امریکہ میں گزشتہ سال عہدۂ صدارت کے انتخابات ہونے سے قبل
ہی دنیا کی مختلف امن پسند تنظیموں و اداروں اور متعدد سیاسی شخصیات نے
ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے پر دنیا میں امن وسلامتی کے لیے خطرہ کا
اظہار کیا تھا۔ چنانچہ خود امریکہ میں ٹرمپ کی جیت پر جو مخالف مظاہرے اور
احتجاجات ہوئے وہ اس سے قبل وہاں دیکھنے میں نہیں آئے۔ نیز ۲۰۱۷ء میں
امریکہ میں جو دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے وہ اس کی واضح علامت ہیں۔ ۲۰
جنوری ۲۰۱۷ء کو ٹرمپ نے امریکہ کے عہدۂ صدارت کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد
سے اب تک متعدد ایسے فیصلے کیے ہیں جن کی وجہ سے امریکہ کے علاوہ دیگر
ممالک میں بھی وہ تنقید کا نشانہ بنے ہیں۔ ٹرمپ کے بعض فیصلوں پر خود
امریکی عدالتوں نے بھی پابندی لگائی جن پر ٹرمپ کو بہت ذلت کا سامنا بھی
کرنا پڑا۔
اپنی شدت پسندی اور مسلم مخالف پالیسی کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے تمام عالمی
قوانین، قراردادیں اور بین الاقوامی برادری کے متفقہ فیصلوں کی دھجیاں
اڑاکر ٹرمپ نے ۶ دسمبر ۲۰۱۷ء کو یہ اعلان کرڈالا کہ اب وہ امریکی سفارت
خانہ کو اسرائیل کے شہر تل ابیب سے ہٹاکر فلسطینی دارالخلافہ ’’القدس‘‘
منتقل کردے گا، جس کو بیت المقدس بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ
آج سے سو سال قبل دسمبر ۱۹۱۷ء میں برطانوی حکومت نے اپنی ظالمانہ وغاصبانہ
پالیسی کے تحت عثمانی حکومت سے کم وبیش ایک ماہ کی جنگ کے بعد اس مقدس
سرزمین کو مسلمانوں سے چھین لیا تھا۔ غرضیکہ ٹرمپ کے اعلان کے مطابق اب
اسرائیل کا دارالحکومت تل ابیب نہیں بلکہ وہ بیت المقدس شہر ہوگا جو آج بھی
عالمی پیمانہ پر فلسطین کا ایک شہر ہے، جس پر اسرائیل کا کوئی حق نہیں ہے
کیونکہ اُس نے ۱۹۶۷ء سے اُس پر ناجائز قبضہ کررکھا ہے۔ اسرائیل نے اپنی ہٹ
دھرمی کا ثبوت دے کر ۱۹۸۰ء میں بیت المقدس شہر کو اسرائیل کا دارالحکومت
بنانے کا اعلان کرکے تمام سرکاری دفاتر من جملہ پارلیمنٹ ہاؤس، سپریم کورٹ
اور وزیر اعظم وصدرِ ملک کے گھر بیت المقدس شہر میں منتقل کردئے ہیں، لیکن
اسرائیل کے اس ظالمانہ فیصلہ کے ۳۷ سال گزرنے کے باوجود دنیا کے کسی بھی
ملک نے آج تک بیت المقدس شہر کو اسرائیلی حکومت کا دارالحکومت تسلیم نہیں
کیا ہے۔ اسی وجہ سے کسی بھی ملک کا اسرائیل کے لیے سفارت خانہ بیت المقدس
شہر میں نہیں ہے۔ بلکہ تمام سفارت خانے تل ابیب شہر میں ہی قائم ہیں۔
امریکہ کے یروشلم ایمبیسی ایکٹ ۱۹۹۵ء کے تحت ۳۱ مئی ۱۹۹۹ء سے قبل اسرائیل
میں امریکی سفارت خانہ کو القدس شہر منتقل ہونا تھا لیکن ۲۲ سال گزرنے کے
باوجود اس پر آج تک عمل درآمد نہیں ہوسکا اور ہر چھ ماہ کے لیے اس کو مؤخر
کردیا جاتاہے۔ یکم جون ۲۰۱۷ء کو ٹرمپ بھی اس کو ایک بار مؤخر کرچکے ہیں،
یکم دسمبر ۲۰۱۷ء کو دوسری مرتبہ چھ ماہ کے لیے مؤخر کرنے کے بجائے اسرائیل
کے دباؤ میں آکر ٹرمپ نے بالآخر ۶ دسمبر ۲۰۱۷ء کو یہ اعلان کرڈالا کہ وہ
القدس شہر میں اپنا سفارت خانہ منتقل کرے گا ۔ ٹرمپ کے اس فیصلہ سے دنیا
میں ہلچل مچ گئی ہے۔ عرب ممالک سمیت مسلم رہنماؤں اور بین الاقوامی برادری
نے ٹرمپ کے اس فیصلہ کی مذمت کی ہے کیونکہ ٹرمپ کے اس فیصلہ سے حالات خراب
ہوں گے، خونریزی اور قتل وغارت گری میں اضافہ ہی ہوگا اور اس مذموم فیصلہ
