سیاسی داؤپیج

ہم نے جب سے ہوش سنبھالا بس یہ ہی دیکھا کہ ہمارے اس ملک میں سیاست کرنا ایک گیم کھیلنے جیسا ہے کیوں کہ یہاں سیاست کی نہیں جاتی بلکہ کھیلی جاتی ہے اور بڑے بڑے کھلاڑی یہاں کے میدان سیاست میں اپنے اپنے طریقے سے داؤ پیج لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ہر ایک کھلاڑی کا اپنا ایک طریقہ ہے جس کا مقصد صرف اور صرف اپنی کامیابی اور دوسروں کا یعنی عوام کا بیڑہ غرق کرنا مقصود ہوتا ہے -

ابھی پچھلے دنوں جناب ڈاکٹر طہرالقادری اور سابق صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری صاحب کی ملاقات ہوئی جس میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی آنے والی رپورٹ کے متعلق گفت وشنید ہوئی اور دونوں رہنماؤں میں یکجہ ہوکر سڑکوں پر نکلنے کے معاملے پر اتفاق رائے ہوا لیکن سوال یہ ہے کہ جب جناب محترم ومعزز ڈاکٹر طہرالقادری صاحب نے جنوری 2013 میں پیپلز پارٹی کے دور میں دھرنا دیا تھا وہ اس وقت کی حکومت یعنی پیپلز پارٹی یعنی آصف زرداری کے خلاف تھا مجھے آج بھی وہ خطاب یاد ہے جب ڈاکٹر صاحب نے اپنے مخصوص جوشیلے انداز میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا ( میں حسینیت کا پیغام لیکر آیا ہوں اب یزیدیوں کا وقت ختم اب لٹیروں بدمعاشوں ظالموں ڈاکوؤں اور فرعونوں کو یہاں سے نکلنا ہوگا ) .

جناب محترم ڈاکٹر صاحب سے ہم نہیں آپ نہیں لیکن جناب آصف علی زرداری نے یہ ضرور پوچھا ہوگا کہ ڈاکٹر صاحب وہ یزید اور فرعون کون تھے جناب ڈاکٹر صاحب وہ ڈاکو اور لٹیرے کون تھے تو ڈاکٹر صاحب نے کیا اور کس منہ سے جواب دیا ہوگا مجھے لگتا ہے کہ سیاست کے منجھے ہوئے داؤ پیج کھیلنے والے کھلاڑی جناب آصف علی زرداری کے سامنے ڈاکٹر صاحب کے داؤ پیج کچھ کمزور لگ رہے ہیں .

اب دونوں رہنماؤں نے ایک ساتھ سڑکوں پر نکلنے کا عندیہ دیا ہے جناب ڈاکٹر طہرالقادری صاحب نے اپنے کارکنوں کو الرٹ رہنے اور کنٹینر تیار کرنے کا حکم بھی دے دیا ہے اور ان کے اس فیصلے کی حمایت میں چودھری برادران بھی آگے آگے ہیں اور عوامی مسلم لیگ کے سربرہ جناب شیخ رشید احمد نے بھی حمایت کی ہے جبکہ کپتان عمران خان صاحب نے بھی کہا ہے کہ اگر ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ کے معاملے میں ڈاکٹر صاحب سڑکوں پر آتے ہیں تو ہم ان کے ساتھ ہیں اور PSP کے مصطفی کمال نے بھی لہور پہنچ کر ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کی ہے اور ان کی حمایت کا اعلان کیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے اور کون کون ان کے ساتھ سڑکوں پر آنے کے لئیے تیار نظر آتا ہے ویسے سیاست کے اس کھیل میں کبھی کسی کی جیت اور کبھی کسی کی ہار ہوتی نظر آتی ہے لیکن عوام ان لوگوں کے بیچ میں ہمیشہ پستی ہوئی نظر آتی ہے اور کیا اپوزیشن کے اس بڑے گرینڈ الائنس کی صورت میں جناب شہباز شریف اور رانا ثناءاللہ استعفہ دے دیں گے کیا ان دونوں کو اس واقعہ کی وجہ سے قرار واقعی سزا مل سکے گی کیا ماڈل ٹاؤن کے واقعہ کے متاثرین کو انصاف مل سکے گا .

یہ وہ سوالات ہیں جو واقہ کے بعد سے لیکر آج تک ہر شخص کے ذہن میں گردش کررہے ہیں پاکستان مسلم لیگ ن اس وقت جن مشکل حالات سے دوچار ہے اس سے یہ بات کھل کر سامنے آتی جارہی ہے کہ اب ان کا سیاسی مستقبل کوئی اچھا دکھائی نہیں دیتا میں یہ بات پہلے بھی ایک کالم میں کہ چکا ہوں کہ عوام کا اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ اس ملک کا اقتدار کس کو ملتا ہے اور حکومت کس کے پاس آتی ہے عوام صرف اور صرف ایسا پاکستان چہتے ہیں جہاں امن, بھائی چارہ , مہنگائی سے پاک ,جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت ہو .

اللہ سے دعا ہے کہ سیاست کے کھلاڑیوں کے ان داؤ پیج میں اس ملک کا نقصان نہ ہوجائے کیوں کہ اس وقت ہمارا ملک کسی نقصان کا متحمل نہیں ہوسکتا اور دشمنوں کی نظریں اس وقت ہمارے ملک پر جمی ہوئی ہیں ہمیں چاروں طرف خطرات کا سامنا ہے ایسا نہ ہو کہ کسی کی معمولی غلطی کی سزا اس ملک کو ملے اس لئے ہمارے سیاست دانوں کو چہئے کہ اپنے ذاتی مفاد اور ذاتی مقاصد کو ایک طرف رکھ کر اس ملک کے بارے میں سوچے جو ہمیں بڑی قربانیوں اور انتھک محنت کے بعد نصیب ہوا .
 

Muhammad Yousuf Rahi
About the Author: Muhammad Yousuf Rahi Read More Articles by Muhammad Yousuf Rahi: 166 Articles with 133809 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.