آئین پاکستان میں مرزائیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے اسباب

چند دنوں سے ہمارے میڈیا پہ یہ بحث چل رہی ہے کہ پاکستان کے آئین میں مرزائیوں کو کب کیسے اور کیوں غیر مسلم قرار دیا گیا ہر کوئی اپنی حثیت کے مطابق اس بحث میں حصہ لے رہا ہے ہر کسی کا اپنا نظریہ اور اپنا نقطہ نظر ہے ۔یہاں تک کہ ہماری قومی اور صوبائی اسمبلی میں بھی اس بھی اس موضوع پربڑے زور شورسے ذکر سننے میں آ رہا ہیں مختلف سیاستدان نے اپنے اپنے انداز میں اس پر اظہار خیال کیا۔یہاں تک کے بعض سیاست دانو اں نے صرف اپنی سیاست چمکانے کے لئے بغیر سوچے سمجھے مرزائیوں کو مسلمانوں کے بھائی قرار دے دیا میرے خیال میں ان کی ہمارے میڈیا اور دینی جماعتوں نے خوب خاطر تواضع کر دی ہے اورابھی ہو بھی رہی ہے۔ اب مجھے اس پرزیادہ بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے ہاں البتہ اس کی بھر پور مذمت ضرور کروں گا ۔یہ ہم مسلمانوں کے مذہب اسلام اور ہمارے نبی ﷺ کی نبوت اور شان رسالت کا مسئلہ ہم اس کی کسی صورت میں توہین برداشت نہیں کریں گے اور کسی سچے مسلمان کو یہ برداشت بھی نہیں ہو گاکہ کوئی ہمارے نبی پاکﷺ کے شان اقدس میں گستاخی کرنے کی جر ت ہو ۔ یہاں پر مجھے اک تحریر یاد آ رہی ہے جس کا کچھ لب لباب کچھ اس طرح سے ہے کہ کسی مغربی ملک میں کو ئی آدمی ہوٹل پر کھانہ کھانے کے لئے بیٹھا ہوا تھا کہ اس کی میز پر اک اور آدمی بھی آکر بیٹھ گیا گفت وشنید میں اک آدمی نے دوسرے آدمی سے پوچھا کہ آپ کیا کرتے ہیں تو دوسرے آدمی نے بتایا کہ وہ اسلام اور مسلمانوں پر پی ایچ ڈی کر رہا ہے اور اسی ریسرچ کے سلسلہ میں وہ اس علاقہ میں آیا ہوا ہے۔اس سوال پر کہ ا س نے اپنی ریسرچ میں کیا نتیجہ اخذکیا ہے تو اس نے کہا کہ میری پوری ریسرچ کا یہ نتیجہ ہے کہ کسی مسلمان کو آپ برا بھلا کہے تو برداشت کر جائے گا اس کی ماں بہن بیٹی یا کسی کو بھی برا بھلا کہے تو ممکن ہے برداشت کر جائے لیکن جب اس کے نبیﷺ کی شان میں ذرا بھر بھی گستاخی کر دی جائے تو کوئی مسلمان اس گستاخی کو کسی صورت برداشت نہیں کرے گا اور وہ اپنے نبی کی خا طر جان لینے اور جان دینے کے لئے تیار ہو جائے گا۔شائد بعض لوگوں کی نظر میں یہ اک معمولی مثال ہو لیکن حقیقت میں اس سچے مسلمان کی تعریف اس سے بڑھ کر نہیں ہو سکتی۔جی قارئین اب میں اپنے موضوع پہ آتا ہوں کہ اور قا دیا نیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے کچھ اسباب بیان کرتا ہوں ۔ کہ آئین پاکستان میں قادیانیوں کو کس طرح غیر مسلم قرار دیا گیا۔7ستمبر 1973 کو اس وقت کی پارلیمنٹ جس کے وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو تھے نے متفقہ طور پر قا دیانیوں کے دونوں فرقوں یعنی ربوہ اور لاہوری قادیانی دونوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔اس کے کچھ اسباب اس طرح ہیں کہ 29 مئی 1974 کو نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلباء سیرو تفریح کی غرض سے پشاور جا رہے تھے جب ان کی ریل ربوہ کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچی تو قایانیوں نے ان طلباء میں اپنے لٹریچر تقسیم کرنے شروع کر دیے جس میں مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی لکھا گیا اور اس کو نبی ماننے کی دعوت دینے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے خلاف بہت کچھ لکھا گیا تھا۔