امریکی وزیر دفاع جب جنرل میٹس (Mattis) نے حال ہی
میں پاکستان کا دورہ کیاتو نور خان ائر بیس اسلام آباد پر اپنے مکمل وفد
سمیت اترے تو ان کے استقبال کے لئے پاکستان آرمی کے میجر جنرل باسط رضا،
کمانڈر لاگ ایریا راولپنڈی موجود تھے ،یہ ایک بڑی تبدیلی تھی جو پہلی بار
دیکھنے میں آئی۔اس سے پہلے جب بھی کوئی امریکی وزیر دفاع پاکستان تشریف
لاتے تو ان کو خوش آمدید کہنے کے لئے پاکستانی وزیر دفاع، آرمی کمانڈر یا
کور کمانڈر راولپنڈی موجود ہوتے تھے۔ لیکن جب پاکستان کا وزیردفاع امریکہ
میں جاتا تو وہاں وزارت دفاع کے جونیر آفیسرز ان کا استقبال کیا کرتے
تھے۔اب پاکستان نے ’’جیسا کرو گے ویسا بھرو گے‘‘ کی پالیسی پر عمل کرتے
ہوئے بہت اچھا کیا ہے۔ یہ طرزِ عمل ایک خود مختار اور آزاد ملک ہونے کے
ناتے بین الاقوامی سفارتی آداب کے عین مطابق تھا اور اس کے علاوہ پاکستانی
عوام کی امنگوں کا ترجمان بھی تھا۔پاکستان امریکی تعلقات 70سالوں پر محیط
ہیں اور پاکستان کو سب سے پہلے امریکہ نے ہی ایک آزاد اور خودمختار ریاست
تسلیم کیا تھا ۔ اور شروع وقت سے دونوں ملکوں کے درمیان ہمیشہ تناؤ برقرار
رہا آج بھی کچھ ایسی ہی صورت حال دکھائی دے رہی ہے۔ جب سے امریکی صدر ڈونلڈ
ٹرمپ برسر اقتدار آیاہے اس وقت سے لیکر ابتک مریکی حکام کا جھکاؤ بھارت کی
طرف ہوگیا ہے۔ ٹرمپ کی پالیسیوں سے عالمی امن خطرے میں پڑ گیا ہے۔ امریکی
صدر کا دماغی توازن درست نظر نہیں آرہا اور سابقہ امریکی صدر اوبامہ نے بھی
ٹرمپ کے دماغی چیک اپ کامطالبہ کیا ہے اور ساتھ ہی ٹرمپ کو ہٹلر کا خطاب سے
نوازہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ دور حاضر کے ہٹلر ہیں ۔ اس کی وجہ یہ کہ اس نے بیت
المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے اسلامی ممالک کے ساتھ ساتھ
دوسرے ممالک سے دشمنی موڑ لی ہے ۔جن میں فرانس چائنہ و دیگرممالک شامل
ہیں۔امریکہ کی شروع سے یہی پالیسی رہی ہے کہ جس کے ساتھ اس مطلب ہوتا ہے وہ
اس سے محبت اور دوستی کی پینگ کو پڑوان چڑھاتا ہے اور جب اس کا مطلب نکل
جاتا ہے تو ان ممالک کوپس پشت ڈال کر ذلیل رسوا کرتا ہے اس کی مثالیں ہمارے
سامنے واضع ہے ۔اور اسی سلسلے کی کڑی ہے کہ ایک طرف امریکہ پاکستان سے
ڈومور کا مطالبہ کررہا ہے اور دوسری طرف افغان انٹیلی جنس اور ’’را‘‘دونوں
مل کر پاکستان میں دہشت گردی کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔پاکستان دورے کے
موقع پر امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور آرمی
چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتیں کیں۔امریکی وزیر دفاع نے دہشت گردی
کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں اور
انتہا پسندوں کے خلاف جنگ میں پاکستان اپنی کوششوں کو دْگنا کرے، پاکستان
اور امریکہ مل کر افغان امن عمل میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں،جبکہ شراکت
کی مستقل راہ تلاش کر رہے ہیں۔امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کا یہ پہلا دورہ
پاکستان تھا،اِس سے پہلے گزشتہ ماہ بھی امریکہ کا اعلیٰ سطح کا ایک وفد
دورہ کر چکا ہے، اِن سب دوروں کا بنیادی مقصد تو نئی امریکی پالیسی کے
تناظر میں خطے میں امن و استحکام کے قیام کے مقصد کو آگے بڑھانا ہے یعنی
دوبارہ ڈو موڑ کا مطالبہ کرنا ہے ۔لیکن آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے
امریکی وزیر دفاع کو بہت شاندار جواب دیا ہے کہ پاکستان اپنی استطاعت اور
وسائل سے زیادہ کام کر چکا ہے تو اس صاف اور واضح پیغام کے باوجود اگر
امریکہ ’’کوششوں کو دْگنا‘‘ کرنے کی بات کرے تو یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا
ہے کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان نے جو کوششیں کی ہیں وہ ناکافی ہیں اور
انہیں دْگنا کرنے کی ضرورت ہے، پہلے اِس کے لئے ڈو مور کی اصطلاح استعمال
کی جاتی تھی، اب نئی ترکیب سامنے لائی گئی ہے،لیکن سوال یہ ہے کہ کیا
پاکستان کے لئے ایسا کرنا موجودہ حالات میں ممکن بھی ہے یا نہیں؟وزیراعظم
شاہد خاقان عباسی نے واضح کر دیا ہے کہ مْلک میں دہشت گردوں کے کوئی ٹھکانے
نہیں ہیں، تاہم انٹیلی جنس آپریشنز جاری رہیں گے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر
