خیال منصب سوچنا چاہیے

کہتے ہیں ایک بادشاہ نے خواب دیکھاکہ وہ درختوں سے پتے توڑ توڑ کر نیچے پھینک رہا ہے۔اس نے تعبیر پوچھنے کی خاطر ایک نجومی کو اپنے دربار میں آنے کا حکم دیا۔نجومی آیا تو بادشاہ نے اس کو خواب سنا کر تعبیر پوچھی۔نجومی خواب سن کر گویا ہوا کہ الامان بادشاہ سلامت الامان! آپ نے رنج و ملال سے بھرا خواب دیکھا ہے۔آپ کے تمام رشتہ دار اور دوست احباب مر جائیں گے اور آپ خود اپنے ہاتھوں سے اُن سب کے جنازے اٹھائیں گے اور انہیں دفنائیں گے۔بادشاہ تعبیر سنتے ہی جلال میں آ گیا اور کہنے لگا کہ میری زندگی میں تو رنج و ملال بعد میں آئیں گے لیکن تمہاری زندگی کے سارے غم آج سے ختم ہوئے۔یہ کہتے ہی جلاد کو حکم دیا کہ اس منحوس نجومی کا سر قلم کر دیا جائے۔اس کے بعد کسی دوسرے نجومی کو دربار میں پیش ہونے کا حکم ملا۔وہ نجومی پہلے نجومی کے انجام سے واقف تھا۔وہ خواب سنتے ہی محو کلام ہوا، ماشاء اﷲ ماشاء اﷲ !بادشاہ سلامت آپ کا اقبال بلند ہو ،کیا خوشیوں سے بھرپور خواب دیکھا ہے۔پروردگار نے آپ کو عمر خضر ؑ سے نوازا ہے اور آپ زندگی کی ہزاروں بہاریں اپنی آنکھوں سے ملاحظہ فرمائیں گے۔بادشاہ نے جب یہ سنا تو چہرہ گلاب کی مانند کھِل اٹھا اور اس نے حکم صادر فرمایا کہ نجومی کے وزن کے برابر سونا تول کر دیا جائے اور شاہی خلعت سمیت اعزاز و اکرام کے ساتھ اسے رخصت کیا جائے۔ایک اور نکتہ سمجھیے۔ایک با پردہ خاتون حضرت امام ابو حنیفہؒ کے پاس تشریف لائیں اور ایک سوال کی بابت پوچھنا چاہا۔سوال یہ تھا کہ میں چاند کی چاندنی میں چھت پر چرخہ کاتتی ہوں۔بادشاہ کی سواری جب میری گلی سے گذرتی ہے تو اس کے قافلے میں موجود مشعلوں کی وجہ سے میری چھت پر روشنی بڑھ جاتی ہے اورچرخہ ذیادہ تیزی سے چلنے لگتا ہے۔کیا اُس روشنی میں کاتے گئے سوت کی کمائی میرے لیے جائز ہے؟امام ابو حنیفہؒ نے سوال سنا تو تعجب سے سائلہ کی طرف توجہ فرمائی اور استفسار کیا کہ آپ اپنا تعارف کرائیں۔خاتون نے بصد احترام جواباً کہا کہ آپ تعارف کو چھوڑیے اور مجھے جواب مرحمت فرمایے،میں اس سوال کی وجہ سے انتہائی تذبذب کا شکار ہوں۔آپؒ نے فرمایا کہ ہر منصب کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں لہذا جواب دینے سے پہلے آپ کے منصب کا تعین کرنا ضروری ہے۔خاتون نے فرمایا کہ اے امامؒ!میں حضرت بِشر حاؒفی کی ہمشیر ہوں۔یہ سن کر آپؒ نے فرمایا کہ آپ کا مقام و رتبہ اِس بات کا متقاضی ہے کہ آپ کو اس کمائی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ان دو تمہیدی واقعات کے تناظر میں اگر حالیہ دھرنے کا تجزیہ کریں تو بہت سارے پہلو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔یہ دھرناجو خالصتاًمذہب کی حمایت میں تھا، جس میں علامہ خادم رضوی صاحب نے مسئلہ ختم نبوتؐ کی نزاکت کو ناصرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے سامنے اجاگر کیااور یہ امرروز روشن کی طرح عیاں کر دیا کہ اس مسئلے پر پوری قوم متحد ہے اور اس پر کسی بھی قسم کا سمجھوتا ناممکن ہے۔اس دوران بڑے جیّد علماء کی شعلہ بیان تقاریر بھی سوشل میڈیا کے زریعے ہر خاص و عام کے گوش گذار ہوتی رہیں جس کو ہر کوئی اپنی اپنی ذہنی استعداد کے مطابق سمجھتا رہا۔اس معاملے میں کسی کی بھی خاموشی کسی بڑے جرم سے کم تر نہیں۔