کی وجہ سے دنیا ایک ایسی جنگ کی طرف جاسکتی ہے، جس سے دنیا میں تباہی کے
سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ اس لیے امن پسند لوگوں کو چاہئے کہ ٹرمپ کے اس
فیصلہ کی ڈٹ کر مخالفت کریں۔ چنانچہ اقوام متحدہ نے بھی ٹرمپ کے اِس فیصلہ
کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ مسلم حکمرانوں کو بھی چاہئے کہ اس موقع
پر آپسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک آواز سے بین الاقوامی اداروں اور
علاقائی تنظیموں کے ذریعہ امریکہ پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اپنے مذموم فیصلہ کو
پہلی فرصت میں واپس لے۔ نیز اس موقع پر مسلمانوں سے درخواست ہے کہ قبلہ
اوّل کی یہودیوں کے چنگل سے مکمل آزادی کے لیے اﷲ تعالیٰ سے خصوصی دعائیں
کریں کیونکہ مسجد اقصیٰ میں یقینا پنج وقتہ نماز ادا کی جاتی ہے لیکن جس
شہر میں مسجد اقصیٰ واقع ہے ، یعنی بیت المقدس اُس کا مکمل نظم ونسق
اسرائیلی حکومت کے پاس ہے۔ اور اس مقدس شہر میں مسلمانوں کی آبادی کو کم
کرنے اور یہودیوں کی آبادی کو بڑھانے پر مکمل پلاننگ کے تحت کام کیا جارہا
ہے۔ آئیے اس موقع پر اس مقدس سرزمین کے متعلق تاریخی حقائق سے آگاہی حاصل
کریں۔
فلسطین دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ایک ہے جس کی حدود اِس وقت اردن،
سوریا، لبنان اور مصر سے ملتی ہیں۔ یہ در اصل پورا علاقہ( سوریا، لبنان،
فلسطین اور اردن) تاریخی کتابوں میں ملک شام سے موسوم ہے۔ فلسطین کا سب سے
مشہور شہر القدس ہے، جسے بیت المقدس بھی کہتے ہیں اور اسرائیل اسے یروشلم
(Jerusalem) کہتا ہے۔ مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں تینوں بڑے آسمانی
مذہبوں کے لیے یہ مقدس شہر ہے۔ اسی مبارک شہر ’’القدس‘‘ میں قبلہ اوّل واقع
ہے جس کی طرف نبی اکرم ﷺاور صحابۂ کرام نے تقریباً ۱۶ یا ۱۸ ماہ نمازیں ادا
فرمائی ہیں۔ اس قبلۂ اول کا قیام مسجد حرام (مکہ مکرمہ) کے چالیس سال بعد
ہوا۔ مسجد حرام اور مسجد نبوی کے بعد سب سے بابرکت وفضیلت کی جگہ مسجد اقصیٰ
ہے، جس کی زیارت کے لیے نبی اکرم ﷺ نے مسلمانوں کی تعلیم دی ہے۔ اسی سرزمین
میں واقع مسجد اقصیٰ کی طرف ایک رات آپ ﷺکو مکہ مکرمہ سے لے جایا گیا
اوروہاں آپﷺنے تمام انبیاء کی امامت فرماکر نماز پڑھائی، پھر بعد میں اسی
سرزمین سے آپ ﷺکو آسمانوں کے اوپر لے جایا گیا جہاں آپ ﷺکی اﷲ تعالیٰ کے
دربار میں حاضری ہوئی۔ اس سفر میں آپ ﷺ نے جنت وجہنم کے مختلف مناظر دیکھے
اور سات آسمانوں پر آپ ﷺ کی مختلف انبیاء کرام سے ملاقات ہوئی۔ یہ مکمل
واقعہ رات کے ایک حصہ میں انجام پایا۔ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کے اس سفر
کو اسراء اور مسجد اقصیٰ سے اﷲ تعالیٰ کے دربار میں حاضری کے اس سفر کو
معراج کہا جاتا ہے۔
۱۶ ہجری (۶۳۷ء) میں حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے عہد خلافت میں اس مبارک
شہر (بیت المقدس) کو فتح کرکے وہاں اسلامی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔
خلیفہ عبد الملک کے عہد میں یہاں عالیشان مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخراء کی
تعمیر کی گئی۔ بیت المقدس کی فتحیابی کے ۴۶۲سال بعد ۱۰۹۹ء میں پہلی صلیبی
جنگ کے موقع پر عیسائیوں نے اس شہر پر قبضہ کرکے ۷۰ ہزار مسلمانوں کو شہید
