منگل 5 دسمبر کو اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں
پیپلزپارٹی کے 50 ویں یومِ تاسیس کے موقعے پر خوشی سے نہال آصف اور بلاول
زرداری خوب گرجے برسے۔ نجفی انکوائری رپورٹ بھی ہائی کورٹ کے حکم پر
منظرِعام پر آگئی اور اب مرکز کے ساتھ ساتھ پنجاب حکومت بھی ’’وَخت‘‘ میں
پڑ گئی۔ پاکستان اِس لحاظ سے کالم نگاروں کی جنت ہے کہ یہاں کالموں کا پیٹ
بھرنے کے لیے ہمہ وقت ڈھیروں ڈھیر مواد دستیاب رہتا ہے۔
اصل کالم تو بعد میں ،پہلے کچھ اپنی ذات کے بارے میں ۔۔۔۔۔ کل سی ایم ایچ
لاہور میں میراآپریشن ہے ۔ کہیں آپ یہ نہ سمجھ لیں کہ یہ ویسا ہی آپریشن ہے
جیسا حکمرانوں نے خادم حسین رضوی کے خلاف کیا اور مُنہ کی کھائی۔ یہ میرے
پِتّے کی سرجری ہے جو پتھروں سے بھرا پڑا ہے۔ اگر مجھے پہلے سے علم ہوتا تو
میں دَست بستہ اپنا’’ پتّا‘‘ خادم حسین رضوی کی خدمتِ عالیہ میں پیش کر
دیتی تاکہ اُن کے کارکُن ’’پتھر‘‘ اکٹھے کرنے کی زحمت سے بچ جاتے لیکن سانپ
نکل جانے کے بعد لکیر پیٹنے کا کیا فائدہ۔ خادم رضوی تو اپنے سارے مطالبات
منوا کر گھر سدھارے ،اب اُنہیں پتھروں کی کیا ضرورت ،اِس لیے اب ہمیں
آپریشن کروانا ہی پڑے گا اور شاید کچھ عرصے ت(بشرطِ زندگی)معزز قارئین سے
رابطہ ٹوٹا رہے ۔
اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔ مشہور محاورہ ہے ’’چھاج بولے تو بولے ،چھلنی
بھی بولتی ہے‘‘۔ پیپلزپارٹی کے یومِ تاسیس پر منعقدہ جلسۂ عام میں عوام کی
کثیر تعداد دیکھ کر خوشی سے نہال آصف زرداری نے بہت سی بڑھکیں لگائیں۔ ایک
موقعے پر تو وہ ’’جُگنی‘‘ پر باقاعدہ دھمال ڈالتے بھی نظر آئے جس سے صاف
ظاہر ہوتا تھا کہ جلسے میں عوام کی بھرپور شرکت دیکھ کر زرداری صاحب کی
اُمید کی ٹوٹتی ڈور ایک دفعہ پھر بندھ گئی ہے ۔ ہم نے اُنہیں اتنا خوش کبھی
نہیں دیکھ جتنا وہ اِس موقعے پر نظر آئے۔ اُنہوں نے کہا ’’گارڈ فادرنے ملک
کو کنگال کر دیاجبکہ ’’جعلی خاں‘‘ کو عقل نہیں۔ نوازشریف کی جمہوریت کو 2
بار بچا چکے ،اب یہ غلطی نہیں کریں گے۔ ہم اپنی جمہوریت لائیں گے۔ حکومت کا
مدت پوری کرنا ضروری نہیں ۔ہماری یہ کوشش ہوگی کہ یہ عبوری حکومت سے پہلے
ہار مان لیں اور چلے جائیں‘‘۔ بی بی بینظیر دَور کے ’’مردِاوّل‘‘ نے خود
شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر خوب پتھر پھینکے۔ کون نہیں جانتا کہ
پیپلزپارٹی کے پہلے دَورِحکومت میں زرداری صاحب کو ’’مسٹر ٹین پرسنٹ‘‘ اور
دوسرے دَورِ حکومت میں ’’مسٹر سینٹ پرسنٹ‘‘کا خطاب ملا۔ اُن کی ’’غضب کرپشن
کی عجب کہانیاں‘‘ زباں زدِعام ہوئیں ۔اُنہی کی کرپشن بچاتے بچاتے یوسف
رضاگیلانی نااہل ہوکر گھر سدھارے۔ اُن کے دائیں بائیں جتنے لوگ تھے ،وہ سب
نیب مقدمات کی زَد میں ہیں۔ عوام سوال کرتے ہیں کہ بمبینو سینما میں ٹکٹیں
بلیک کرنے والا کھرب پَتی کیسے بنا؟۔ اُن کی کرپشن کی داستانیں تو اتنی
طویل ہیں کہ اُن پر دو ،چار ہزار صفحات پر مشتمل کتاب لکھی جا سکتی ہے ۔
اِس لیے کم از کم اُنہیں تو میاں نوازشریف کو ’’گاڈفادر‘‘ نہیں کہنا
چاہیے۔زرداری اپنا دامن جھاڑ دیں تو اُس میں سے ایسے کئی گاڈ فادر نکلیں گے۔
آصف زرداری نے عمران خاں کو ’’جعلی خان‘‘ قرار دیا ہے۔ کپتان کی پالیسیوں
سے لاکھ اختلاف کے باوجود اُنہیں ’’جعلی‘‘ قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ وہ
نیازی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اور سبھی نیازی اپنے نام کے ساتھ خان کا
لاحقہ استعمال کرتے ہیں البتہ بلاول کے ساتھ ’’بھٹو‘‘ کا لاحقہ خالصتاََ