لیکن ہمارے ہاں یہ رسم رواں ہے کہ ہمیشہ کسی کوتاہی کو اعتراض اور اعتراض کوبنیاد بنا کر اصل مقصد کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہاں بھی علامہ صاحب موصوف کی گفتگو کو بنیاد بنا کر نا صرف ان کی کردار کشی کی جا رہی ہے بلکہ اصل مقصد کو بھی اسی اعتراض میں گم کیا جا رہا ہے۔ختم نبوتؐ پر ایمان ہر مسلمان کے ایمان کا جزو لا ینفک ہے جس سے کسی قسم کا اعراض ممکن ہی نہیں اور اس قانون سے چھیڑ خوانی پر ہر پاکستانی غمزدہ ہے۔لوگوں نے ذمہ داران کے خلاف نکل کر چھوٹی سے چھوٹی قربانی سے لے کر جانیں دینے سے بھی گریز نہیں کیا۔لیکن ہماری بد نصیبی سمجھ لیجیے کہ جو بھی حق کا سفیر بن کر نکلتا ہے اوریہ توفیق باذن اﷲ سے ہی ممکن ہوتا ہے اس کے حوالے سے ہمیں سمجھنا چاہیے کہ وہ شخص جسے یہ توفیق ملے اسے فرشتہ ہی نہ سمجھ لیں بلکہ انسان ہی رہنے دیں اور اس میں کوتاہی یا کسی ذاتی عیب کے وجود کی گنجایش رکھیں۔کیونکہ عرش سے فرشتے اتر کر ہماری وکالت و دستگیری نہیں کریں گے بلکہ کسی سیر کو دبانے کے لئے سوا سیرکا اہتمام خالق ِلم یزل اسی ماحول سے ہی فرمایا کرتا ہے۔لہذا حق تو یہ ہے کہ ہم قطع نظر اس بات کے کہ کون، کیسے کہہ رہا ہے ،یہ سنیں کہ کیا کہہ رہا ہے اور جو کہا جا رہا ہے وہ کتنا ضروری ہے تو معاملات اپنے منطقی انجام تک بطریقہ احسن پہنچ جائیں گے۔اور سچ تک ہماری رسائی ممکن ہو سکے گی۔لیکن ہم اکثر اس کے برعکس کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ علامہ صاحب کی جن گالیوں پر دل کھول کر تنقید کی جا رہی ہے یہ اُن گالیوں کا عشر عشیر بھی نہیں جو ہم منوں کے حساب سے گلی محلوں میں مسرت و منغض دونوں صورتوں میں ادا کرتے پھرتے ہیں ۔بعض مقامات پر تو دیرینہ دوستوں کے درمیان یہی گالیاں بے تکلف دوستی کا ناقابل تردید ثبوت ہیں بصورت دیگر ناچاقی کا شبہ ہونے لگتا ہے۔اور تو اور اکثر و بیشتر یہی گالیاں اب تو باقاعدہ تکیہ کلام کی صورت اختیار کر چکی ہیں۔بلکہ گالیاں دینے والے کی اخلاقیات کو کوئی گزند پہنچتاہے اور نا ہی سننے والے کی غیرت متاثر ہوتی ہے۔لیکن یہاں چونکہ کوئی اور بات قابل گرفت نہ تھی تو تنقید کا سارا کام اسی سے چلایا گیا۔لیکن اس ساری بحث و تمحیص کے بعد بھی دل میں تمنا سر اٹھاتی ہے کہ کاش علامہ صاحب برا بھلا کہنے کے لئے الفاظ کا چناؤ کچھ اس انداز سے کرتے جس پر عقیدت مندوں کو صفائیاں نہ پیش کرنا پڑتیں بلکہ ساری توجہ اصل مدعا کی طرف ہی مبذول رہتی۔اور دوسری بات کہ آپس کی غلط فہمیوں اور اختلافات سے جو ایک نئی جنگ چھیڑ دی ہے وہ بھی کسی طرح زیب نہیں دیتی تھی۔اس سے سوائے اپنی اہمیت و حیثیت کم کرنے کے اور کچھ حاصل نہیں ہو ا۔بہتر تھا کہ اس کو انا پرستی کی جنگ نہ بنایا جاتا۔اس سے عام عوام کو کوئی اچھا پیغام نہیں دیا گیا۔ ہمارے ہاں چند خامیوں کی وجہ سے پہلے ہی ہر سطح پرعلمائے دین کا طبقہ زیر عتاب رہتا ہے ،تو یہاں یہ کوتاہی کب بخشی جانی تھی لیکن اک حسرت ہے کہ کاش علامہ موصوف اپنے منصب کا خیال کرتے ہوئے غیر اخلاقی گفتگو سے پرہیز فرماتے تو آج ناقدین مکھی بن کے زخم پر نہ بیٹھے ہوتے۔ بقول راقم:
خیال منصب سوچنا چاہیے
موقع حرمت دیکھنا چاہیے

Awais Khalid
About the Author: Awais Khalid Read More Articles by Awais Khalid: 36 Articles with 34819 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.