اب جزا و سزا کا وقت آ ن پہنچا ہے !

بالآخر کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے اور لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر جسٹس باقر نجفی کی سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے کمیشن رپورٹ منظر عام پر آگئی۔ اس رپورٹ پر بہت سے سوال اٹھ رہے ہیں مگر جواب ندارد ۔۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ریاستی بر بریت اور انسانی حقوق کی پامالی کی بد ترین مثال سانحہ ماڈل ٹاؤن کی شکل میں پوری دنیا نے دیکھی تھی اور یہ صرف ڈاکٹر طاہر القادری کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری قوم اور انسانیت کا مسئلہ ہے۔ معصوم نہتے لوگوں کو بے دردری سے ماراگیاکہ چادر اور چار دیواری کے تقدس کو بھی پامال کر دیا گیا جس سے ثابت ہوا کہ حکومت کے نزدیک انسانی جانوں کی کوئی خاص قیمت نہیں شاید یہی وجہ ہے کہ آج مسلم لیگ ن مکمل طور پر زیرعتاب ہے مگر حکومتی کرداروں کی ضدیں عروج پر ہیں کہ مسئلہ ختم نبوت کے سلسلے میں عاشقان رسول پاک ؐ کی تحریک میں رانا ثنا اﷲ استعفے کا حتمی مطالبہ اور تجدید ایمان پر زور دیا گیا ہے مگر معافی اور استعفٰی کی بجائے بیان داغ دیا گیا ہے: کھودا پہاڑ نکلا چوہا ۔۔18 استعفوں کا کہا گیا تھا تو باقی کہاں ہیں ؟ حکومت کی یہی ہٹ دھرمی ،ڈھٹائی اور نا عاقبت اندیشی نے یہ دن دکھایاہے اور اب کون سمجھائے کہ :
وقت نے لمحہ لمحہ جو دیوار اٹھائی
وہ دیوار گرانے میں کچھ دیر لگے گی

بہرحال عالمی و ملکی منظر نامہ عجیب بے یقینی اور افراتفری کی صورتحال سے دوچار ہے لیکن تمام سیاسی جماعتیں الیکشن مہم میں مصروف ہیں اور سبھی کا حال یہ ہے کہ’’ پارسا بن رہے ہیں وہ ایسے جیسے گنگا نہائے ہوئے ہیں‘‘ پیپلز پارٹی کے یومِ تاسیس کے موقع پر منعقدہ جلسہ عام میں عوام کی کثیر تعداد نے آصف علی زرداری کی جھکی ہوئی کمر کو سیدھا کر دیا اور انھوں نے ’’جگنی ‘‘ پر خوب دھمالیں ڈالیں اور سبھی جماعتوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے با بانگ دہل کہا کہ’’ پیپلز پارٹی آئندہ الیکشن میں کلین سویپ کرے گی ،انھوں نے کہا کہ گارڈ فادر نے ملک کو کنگال کر دیا جبکہ جعلی خان کو عقل نہیں ،نواز شریف کی جمہوریت کو دو بار بچا چکے ،اب یہ غلطی نہیں کریں گے ،ہم اپنی جمہوریت لائیں گے ،حکومت کا مدت پوری کرنا ضروری نہیں ،ہماری یہ کوشش ہوگی کہ یہ عبوری حکومت سے پہلے ہار مان لیں اور چلے جائیں ۔‘‘اگر تو بات کنگال کی ہی کی جائے تو پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ روز اول سے ہی دو پارٹیاں ’’جونک ‘‘کی طرح وطن عزیز کو چمٹی ہوئی ہیں ۔ایک سیر ہے تو دوسری سوا سیر ہے۔ بلکہ کہیں نہ کہیں دونوں اپنی اور ایک دوسرے کی سیاہ کاریوں کی معترف بھی ہیں ۔اب یہ ہی دیکھ لیں کہ آصف زرداری نے کہا : ہم ’’کچھ ‘‘ چھوڑ کر گئے تھے تو انھوں نے عوام کو’ ’کچھ ‘‘دیا ہے ‘‘ ۔اسی اعتراف جرم سمجھیں یا احسان مگر یہ واضح ہے کہ ہمیشہ سے پاکستانی عوام کے حصے میں پورے سے ’’کچھ‘‘ ہی آتا ہے اور ہر نیا آنے والا یہی کہتا ہے کہ’’ کچھ‘‘ بھی نہیں ہے اور اب تو ماشا اﷲ۔۔ یہ ’’کچھ ‘‘ بھی نہیں رہا ۔مبصرین کے مطابق حکومت وقت نے پاکستان کو کنگال کر دیا ہے اور اس سے بڑھ کر ذلت کیا ہوگی کہ وزیر خزانہ اشتہاری قرار پا گئے ہیں اور ملک قرضوں تلے دب چکا ہے ۔