جعلی ہے ۔ بلاول پہلے بھی زرداری تھا اور ہمیشہ زرداری ہی رہے گا۔ بلوچ
سردار نے محض اپنی سیاسی دکانداری چمکانے کے لیے اپنے بیٹے کی نسل ہی بدل
ڈالی اور اُسے زرداری سے بھٹو بنا دیا۔ بات مگر پھر بھی نہیں بنی اور آج
بھی سُکڑی سمٹی پیپلزپارٹی روبہ زوال ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ بلوچ سردار
جعلسازی میں مہارتِ تامہ رکھتے ہیں۔ پہلے اُنہوں نے محترمہ بینظیر کی ایک
جعلی وصیت کے بَل پر پیپلزپارٹی کی قیادت سنبھالی اور پھر اپنے پورے خاندان
کو جعلی بھٹو بنادیا۔ عمران خاں کو ’’جعلی خان‘‘ کہتے ہوئے اُنہیں اپنے
گریبان میں جھانک لینا چاہیے تھا تاکہ کل کلاں شرمندگی کا سامنا نہ کرنا
پڑے۔
جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے آصف زرداری نے کہا کہ اُنہوں نے دو مرتبہ
نوازشریف کی جمہوریت کو بچایا،اب یہ غلطی نہیں دہرائیں گے ،اُن سے لڑیں گے۔
عرض ہے کہ جمہوریت میاں نواز شریف کے گھر کی باندی ہے نہ دَر کی لونڈی ،جسے
بچانے کا احسان دھر جا رہا ہے۔ ہم انہی کالموں میں پیپلزپارٹی کی اِس صفت
کا اقرار کر چکے کہ جب بھی جمہوریت کو کوئی خطرہ درپیش ہوتا ہے تو
پیپلزپارٹی ڈَٹ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ 2014ء کے عمران ،قادری دھرنے کے دوران
بھی پیپلزپا رٹی میاں نوازشریف نہیں ،جمہوریت بچانے کے لیے میدان میں آئی
اور ایسا صرف پیپلزپارٹی ہی نہیں ،دیگر تمام سیاسی جماعتوں نے بھی کیا۔
سیاسی جماعتوں کا یہ احسان میاں نوازشریف پر نہیں ،جمہوریت پر تھا ،جسے
تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔
یوں تو زرداری صاحب کہتے ہیں کہ عمران خاں کو عقل نہیں لیکن پیروی بھی وہ
عمران خاں ہی کی کرتے نظر آرہے ہیں۔ قبل اَز وقت انتخابات کا مطالبہ کپتان
ہی کا ہے جس کی بازگشت پیپلزپارٹی کے جلسۂ عام میں سنائی دی۔ آصف زرداری نے
کہا ’’ حکومت کا مدت پوری کرنا ضروری نہیں ،ہماری کوشش ہوگی کہ عبوری حکومت
سے پہلے ہی یہ ہار مان جائیں‘‘۔ یہ زرداری صاحب کی خواہش ہی ہو سکتی ہے اور
خواہشات پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی ۔ چومکھی چالیں چلنے کے ماہر ،یہ خوب
جانتے ہیں کہ اگر قبل از وقت انتخابات ہو بھی گئے تو اِس کا جو تھوڑا بہت
فائدہ ہو گا ،وہ تحریکِ انصاف ہی کو ہوگا ، پیپلزپارٹی کو نہیں۔ اِس لیے
زرداری صاحب یہ بات ’’بڑھکوں‘‘ کی حد تک تو کہہ سکتے ہیں ،عملی طور پر وہ
ایسا کبھی نہیں چاہیں گے۔
ماڈل ٹاؤن قتل کیس کے حوالے سے نجفی انکوائری رپورٹ منظرِعام پر آگئی۔ اِس
رپورٹ میں ذمہ داری کسی خاص شخص پر نہیں ڈالی گئی بلکہ تمام متعلقین کو اِس
جرم میں قصوروار قرار دیا گیا ہے ۔ اِس رپورٹ میں یہ صراحت نہیں کی گئی کہ
عوامی تحریک کے کارکنوں پر فائرنگ کا کِس نے حکم دیا البتہ یہ نتیجہ ضرور
اخذ کر لیا گیا کہ پولیس نے وہی کام کر دکھایا جو اُسے کرنے کے لیے وہاں
بھیجا گیا تھا۔ رپورٹ میں یہ بھی لکھاگیا ہے کہ رانا ثناء اﷲ طے کر چکے تھے
کہ کسی بھی طرح راولپنڈی سے لاہور تک مارچ نہیں کرنے دیں گے۔ رپورٹ یہ بھی
بتاتی ہے کہ پہل مشتعل ہجوم نے کی اور پولیس پر پتھراؤ شروع کر دیا جس کے
جواب میں پولیس نے فائرنگ شروع کر دی اور جانوں کا زیاں ہوا۔ 70 صفحات پر
مشتمل اِس انکوائری رپورٹ میں بہت سی خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے جس پر
کسی دوسرے کالم میں نشاندہی کریں گے البتہ قوم کو نوید ہو کہ مولانا
طاہرالقادری نے اپنے معروف ’’کنٹینر‘‘ کی تزئین وآرائش کا حکم صادر فرما
دیا ہے اور اب عنقریب قوم ایک دفعہ پھر ’’دمادم مَست قلندر‘‘ کا نظارہ کرے
گی۔ |