کسی جگہ کے بارے میں ایسی اطلاع ملے گی کہ وہاں دہشت گردوں کے ٹھکانے موجود
ہیں یا وہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں یا کسی گروہ کی ایسی سرگرمیاں ہو رہی
ہیں جو دہشت گردی کا منصوبہ بنا رہے ہیں یا اِس کی تیاری کر رہے ہیں تو
وہاں آپریشن ہوگا،پاکستان امریکہ سے بھی کئی دفعہ یہ کہہ چکا ہے کہ اگر اس
کے پاس دہشت گردوں کی موجودگی کی کوئی اطلاعات ہوں تو وہ پاکستان کو آگاہ
کرے اس کی بنیاد پر آپریشن کیا جائے گا،لیکن امریکہ نے ایسی کوئی اطلاع تو
نہیں دی۔البتہ امریکہ کی طرف سے مسلسل ڈومور کا مطالبہ کیا جاتا ہے کہ
پاکستان کے اندر اب بھی دہشت گردوں کے خلاف کوششوں کو دوگنا کرنے کی ضرورت
ہے اب اگر پاکستان اپنی استطاعت اور وسائل(بلکہ اس سے بھی زیادہ) کے مطابق
اپنی کوششیں پہلے ہی صرف کر چکا ہے تو مزید کوششیں کس کے خلاف کی جائیں
گی؟دہشت گردی کی جنگ ایک پیچیدہ عمل ہے، خود امریکہ کو بھی افغانستان میں
موجودگی کے باعث اس کا پوری طرح نہ صرف ادراک ہے،بلکہ اس کی فوج افغانستان
میں آئے روز ایسے تجربات سے گزرتی رہتی ہے، تمام تر کوششوں اور اقدامات کے
باوجود دہشت گرد کہیں نہ کہیں واردات کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں،ہائی
سیکیورٹی زون کے اندر بھی گھس کر دہشت گردی کر گزرتے ہیں اِس پر یہ تو نہیں
کہا جا سکتا کہ امریکی اور نیٹو افواج افغانستان میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے
بیٹھی ہیں اور کچھ نہیں کر رہیں،جو بات کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ
اور نیٹو کی کوششوں کے باوجود، دہشت گردوں کے خلاف پوری طرح کامیابی نہیں
ہو پا رہی، ضرورت اِس بات کی ہے کہ امریکہ اور افغان فورسز مل کر نہ صرف
افغانستان میں دہشت گردی پر قابو پائیں،بلکہ اْن کا پاکستان میں داخلہ بھی
روکیں،حالیہ مہینوں میں پاکستان کے اندر جتنی بھی دہشت گردی ہوئی ہے اس کی
تمام تر منصوبہ بندی بھارت کی ایجنسی را ترتیب دے رہی ہے ۔ اب امریکہ
کوپاکستان سے ’’ڈومور‘‘ کا تقاضا کرنے کی بجائے افغانستان میں بھارتی اثر و
رسوخ کو ختم کرنے کے لئے فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔ پاکستان اور افغانستان
میں حالات کی خرابی اور دہشت گردی کا ذمہ دار خود امریکہ اور بھارت ہے۔
امریکی حکومت اگر واقعی جنوبی ایشیا میں امن کا قیام چاہتی ہے تو اسے خطے
میں بھارتی سرپرستی کو ختم کرنا ہوگا۔ افغانستان میں امن کے لئے پاکستان نے
ہمیشہ اپنا مرکزی کردار ادا کیا ہے اور اب بھی حکومت پاکستان افغان مسئلے
کے حل کے لئے اپنی تمام ترکاوشیں کرے گی۔حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے
ہندوستان افغان انٹیلی جنس کے ساتھ مل کر ہمارے ہاں دہشت گردی کروا رہا ہے۔
خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے حالیہ واقعات کے پیچھے بھارت ہی کا ہاتھ
ہے۔پاک افغان سرحد پر واقع چیک پوسٹوں پر بھی حملے ہوتے رہتے ہیں،حفاظتی
نقطہ نظر سے جو باڑ اس وقت زیر تعمیرہے اسے بھی نقصان پہنچایا جاتا ہے،
پاکستان آرمی کے سپوت افغان بارڈ پر آئے روز اپنی جانوں کا نزرانہ پیش
کررہے ہیں پاکستان مسلسل دہشت گردانہ حملوں کی زد میں ہے، گزشتہ روز پشاور
میں زرعی ڈائریکٹوریٹ پر اْن دہشت گردوں نے حملہ کیا جو افغانستان سے آئے
تھے، پاکستان کی تمام تر کوششوں کے باوجود یہ سلسلہ رْکنے میں نہیں آرہا،
اِس صورتِ حال میں امریکہ اگر کوششوں کو دْگنا کرنے کی بات کرتا ہے تو اسے
ستم ظریفی کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے؟وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور آرمی
چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتوں کے بعد امریکی وزیر دفاع اگر معاملات
کو بہتر طریقے سے سمجھنے کے قابل ہو گئے ہیں تو اس میں اطمینان کا پہلو ہو
سکتا ہے،لیکن اگر وہ پاکستان کے دورے کے بعد بھی اپنی پہلے والی رائے پر
قائم رہیں یعنی وہ پھر ڈومور کی اصطلاح استعمال کرنا چاہیں اور اس میں
تبدیلی کی ضرورت محسوس نہ کریں تو یہ بدقسمتی کی بات ہوگی۔ اور خلاصہ
مختصروہ یہ کہ امریکی وزیردفاع پا کستانی سیاسی اور عسکری قیادت کو ’’ڈومور‘‘
پر قائل کرنے آئے تھے مگر انہیں مکمل طور پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑاہے۔ |