یہ ان کا اک طریقہ کار تھا جس سے وہ یہاں سے گزنے والی ٹرین میں اپنے پمفلٹ تقسیم کر کے لوگوں کہ مرزائیت کی دعوت دیتے تھے لیکن اس دن ان کی خلاف توقع ردعمل آیا کہ ان طلباء نے ان کے یہ پمفلٹ لینے سے انکار کرتے ہوئے اپنے بنیﷺ کی شان اقدس کا بھر پور دفاع بھی کیا۔ریل تو چلی گئی لیکن قا دیانیوں نے اس کو اپنی توہین اور بے عزتی محسوس کیا اور اس بات کا تہیہ کیا کہ ان طلباء سے اپنی ہونے والی تذلیل کا بدلہ لیا جائے گا۔چنانچہ انہوں نے جب یہ طلباء پشاور سے واپس آ رہے تھے تو ان کی ٹرین کو ربوہ کے ریلوے اسٹیشن پر جس کاموجودہ نام چناب نگر ہے پر زبردستی ریل کو روک لیا ۔پشاور سے واپسی پر اس ٹریں کا ربوہ میں سٹاپ نہیں ہوتا تھا انہوں اسے زبردستی روکا اور ان طلباء پر شدید تشدد کیا جس سے یہ طلباء بری طرح زخمی ہوئے۔یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی اور ہر مکتبہ فکر کے لوگ سڑکوں پر آگئے۔پورے ملک میں کہرام مچ گیا ۔تمام دینی اور سیاسی قیادت اکھٹی ہو گئی اور پورے ملک میں قادیانیوں کے خلاف تحریک شروع ہو گئی۔اسی کے ساتھ ہی اسمبلی میں دینی جماعتوں نے قادیانیوں کے خلاف قرار داد پیش کر دی۔کسی بھی جمہوری ملک میں جب اسمبلی میں قرار داد پیش کی جاتی ہے یا کوئی بل آتا ہے تو اسمبلی ممبران کی رائے کے بعد اکثریت کی بنیاد پر اسے پاس کر کے قانون کا حصہ بنا دیا جاتا ہے لیکن یہ دنیا کی واحد قرارداد تھی جس پر اکثریت رائے سے پہلے دوسرے فریق کو یعنی قا دیانیوں کو اسمبلی میں بلا یا گیا کہ وہ اسمبلی ممبران کے سامنے اپنے عقا ئد و عزائم کی وضا حت کریں کیونکہ یہ ایک بہت احساس نوعیت کا معاملہ تھا اس لئے قا دیانیوں کواپنے دفاع کا بھر پور موقع دیا گیا قا دیانی قیادت اپنے اس وقت کے خلیفہ سو ئم مرزا ناصر کی قیادت میں بھر پور وفد کی صورت میں قو می اسمبلی میں آیا ۔اور اس وفد کے ساتھ13دن قومی اسمبلی میں جرح ہوئی ۔اس جرح کے دوران کسی اسمبلی ممبر کو یہ اجازت نہیں تھی کہ وہ براہ راست مرزا ناصر یا قا دیانی قیا دت سے کوئی ایسا سوال کرے اور جس سے کوئی بد مزگی پیدا ہو۔قا یانی قیادت سے اگر کسی اسمبلی ممبر نے کوئی سوال کرنا ہوتا تو وہ اپنا سوا ل ایک چٹ پر لکھ کر اٹا رنی جنرل یحیی بختیار کو دیتا اور اٹا نی جنرل ان سے یہ سوال کرتے۔اس پوری کاروائی میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی موجوداہے اور پوری کاروائی دیکھی اور سنی۔13دن کی جرع کے بعد تمام قیادت اس نتیجہ پر پہنچی کہ قا دیانی اپنے کفریہ عقا ئد کے بنا پر غیر مسلم اقلیت ہیں۔ان کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور 7ستمبر 1974کو ملک پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے آئین پاکستان میں دفعہ 106اور260کے تحت قا یانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا اور با قا ئدہ طور پر اس کا آئین میں اندراج کر دیا اب قادیانی قیادت کہتی ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت ان کو غیر مسلم قرار نہیں دے سکتی اور اس کی نہ کسی ادارے کو اجازت ہے اور نہ کسی شخص کو اجازت ہے کہ ہمیں غیر مسلم اقلیت قرار دے۔