یہ بات پیش نظر رہے کہ آصف علی زرداری کو پاکستان کا کرپٹ ترین انسان کہا گیا ہے اور لکھنے والے لکھ رہے ہیں کہ انھیں نواز شریف کو ’’گاڈ فادر ‘‘ نہیں کہنا چاہیے کیونکہ وہ خود ’’مسٹر ٹین پرسنٹ‘‘ کا خطاب پا چکے ، جیلیں بھی کاٹ چکے اور ٹکٹیں بلیک کر کر کے کھرب پتی بنے ہیں ۔ یہ سب پی پی مخالف لوگ ہیں کیونکہ آصف علی زرداری آزاد منش طبیعت کے حامل تھے اور تعلیمی میلان کم تھا اسی لیے ایسی باتیں ان سے جوڑ دی گئیں لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آصف علی زرداری سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور سیاسی خاندان میں ہی شادی کی تھی جوکہ ایک عالیشان شادی تھی ۔وڈیرہ شاہی زندگی جینے والا یہ انسان اتنا بھی عام نہیں جتنا اسے بیان کیا جاتا ہے بلاشبہ اس نے عوام الناس کے لیے کوئی’’ خاص‘‘ کام نہیں کیا اور سدا الزامات اور کرپشن مقدمات کی زد میں رہے لیکن بڑی بات یہ کہ وہ تما م الزامات سے مل ملا کرہمیشہ با عزت بری ہوئے ۔تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یا تو تمام الزامات بے بنیاد تھے یا ہوم ورک مکمل نہیں تھا یا ہمارے ادارے اور ان میں بیٹھے تمام لوگ غیر فعال ہیں ۔یہی وجہ تھی آصف علی زردار ی پہلے بھی کرپشن کے گرداب سے نتھر کر صدر پاکستان بن گئے اور اب پھر وہ ہما کو اپنے سر پر منڈلاتا محسوس کرنے لگے ہیں ۔ اب تو وقت دکھائے گا کہ مسٹر ٹین پرسنٹ مسٹر ہنڈرڈ پرسینٹ بنتا ہے یا زیرو پرسینٹ بن کرسیاسی بھول بھلیوں میں کھو جاتا ہے ویسے اب عوام جان چکے ہیں کہ تقریباً سبھی سیاسی لیڈر ڈیلر ہیں اورنظریہ ضرورت کے پابند ہیں اور سبھی کا ایک ہی نعرہ ہے ۔مرسوں مرسوں ،کم نہ کرسوں ۔۔۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ زرداری کو’’ بھٹو ‘‘بننے کے شوق نے ڈبویا اور نادانی دیکھیں کہ خود خواہش اقتدار میں اپنے بچوں کے نام کے ساتھ بھٹو کا لاحقہ لگا کر پیپلز پارٹی کو کھڑا کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں اور خان صاحب کو ’’جعلی خان ‘‘ قرار دیا ہے حالانکہ بلاول ’’بھٹو‘‘ جعلی بھٹو ہے جبکہ عمران خان ،نیازی خاندان کا سپوت ہے۔ دوسروں کی پہچان پر انگلی اٹھانے سے پہلے کیا ہی اچھا ہو کہ اپنے گریبان میں جھانک لیا جائے۔۔ آپ کا تو نعرہ ہی یہی ہے کہ بلاول اپنے’’ نانا ‘‘جیسی سیاسست کریں گے ۔کیوں بھئی ۔ باپ جیسی سیاست کیوں نہیں کر ے گا ؟ خان صاحب سے لاکھ اختلافات ہوں مگر آپکو ماننا پڑے گا کہ یہ واحد سیاستدان ہے کہ جس پر جس قدر کیچڑ اچھالا جاتا ہے اسی قدر اس کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے کہ الزام لگانے والا خود ہی بول بول کر خاموش ہوجاتا ہے سوائے گلا لئی کے جسے ان کے مقابل الیکشن لڑوانے کے لیے تیار کیا جارہا ہے ۔یہ پہیلی بھی جلد سلجھ جائے گی بس تماشا ختم ہونے کی دیر ہے ۔

