اب صرف

ایک سچا واقعہ

یہ مئی ٢٠١٧ کی بات ہے۔ رات گیارہ بجے یوں محسوس ہوا جیسے میرا سانس بند ہو رہا ہو۔ میں جلدی سے اٹھ کر صحن میں آ گیا لیکن بجائے سانس کا سلسلہ اپنے روٹین پر آتا‘ حالت مزید بگڑتی گئی۔ مجھےیوں لگا جیسے میری جان نکل رہی ہو۔ رضیہ‘ یعنی میری بیوی جو چلنے پھرنے سے معذور سی ہے۔ بڑی پریشانی میں آ گئی۔ وہ باوجود اپنی سی کوشش کے مجھے سمبھال نہیں پا رہی تھی۔ ہم دونوں کے سوا تقریبا گھر میں کوئی نہ تھا۔ پھر پتا نہیں اس میں اتنی شکتی کہاں سے آ گئی۔ ہمسایہ کے گھر چلی گئی۔ ہم سایہ میری سلام دعا میں تھا۔ اس کے دونوں لڑکے آگئے اور مجھے ایک پرائیویٹ ہسپتال لے گئے۔ وہ جانتے تھے کہ سرکاری ہسپتال میں لے جانا کسی طرح خطرے سے خالی نہیں۔ وہاں ڈاکٹر اور عملہ محض چلتا پھرتا لاشہ ہیں۔ رستہ میں میں بےسدھ ہو گیا۔

موٹر سائیکل پر لے جانا بلاشبہ ناممکنات میں تھا لیکن وہ مجھے کسی ناکسی طرح لے ہی گئے۔ ایمرجنسی میں لے جایا گیا۔ پوری توجہ دی گئی۔ مکمل چیک اپ کیا گیا۔ انہوں نے مجھے مردہ قرار دے دیا۔ انتیس منٹ کے بعد ایک لمبا سانس آیا۔ مجھے اسٹیچر پر لٹا کر برآمدے میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ جب انہیں بتایا گیا کہ لمبا سانس آیا ہے تو دوبارہ سے وارڈ میں لا کر بیڈ پر لٹا دیا گیا اور ڈاکٹری عمل شروع کر دیا گیا۔ سانس اور نبض کی بحالی ہوئی تو فورا سے پہلے لاہور لے جانے کے لیے کہہ دیا گیا۔ اللہ کے احسان سے ٹھیک ہو گیا۔ اس عمل نے مجھے تین تجربوں سے گزرا:
١- جان نکلنا کتنا مشکل ہے اور یہ عمل انسان پر کتنا دشوار گزار ہوتا ہے۔
٢- مرنے کے بعد بھی ایک جہان ہے جو کہانی نہیں حقیقت ہے۔
٣- موت سے پہلے مجھے ڈاکٹر صاحب پروفیسر صاحب کہہ کر پکارا جا رہا تھا۔ موت کے یقین پر کہا گیا ڈیڈ باڈی لے جاؤ‘ لاش لے جاؤ۔

اتنی بےمکھی و بےرخی۔ عزت زندگی تک تھی۔ کچھ تو موت کے بعد بھی پروٹوکول دیا ہوتا۔ محترمہ دیڈباڈی یا لاش صاحبہ لے جاؤ۔ کیا یہ سب سانسوں تک تھا۔ مجھے اپنی حیثیت اور کرتوت کا اندازہ ہو گیا۔ سب سانسوں تک ہے اس کے بعد کچھ نہیں۔

ان گنت آئے اور چلے گئے‘ کوئی ان کے متعلق جانتا تک نہیں۔ لوگ تو منہ پھیریں گے ہی اپنے بھی جلدیوں میں ہوتے ہیں۔ کسی کے پاس اتنا وقت کہاں کہ نہیں اور مفقود کے لیے اپنا وقت برباد کرتا پھرے۔ یہ دنیا ہے یہ اپنے ہیں جو شخص سے زیادہ چھنیوں اور کولیوں کو محترم رکھتے ہیں۔ اسی روز میں نے چیزوں کو طلاق دے دی۔ میں نے جو تھوڑا بہت موجود ہے ان لوگوں کے نام کر دیا ہے۔ یہ جانیں اور چیزیں جانیں۔
اب صرف اس امر کی فکر دامن گیر ہے کہ اللہ کے احسانات کا کن الفاظ اور کیسے شکریہ ادا کروں۔ دوسرا اپنے دانستہ اور ناداستہ گناہوں کی معافی کس طرح مانگوں۔ اللہ مجھے ہر دو کا سلیقہ سجھا دے۔ آپ سب میرے لیے دعا کریں۔

مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 184 Articles with 211008 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.