یہی بات اس وقت قادیانیوں نے اٹارنی جنرل یحیی بختیار کو بھی کہی تھی تو اس وقت یحیی بختیار نے کہا تھا کہ آپ کو کس نے اجازت دی ہے کہ آپ کروڑوں مسلمانوں کو مرزا غلام احمد قایانی کو نبی نہ ماننے پر کافر اور جہنمی کہیں؟جس پر مرزا ناصر احمد نے کہا کہ ہماری کتابوں میں تو ایسی بات کہیں نہیں لکھی ہے اس پر اٹارنی جنرل یحیی بختیار نے پوری قومی اسمبلی کے سامنے قادیانیوں کی کتاب تذکرہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کتاب میں مرزا غلام احمد نے لکھا کہ جو شخص مجھے نبی نہیں مانتا وہ کافر ہے جہنمی ہے اور لعنتی ہے۔اس کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر احمد کی کتاب کلمہ تل فسل کی عبارت پڑھ کر سنا ئی جس میں بیٹا اپنے باپ مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوے کی تشریح کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جو شخص مرزا غلام احمد قادیانی کو نہیں مانتا وہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔اس کے علاوہ اٹا رنی جنرل صاحب نے مرزا غلام احمد قادیانی کی کتاب آئینہ کمالات اسلام کی جلد نمبر 5کے صفحہ نمبر 547اور548کا حوالہ پڑھ کر سنایا جس میں لکھا تھا کہ جو مرزا غلام احمد قایانی کو نبی نہیں مانتا اس کی ماں کنجری ہے یہ بات سن کر پوری اسمبلی میں سناٹا چھا گیا اور سب ممبراں اسمبلی حیران اور پریشان ہو گئے اس کے بعد آٹا رنی جنرل نے مرزا ناصر ملک سے پوچھا کہ آپ مرزا غلام احمد قادیانی کو کیا مانتے ہیں اس انہوں نے کہا کہ ایک مہدی یا مسیح مانتے ہیں اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ جھوٹ بولتے ہیں مرزا غلام احمد قا دیانی کی جو کتا بیں ہیں اب میں مرزا غلام احمد نے کہا ہے کہ نعوذبااﷲ میں محمد رسول اﷲ ہوں جو اشاعت اسلام کے لئے دوبارہ دنیا میں بھیجا گیا ہوں اور قادیانیوں کا عقیدہ ہے کہ دنیا میں دو محمد آئے ہیں ایک محمدﷺ مدینہ والے اور دوسرے محمد نعوذبااﷲ قادیان والے۔اس لئے قایانی مرزا غلام احمد قادیانی کو محمد رسول اﷲ مانتے ہیں اس پر اٹا رنی جنرل نے مرازئیوں کی کتا بوں حقیقت وحی،ایک غلطی کا ازالہ اور دیگر کتابوں کا حوالہ دیا۔ اس بعد اٹا رنی جنرل نے مرزا غلام احمد قادیانی کے بیٹے کی کتاب کلمہ تل فسل پیش کی جس وہ قادیانیوں کے عقیدہ کے بارے میں لکھتا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نعوذبااﷲ محمد رسول اﷲ ہیں جو اشاعت اسلام کے لئے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے ہیں اور ہم جب کلمہ پڑھتے ہیں تو اس میں محمد سے مراد غلام احمد قادیانی ہی ہے لہذا س 13دن کی بحث کے بعد پوری اسمبلی اس نتیجہ پر پہنچی کہ یہ عقا ئد کسی مسلمان کے نہیں ہوسکتے اور قادیانیوں کے کفریہ عقائد کی وجہ سے ان کے غیر مسلم اقلیت ہونے میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے ۔اس بعد آئین پاکستان میں متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا۔۔۔ 

Bakhat Bedar Gilani
About the Author: Bakhat Bedar Gilani Read More Articles by Bakhat Bedar Gilani: 6 Articles with 4820 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.