنانے میں ناکام رہے انیہں ہر سال الیکشن کا نظر آتا رہا اور چوٹی کے سیاستدان کو الیکشن ٢٠١٨ سے پہلے ہی نظر آتے رہے، مگر شومئی قسمت کے بالاخر ٢٠١٨ آہی گیا (چند دنوں کے بعد) اور اب یا تو الیکشن ٢٠١٨ میں یا اس کے بھی بعد ہی ممکن ہوسکتے ہیں اس سے ایک بات بالکل واضع ہوگئی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے دھرنوں، جلسوں اور ریلیوں میں عوام کو مسلسل دھوکا دیتی رہیں کہ الیکشن وقت سے پہلے ہوجائیں گے قوم نے کبھی چار کھلتے بند ہوتے دیکھے، کبھی وزرا حتیٰ کہ وزیراعظم کی برطرفی بھی دیکھ لی، کنٹینر دیکھے، اسلام آباد کو کئی بار کئی دنوں تک محاصرے میں بند دیکھا، کبھی ڈان لیک، کبھی پاناما لیک، کبھی پیراڈائیز لیک دیکھا، کبھی آئی ایس پی آر کے حکومت کو الٹی میٹم یعنی جوابی ضد بحث دیکھی، جیوڈیشل ایکٹو ازم دیکھا، کئی کمیشن دیکھے مگر جناب کیا کیا جائے کہ حکومت جاتے ہوئے نیہں دیکھ سکے۔

یہ بات اپنی جگہ بالکل واضع رہی کہ حالانکہ وفاقی سطح اور قومی سطح پر ن لیگ ایک سیاسی پارٹی کے طور پر بہترین نمبر گیم والی جماعت نظر آئی اور کسی بھی سطح پر ن لیگ کو نہ تو حکومت کرنے دی گئی اور نہ ن لیگ کچھ زیادہ ڈلیور کرسکی۔ اور اب طبل انتخابات بجا ہی چاہتا ہے اور پھر تمام سیاسی جماعتیں اب انتخابات کے لئے کام کرنا پریکٹیکلی شروع کردیں گی، اب مسئلہ یہ بھی ہے کہ پچھلا الیکشن تو آر اوز کا الیکشن قرار دیا جاتا رہا، اب اگلے الیکشن میں اپنی خواہش پر مبنی نتائج حاصل نہ کرنے والی سیاسی جماعتیں اگلے الیکشن کو کس کا الیکشن قرار دیں گی، یہ بات کہنا تو قبل از وقت ہے، لیکن ن لیگ نے جس طرح یہ چار سال حکومت میں رہ کر گزارے ہیں کئی بار تو ن لیگ کا بڑا دل کرتا ہوگا کہ وہ اپوزیشن میں ہوتے تو سیاسی اکھاڑے میں پنجہ آزمائی کا مزا ہی کچھ اور ہوتا۔

بحرکیف جناب الیکشن کی آمد آمد ہے، اللہ خیر کرے کون سی جماعت اب کسے سیاسی شہید بنانے کی کوشش کرے گی، اس سلسلے میں خاص طور پر بلاول بھٹو صاحب کو بڑا محتاط رہنا ہوگا کیونکہ پیپلز پارٹی کے ایک جلسے میں ایک لیڈر جذبات کی رو میں بہہ کر فرماتے پائے گئے کہ بلاول بھٹو اپنے نانا اور اپنی ماں کی سیاسی وراثت ہیں (اللہ خیر کرے کہٰیں بلاول بھٹو صاحب کو بھی وراثت کے ساتھ ساتھے اپنے نانا اور اپنی والدہ ماجدہ جیسے حالات سے نہ گزرنا پڑے کہ یہ بات بڑی حد تک حقیقت پر مبنی معلوم ہوتی ہے کہ پیپلز پارٹی کو نئے نئے سیاسی شہید ڈھونڈنے اور ان پر ووٹ لینے کا ملکہ حاصل ہے)، ہماری تمام تر نیک تمنائیں بلاول بھٹو صاحب کے لئے ہیں اللہ ان کو زندگی دے اور انیہں اپنی زندگی میں کچھ کر گزرنے کی توفیق دے کہ سیاست کے میدان پر خار میں ان کی دال ان کے والد ماجد کی وجہ سے زیادہ گلتی معلوم نہیں ہوتی)۔

الیکشن سے پہلے اگلے الیکشن کے لئے نگران حکومت اور الیکشن کے ٹرمز آف ریفرینسز کا مسئلہ کافی گھمبیر ہوتا معلوم ہورہا ہے، کیونکہ حکمران جماعت اور اس کے سیاسی حواریوں کے پاس نمبر گیم کچھ زیادہ ہی ٹھیک ٹھاک ہے اور اپوزیشن کی تمام تر جماعتیں گلے ملنے کے باوجود صرف ن لیگ کے برابر ہی نشستیں نہیں رکھتی جبکہ اپوزیشن کے ساتھ تمام تر اپوزیشن جماعتیں بھی نہیں ہیں مثلا ایم کیو ایم کے اور فضل الرحمٰن صاحب کے ووٹ بھی اگر ن لیگ کے حواری میں شمار کئے جائیں تو اپوزیشن کے پاس دھرنے، روڈ بلاک کرنے، علاقے بند کرنے کے علاوہ کوئی زیادہ کام کرنے کے نہیں ہیں۔ ہاں یہ بات خوف ہے حب علی میں نہ سہی بغض معاویہ میں الیکٹرانک میڈیا پر اپوزیشن جماعتوں کی موجودگی ان جماعتوں کی عددی طاقت سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ میڈیا کا سودا حکومت کے کاموں میں نقائص اور غلطیاں نکالنے سے ہی چلتا ہے اور ان کو سب سے بڑھ کر ریٹنگ جب چاہیے ہوتی ہے تو اس کے لئے شعبدے بازوں مثلا شیخ رشید احمد، مولانا طاہر القادری اور خان صاحب کی سہولت میڈیا کے پاس ہمیشہ موجود رہتی ہے۔

اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے اور ملک و ترقی و خوشحالی کے راستے پر گامزن رکھے آمین

M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 494139 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.