کردیا تھا، مگر صرف ۸۸ سال بعد ۱۱۸۷ء میں حضرت صلاح الدین ایوبی رحمۃ اﷲ
علیہ نے القدس شہر کو عیسائیوں کے قبضہ سے چھڑایا۔ ۱۲۲۸ء سے ۱۲۴۴ء تک بھی
اس شہر کو مسلمانوں سے چھین لیا گیا تھا۔ غرضیکہ یہ مبارک شہر (بیت المقدس)
صرف سو سال کے علاوہ ۶۳۷ء سے ۱۹۱۷ء تک مسلمانوں کے ہی قبضہ میں رہا ہے۔ اور
اس شہر میں رہنے والوں کی بڑی تعداد مذہب اسلام کو ہی ماننے والی رہی ہے۔
لیکن پہلی جنگ عظیم کے بعد خلافت عثمانیہ کے زوال کے ساتھ ہی ۱۹۱۷ء میں اس
شہر اور فلسطین کے دوسرے علاقوں پر برطانیہ نے قبضہ کرلیا تھا اورپھر آہستہ
آہستہ دنیا کے کونے کونے سے یہودیوں کو آباد کرکے مسلمانوں کی اس سرزمین (فلسطین)
پر ۱۹۴۸ء میں ایک ایسے ناجائز ملک کے قیام کا اعلان کردیا جو آج تک پورے
خطہ کے امن وسکون کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے۔ خلافت عثمانیہ کے آخری باختیار
خلیفہ عبدالحمید ثانی پر جب مغربی طاقتوں نے فلسطین کو یہودیوں کو دینے یا
وہاں یہودیوں کو آباد کرنے کے تعلق سے دباؤ ڈالا تو اُن کا جواب تاریخ کا
حصہ بن گیا: میں سرزمین فلسطین کا ایک انچ بھی یہودیوں کو نہیں دوں گا
کیونکہ فلسطین میرا نہیں بلکہ امت کا ہے اور امت نے اس سرزمین کی حفاظت کے
لیے اپنا خون بہایا ہے۔ ۱۹۴۸ء سے ۱۹۶۷ء تک القدس شہر مسلمانوں کے ملک ’’اردن‘‘
کا ہی ایک حصہ رہا۔ ۱۹۶۷ء میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد مغربی ممالک کی
بھرپور مدد سے فلسطین کے دیگر علاقوں کے ساتھ القدس شہر پر بھی اسرائیل نے
قبضہ کرلیا۔ اس طرح ۱۹۶۷ء میں وہ مقدس شہر بھی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا،
جہاں مسجد اقصیٰ واقع ہے جو مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہے۔
شہر القدس (یروشلم) سے جہاں مسلمانوں کا خصوصی تعلق ہے، وہیں یہودیوں اور
عیسائیوں کے لیے بھی یہ مقدس سرزمین ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان
کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام نے عراق سے بیت المقدس کی طرف ہجرت فرمائی
تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹوں میں سے ایک بیٹے حضرت اسحاق
علیہ السلام اور ان کے بعد آنے والے تمام انبیاء کرام (حضرت یعقوب، حضرت
سلیمان ، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام وغیرہ) کا تعلق اسی
سرزمین سے ہے۔ عیسائیوں کا خیال ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے
پیدائش بھی یہی شہر ہے۔ یہودیوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت سلیمان علیہ السلام
کی تیار کردہ عبادت گاہ (ہیکل سلیمانی) کا تعلق بھی اسی سرزمین سے ہے۔ سرور
کائنات وآخری نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے
بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے ہیں جو مکہ مکرمہ میں مقیم تھے۔
حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے عہد خلافت میں اس شہر پر مسلمانوں کے فتح
یابی سے قبل تک متعدد جنگیں اس سرزمین پر یہودیوں اور عیسائیوں کے درمیان
ہوئی ہیں جن میں ہزاروں افراد کا قتل عام ہوا ہے۔
اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ فلسطینی علاقے خاص کر بیت المقدس پر جو اسرائیل نے
ناجائز قبضہ کررکھا ہے، اﷲ تعالیٰ اس کی آزادی کا فیصلہ فرمائے۔ آمین۔ |