ویسے جمہوریت بچانے کا دعوی زرداری صاحب نے پھر کردیا ہے اور دھمکی بھی دے دی کہ ہم نے ہمیشہ میاں نواز شریف کو بچایا اور جمہوریت بچائی مگر اب نہیں بچائیں گے حالانکہ ریکارڈ پر ہے کہ اس نام نہاد جمہوریت کو بچانے میں صرف زرداری ریاکاری اور مفاد پرستی ہی شامل حال نہیں رہی بلکہ دیگر تمام جماعتوں نے بھی سر دھڑ ، ایمان ، قول و افعال الغرض ہر قسم کی بازی لگادی ہے جسے سیاسی تاریخ کے قرطاس پر سیاہ سیاہی سے لکھا جائے گا ۔ہمیں تو حیرت ہے کہ آ ج’’ جمہوریت بچاؤ‘‘ کا نعرہ لگانے والے عمران خان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ’’پاکستان بچاؤ‘‘ کا نعرہ لیکر میدان میں اتر چکے ہیں حالانکہ مسلم لیگ ن بابانگ دہل دھمکا رہی ہے کہ اگر ہمارااحتساب نہ روکا گیا اور میاں نواز شریف کو بحال نہ کیا گیا تو ’’پاکستا ن نہ کھپے‘‘ ۔ایسے میں تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھی ہیں اور یہ سیاسی اتحاد مسلم لیگ ن کو کہاں لے جائیگا یہ کہنا مشکل ہے مگر حکومتی کردار مسلسل سوالیہ نشان ہے کہ مسلم لیگ ن کے خوشامدی اس سیاسی اتحاد کو فصلی بٹیروں کی ملاقات کہہ کر قہقے لگا رہے ہیں بادی النظر سے دیکھا جائے تو حکومت حالات کی نزاکت کا ادراک کرنے سے قاصر ہے اسے سب گنوا کر سمجھ آتا ہے کہ سمیٹنے کے لیے سنگ بھی نہیں بچے جبکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن اور ختم نبوت کا مسئلہ حکومتی جماعت کو اس مقام پر لے آیا ہے جہاں سے واپسی نا ممکن ہے ۔بلکہ اب جزا و سزا کا وقت آن پہنچا ہے ۔

