لاؤڈ سپیکر

کمرشلائزیشن نے میڈیا کی روح کو مفلوج کررکھا ہے۔وہ رعب اور دبدبہ جو ابھی کل تک میڈیا کو ایک ڈراو ہ بنائے ہوا تھا۔کمرشلائزیشن اسے نگل گئی۔چار پیسے زیادہ کمانے کے چکر میں میڈیا ہاؤسز اپنی ساکھ گنوانے پر تل گئے۔قوم کو سچ او رحقائق دکھانے کی جو ذمہ داری عاید تھی۔ اس لیے نظر انداز کی جارہی ہے کہ میڈیا ہاؤصزکی صرف اور صرف وسعت سب سے بڑی ترجیح قرار پاچکی ہے۔ وہ کسی بھی طریقے سے ذرائع آمدن بڑھانے پر آمادہ ہیں۔میڈیا کے ٹیلنٹ کو منفی طو رپر استعما ل کا رجحان بڑھ رہا ہے۔حقائق کو کسی خاص انداز میں پیش کرنے کی تیکنیک سے فائدہ اٹھایا جارہا ہے۔اناڑیوں کو کھلاڑی بنا نے کی معقول قیمت مل رہی ہے۔کچھ لوگوں کے عیب چھپاکر ان سے مال بٹورہ جارہا ہے۔ عیبی لوگوں کے مسیحا بنا کرپیش کرنے کی معقول فیس لی جارہی ہے۔میڈیا کا جو خوف مجرم اور بدکاران پر طاری تھا۔کچھ میڈیا ہاؤس اپنی وسعت پسندی سے اسے زائل کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ہ لوگ میڈیا کو بجائے کسی ڈراوے کے کسی سہولت کار کے طور پر لے رہے ہیں۔میڈیا ان کے سر پر تنی تلوار نہیں بلکہ جادو کاوہ چراغ بنا ہوا ہے۔جو من چاہی چیزیں فراہم کررہاہے۔

حدیبیہ کیس شریف فیملی کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث بنتا نظر آرہا ہے۔سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کی جانب سے نیب کو جو سخت ریمارکس دیے جارہے ہیں۔اس کے سبب شریف فیملی کو اپنے خلاف انتقامی کاروائی ہونے کا ڈھنڈورہ پیٹنا آسان ہورہاہے۔جس شد ومد سے شیخ رشید صاحب حدیبیہ کیس میں پوری کی پوری شریف فیملی کو رگڑا لگنے کی بات کررہے تھے۔ایسا کچھ ہوتانطرنہیں آرہا۔جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس فائز عیسیٰ او رجسٹس مظہر عالم میاں خلیل پر مشتمل فل بنچ نے نیب سے کہا ہے کہ بتایا جائے کہ2000میں ملزمان کے خلا ف ریفرنس دائر ہوا تھا تو تب نیب کے پاس کیا ثبوت تھے۔اور جے آئی ٹی کی انکوئری کے بعد کیا ثبوت سامنے آئے۔جسٹس مظہر عالم نے استفسار کیا کہ کیاحدیبیہ کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے پانامہ فیصلے میں ہدایات ملی تھیں۔اور کیا جے آئی ٹی سفارشات پرعدالت نے حدیبیہ کیس سے متعلق کوئی ہدایات دیں۔جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ قانونی طور پر اسحاق ڈار کا بیان عدالت یا نیب چئیرمین کے سامنے لیناچاہیے تھا۔مگر یہ بیا ن مجسٹریٹ کے سامنے لیا گیا۔

سپریم کورٹ میں حدیبیہ کیس کے معاملے پر نیب کو سبکی کا سامناہے۔شریف فیملی کے خلاف شور تو بہت مچا یاگیا تھا۔مگر اب جب کچھ ثابت کرنے کی بات آئی ہے تو مشکلات کا سامناہے۔پانامہ فیصلے میں سپریم کورٹ نے شریف فیملی کے بعض ممبران کے خلا ف چھ ماہ کے اندر اندر چھان بین کرلینے کا حکم سنایا تھا۔چھ ماہ کی یہ مہلت ختم ہونے کے قریب ہے مگر ابھی تک کوئی ایسا اشاہ نہیں مل پایا جو کسی بڑا فیصلہ آنے کی توقع پیدا کردے۔کہنے کو تو نیب نے پچھلے پانچ ماہ سے بڑی دوڑ دھوپ کی ہے۔مگر وائے قسمت کہ چھ ماہ پورے ہونے کو ہیں۔مگر شریف فیملی کے ممبران کی چھان بین کا کام ابھی تک کسی نتیچے پر نہیں پہنچ پایا۔جانے نیب جان بوجھ کر شریف فیملی کے خلاف چھا ن بین کے لیے سست روی اپنا رہا ہے۔جان بوجھ کر چھوٹے موٹے معاملات پر توجہ مبذول رکھی۔یا پھر اسے شریف فیملی کے ممبران کے بارے میں کچھ ایسی کوئی با ت نہیں مل پائی جو اس شور وغوغے کا معقول عذربن پاتی جو شریف فیملی کے خلاف پچھلے کئی مہینوں سے اٹھایا جارہاہے۔

مہینوں سے شریف فیملی کو گاڈ فادر فیملی ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔باوجود اس کے کہ شریف فیملی اس ملک میں بگاڑ کی اکیلی ذمہ دار نہیں جانے کیوں سارے فساد کو شریف فیملی کے سر منڈنے کی کوشش کی جاتی رہی۔میڈیا نے پچھلی ایک دہائی سے جو طاقت پائی ہے۔بد قسمتی سے یہ طاقت کچھ بد نیت اور فسادی لوگوں نے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل میں صرف کی۔وہ گونگے بہرے اور الو باٹے قسم کے لیڈارن جنہیں اپنی ناک کے آگے سے کچھ نظر نہیں آتا۔میڈیا ان کی نظر بن گیا۔ان کی بیساکھی کا کام دیا۔ان کی آواز کو بلند کرنے والا لاؤڈ سپیکر بن گیا۔شریف فیملی کو برائی کی جڑثابت کرنے کے لیے جس طرح میڈیا میں موجود ٹیلنٹ کا استعمال کیا گیا۔وہ تشویش ناک ہے۔میڈیا کی طاقت قوم کی امانت تھی۔بجائے قوم کو حقیقت او رسچ کی پوری تصویر دکھائی جاتی۔مسلسل ادھوری شکل دکھائی جاتی رہی۔عام بندے کو اس حیرت میں ڈال دیاگیا کہ جب مشرف اور زرداری دور میں ہر طرف آگ لگی ہوئی تھی تو تب یہ شور کیوں نہیں اٹھایا گیا۔تب یہ خدائی فوجدار کیوں صبر کیے بیٹھے رہے۔میڈیا کے لاؤ ڈ سپیکر کو اپنی آواز دوردورتک پہنچانے کے لیے کچھ لوگ بڑی کامیابی سے استعمال کرتے رہے ہیں۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 141070 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.