آج عالمی قوا نین کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے خبط الحواس
امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے جس طرح عالم اسلام کے قبلہ اول بیت المقدس کو
اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کیا ہے یقینایہ کسی امریکی صدر کی اِس صدی کی
سنگین غلطی ہے جس کا مظاہرہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے ایک غیرسنجیدہ اور خبط الحواس
امریکی صدر سے سرزد ہو ئی ہے عالمی دباؤ کے باودجود ٹرمپ نے اپنے یہودی
داماد کی بات مانتے ہوئے مقبو ٖضہ بیت المقدس کوجا بر فاسق و فاجر اور دہشت
گرد اعظم اپنے امریکی بغل بچے اسرا ئیل کا دارالحکومت تسلیم کرلیا ہے ،بلاشبہ
آج ٹرمپ کے اِس اعلان اور سنگین غلطی کے بعد دنیا واضح طور پر عیسا ئی و
یہودی اور مسلم مفادات کے بلاک میں بٹی نظرآرہی ہے،ابھی جب یہ سطور قرطاس
پر تحریر کی جا رہی ہیں اِس وقت تک ٹرمپ کی اسرا ئیلی مفادات میں ہٹ دھرمی
کے بعد اُمت مسلمہ سمیت پوری دنیا نے ڈونلڈٹرمپ کے اعلان پر سخت غم و غصہ
پایا جا نا ایک فطری عمل ہے اگر اِس صورتِ حال کے پیشِ نظر ڈونلڈ ٹرمپ نے
جلد از جلد آئندہ 72گھنٹوں کے اندراپنا یہ اعلان واپس نہ لیا توقوی خدشات
خارج از امکان نہیں ہیں کہ امریکا سمیت اسرا ئیل کو سنگین نتا ئج بھگتنے
پڑسکتے ہیں جس کے سا تھ ہی پوری دنیا ایک ایسی گوریلا جنگ کے منہ میں چلی
جا ئے گی جس کا ازالہ صدیوں میں بھی نہیں ہوسکے گا ۔
تا ہم اِس میں کو ئی دورا ئے نہیں ہے کہ آج امریکی صدر نے جو کچھ کیا ہے یہ
کھلے امریکا اسرا ئیلی گٹھ جوڑ کا ہی نتیجہ ہے اَب سو فیصد یقین میں بدل
چکی ہے کہ آج تک اسرا ئیل نے فلسطینیوں پر جس طرح کے جنتی بھی دہشت گردی کے
سلسلے جا ری رکھے اِن سب ہی کے درپردہ اسرائیل کو کھلی امریکی حمایت اور
مدد شا مل تھی اور آج جب کہ امریکا پر عالمی دباؤ تھا کہ وہ اسرائیل کی
حمایت اور فسلطینیوں کی مخالفت میں کوئی ایسا قدم نہیں اُٹھا ئے گا جس سے
عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ثابت ہو ،مگر خبط الحواس غیرسنجیدہ امریکی
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کسی کی ایک نہ سُنی اور عالمی دباؤ کو خا طر میں نہ لا
تے ہوئے وہی کرڈالا جس کو نہ کرنے کی عالم اسلام اور دنیا تا کیدکیا کر تی
تھی یقینی طور پر ڈونلڈٹرمپ کے اعلان کے بعد امریکی سفارتخا نہ تل ابیب سے
مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کی ہدایت جاری کرنا اِس بات کی جا نب بھی
کھلا اشارہ ہے کہ کل بھی اسرا ئیل کو فسلطینیوں پر مظالم کی حمایت حا صل
تھی اور آج بھی ہر طرح کی اسرا ئیلی دہشت گردی کو امریکی حمایت حاصل ہے اور
اِس سے انکار نہیں کہ ڈونلڈٹرمپ نے اپنے اِس غیر منصفانہ اور جا برانہ