ماڈل ٹاؤن قتل کیس کے حوالے سے سامنے آنے والی رپورٹ سے مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ پنجاب حکومت کی بھی نیندیں اڑ گئیں ہیں اور ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کے بعد’’ میں نے ایسا نہیں کیا‘‘ کا راگ بجنے لگا ہے مگراس رپورٹ میں براہ راست کسی پر ذمہ داری نہیں ڈالی گئی بلکہ اس سانحہ سے وابسطہ تمام لوگوں کو قصور وار قرار دے دیا گیا ہے دو سال گزرنے کے بعد بھی یہ بنیادی نکتہ سامنے نہیں آیا کہ بے گناہ انسانوں کے بہیمانہ قتل کا حکم کس نے دیا تھا ۔۔؟یہ خون کی ہولی کس نے اور کس کی ایما ء پر کھیلی گئی تھی البتہ رپورٹ میں یہ واضح ہے کہ پولیس نے وہی کیا ،جس کے لیے اسے بھیجا گیا تھا مگر پولیس یہ بتانے کو تیار نہیں کہ اسے کس نے بھیجا تھا ۔وزیراعلیٰ پنجاب کیطرف سے پولیس کو کاروائی سے روکنے کا دعوی بھی جھوٹ پر مبنی ہے اور مزید کہا گیا کہ اس واقعے سے کچھ ہی دیر پہلے آئی جی پنجاب اور ڈی سی او لاہور کی تبدیلی بھی شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے اگرچہ اس رپورٹ میں براہ راست کسی فرد کا نام نہیں لیا گیا اور بظاہر پنجاب حکومت معصوم نظر آتی ہے مگر اس رپورٹ کو پڑھنے والا آسانی سے فیصلہ کر سکتا ہے کہ اس سانحہ کا ذمہ دار کون ہے ۔تاہم حکومت کے مطابق رپورٹ نقائص سے بھرپور ہے اور خطرناک اسلحہ کی مدد سے کھلم کھلا پولیس پر حملہ کیا گیا تھا مگر یہ بر بریت براہ راست سب نے دیکھی ہے ،پولیس کا کوئی نقصان نہیں ہوا مگر نہتوں پر سیدھی گولیاں چلائی گئیں اور سبھی جانتے ہیں کہ جسٹس باقر نجفی کمیشن حکومت نے ہی بنایا تھا اور جب رپورٹ ان کے خلاف آئی تو روک دی گئی کہ اس کے اجرا سے فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھنے کا امکان ہے۔ اب بھی اس کے کچھ حصے حذف کر دئیے گئے ہیں اور یہی موقف اختیار کیا گیا ہے کہ انتشار سے بچنے کے لیے ایسا کیا گیا ہے ۔مجرم کوئی بھی مؤقف اختیار کرے مگر جرم نہیں چھپتا ۔۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مقتولین کا لہو بول رہا ہے اور قاتلوں کو تختہ دار کی طرف کھینچ رہا ہے ۔۔یقینا اب کے انصاف ہوگا ۔ڈاکٹر طاہرالقادری کا مزاحمتی کردار اور دیگر سیاسی جماعتوں کا اتحاد ملزمان کو سامنے لا کر رہے گا اور یہی وقت کی پکار ہے ۔

اسلام دشمن عناصر نے ہمیں مقروض کر کے ذہنی مفلوج بنا یا بایں وجہ ہم دشمنوں کی سازشوں سے لاعلم ہو کر مصلحت کے پابند ہوئے اور انھوں نے ہمیں فرقہ وارانہ فسادات میں الجھا کر مزید کمزور دیا اور اب ہمارے خلاف برسر پیکار ہیں ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ارادے اور یہودیوں سے کئے گئے وعدے کو پورا کرتے ہوئے مسلمانوں کے دل پر وار کرتے ہوئے بیت المقدس (قبلہ اول ) کو اسرائیل کا دارلحکومت قرار دے دیا ہے ۔ پوری دنیا میں امت مسلمہ غصے اور درد کی کیفیت میں ہے ۔۔لیکن ۔۔ مسلمان ملکوں کا فوجی اتحاد کہاں ہے ؟ ا امت مسلمہ امت ہے یا ہجوم ؟ دشمنان اسلام کو گلے لگانے والے، ان کے گلے میں سونے کے ہار ڈالنے والے اور تلواروں کے سائے میں ان کے ساتھ رقص کرنے والے اس ظلم کا حساب کیسے اور کب لیں گے ؟

Roqiya Ghazal
About the Author: Roqiya Ghazal Read More Articles by Roqiya Ghazal: 127 Articles with 102959 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.