اعلان کے بعد دنیا کو تیسری عالمی جنگ میں جھونکنے کی گھنٹی بجا دی ہے ۔
یہاں یہ امریقینا افسوس نا ک ہے کہ پچھلے دِنوں وائٹ ہا ؤس سے غیر ملکی
خبرراساں ایجنسی کے مطا بق خبر یہ آئی ہے کہ فطری طور ریسلر اور بات بات پر
لڑائی جھگڑے کرنے والاجنگجواور خبط الحواس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے
یہودی داماد کی خواہشِ اول اور اپنی انتخا بی مہم میں امریکی صدر منتخب
ہونے کے بعد اسرائیل کو خوش کرنے والے اعلان کو حقیقی معنوں میں اُس وقت
عملی جا مہ پہنادیا جب ٹرمپ نے وا ئٹ ہا ؤس میں اپنی ایک پریس کا نفرنس میں
مسلما نوں کے قبلہ اول مقبوضہ بیت المقدس کو غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا
دارالحکومت تسلیم کر نے کا اعلان کرنے کے ساتھ ہی چھ ما ہ کے مختصر ترین
عرصے میں امریکی سفارتخانہ بھی تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقد منتقل کرنے کی
بھی فوری ہدایات جا ری کیں جِسے ایک طرف اسرائیلی وزیراعظم سمیت اسرا ئیلی
میڈیا اور عوام نے اپنی بڑی کا میا بی قرار دیتے ہوئے مسرت کا اظہار بھی
کیا ہے تووہیں اسرائیلیوں نے اِس بات کا بھی کھل کر اظہار کیا کہ ہم پوری
دنیا کی لاکھ مخالفتوں کے با وجودبھی سب کچھ کو چھوڑ کرایک امریکا کا دامن
اِسی دن کے لئے تھامے رہے کہ ایک نہ دن ایک یہی امریکا ہمیں اِس طرح ہمارے
خوا بوں کی تعبیرضرور دے گا اور آج ثابت ہوگیاہے کہ آج تک جو کام کو ئی بھی
امریکی صدر نہ کرسکا وہ مشکل ترین کام یہ خبط الحواس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ
کرگیاہے اِس نے جو کیا یقینا اِس کے بھی اسرا ئیل سے ذاتی اور سیاسی مفادات
وابستہ ضرور ہوں گے مگر چو نکہ دنیا کے تمام منفی نتا ئج سے بے خبر
ڈونلڈٹرمپ اسرائیل کو جو انعام دینا چاہتا تھا آج اِس نے وہ انعام تو اسرا
ئیل کو دے دیا ہے۔
مگر اَب دیکھنا یہ ہے کہ اسرا ئیل امریکا سے اپنے مفادات کا سوداکرنے کے
بعد کب تک امریکا کے ساتھ چپک کر چلتا ہے چونکہ اسرائیل کو امریکی بغل بچہ
بنے رہنا کا انعام تو مل چکا ہے اسرائیل امریکا کو اپنی اِس کا میا بی اور
خوشی کے جوا ب میں کیا دیتا ہے؟ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے؟ کہیں اسرا ئیل
امریکا کو انعام دینے کے بجائے پھر 9/11کی طرح کے کسی اور سانحے سے دوچار
نہ کردے، کیو نکہ ابھی اسرائیل اِس قسم کے سانحات سے امریکا کو دوچار کرکے
امریکا کو اپنے مفادات کے لئے مسلم اُمہ کے خلاف استعمال کرنے کامزید ارادہ
رکھتا ہے۔
جبکہ اِدھر دوسری طرف پاگل جنونی اور خبط الحواس اور غیر سنجیدہ امریکی
صدرڈونلڈٹرمپ کے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کئے جا نے والے
اعلان کے بعدپاکستان سمیت پوری اُمتِ مسلمہ پُرزورمذمت کرتے ہوئے آگ بگولہ
ہو گئی ہے یوں آج یہ ٹرمپ کے فیصلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف
قراردے رہی ہے13دسمبر کواوآئی سی کا ہنگا می اجلاس بھی طلب کرلیاگیاہے،
حماس نے ٹرمپ کے اِس اقدام کو ڈیڈلا ئن پارکرنے کے مترادف قرار دیا ہے،عالم
اسلام اور بعض انصاف پسند برطا نیہ اور فرانس جیسے ممالک کی جا نب سے بھی
ٹرمپ کے جنو نی اور پاگل پن والے فیصلے پر سخت ترین الفاظ کے ساتھ ردِعمل
سامنے آرہے ہیں،جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اِس فیصلے پر پوری دنیا اِس بات پر
سوفیصد متفق ہے کہ اِس سے امریکا و اسرا ئیل سمیت پوری دنیا میں کشیدگی
بڑھے گی اور دنیا کا امن دیدہ دانستہ تباہ و برباد ہوجا ئے گا جس کا ذمہ
دار صرف اور صرف امریکی صدر ٹرمپ اور بس ٹرمپ ہوگا،تا ہم طیب اردگان نے
القدس کی شنا خت تبدیل کرنے کی نا پاک جسارت قبول نہیں کی ہے، اور پاکستان
نے بھی فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے امریکی صدر پر اپنا سخت ترین
الفاظ میں ردِعمل ظاہرکیا ہے یقینا جب 13دسمبر کو اُو آئی سی کا اجلاس ہوگا
تو مسلم ممالک اپنے سخت ترین ردِ عمل سے امریکی صدر کو اپنا اعلان واپس
لینے پر مجبور کریں گے۔
ا ٓج اِس میں شک نہیں ہے کہ ٹرمپ کے یک طرفہ اعلان نے عالمِ اسلام کے مسلما
نوں کو ما یوس کیا ہے اَب پاکستان کو مسئلہ کشمیر پر امریکی ثالثی کردار
اداکرنے کی پیشکش پر ضرور نظرثا نی کرنے کی اشد ضرورت ہے کیو نکہ امریکا
مسئلہ کشمیر کے حل میں بطور ثالث پیش ہو کر ایسا ہی فیصلہ کرے گا جیسا کہ
آج اِس نے فلسطین اور اسرا ئیل تنازع میں ثالث کا رول اداکرتے ہوئے
فسلطینیوں کے جا ئز حقوق کا سودا اسرائیلی مفادات کو ملحوظِ خاطر رکھتے
ہوئے کیا ہے کہیں مسئلہ کشمیر میں ثالث کا رول اداکرنے والا یہی امریکا
ایسا کو ئی فیصلہ نہ دے دے جس سے بھا رتی جیت اور کشمیریوں کی ہا ر ثا بت
ہو جا ئے۔
بہر کیف ، عالم اسلام اور پوری دنیا کو اِس بات کا بھی با ریک بینی سے ایک
بار ضرور جا ئزہ لینا ہوگا کہ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرا ئیلی دارالحکومت
تسلیم کرنے کا اعلان ایک امریکی صدر ٹرمپ کا ذاتی معا ملہ تو نہیں ہے کیوں
کہ ایسا لگتا ہے کہ جب ٹرمپ کا یہ کہنا ہے کہ ’’ یہ معا ملہ کا فی دیر سے
رکا ہوا تھا‘‘ مگرمیں نے اِسے یہ اعلان کرکے ختم کردیا ہے تو پھر یہ جنو نی
ٹرمپ کا ذاتی معا ملہ ہی ہے جبکہ وہ پوپ جو ساری دنیا میں اسٹیٹس کو کے سب
سے بڑے حا می سمجھے جا تے ہیں اِس نے بھی ٹرمپ کے فیصلے کو سراہا ہے‘‘۔ اَب
کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ ڈونلڈ ٹرمپ، اسرائیلی وزیراعظم اور پوپ یہ تینوں
ہی ایک دوسرے کو تھپکی دے کردنیا کو تیسری عالمی جنگ میں دھکیلنے کی سازش
میں برابر کے شریک ہیں ۔(ختم شُد)
|