پاکستان کو یورپ بنانا ہے !کا خواب ہماری لبرل نوجواں نسل
نے مشرف کے بعد سے ابتک ہر حکومت کو دیا اور حکمرانوں نے بھی اسے کافی حد
تک تعبیر دینے کی کوشش کی ہے ۔ محکمہ مال اور ریوینیو میں بھی بڑا انقلابی
قدم اٹھایا گیا ، پٹواریوں کی ہٹ دھرمی اور کرپشن کے نت نئے قصوں سے تنگ آ
کر سارا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے کا منصوبہ تشکیل دیا گیا ۔ لینڈ اینڈ
ریونیو ڈیپارٹمنٹ کو پٹواریوں سے چھٹکارا دینے کی کوشش کی گئی لیکن پٹواری
بھی اسی حکومت کی پیدا وار تھے اور کرپشن میں بے مثال ۔ پٹواری ایک اصطلاح
ہے جس کا استعمال اس افسر یا عہدیدار کیلئے ہوتا ہے جو زمین کے متعلق
دستاویزات وغیرہ رکھتا ہو ۔ آج کے جدید دور میں اس نظام کی موجودگی کی کئی
وجوہات ہیں جن میں سر فہرست بدعنوانی کے مواقع بتائے جاتے ہیں ۔زمینوں کے
ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کا آغاز حافظ
آباد سے کیا گیا تھا جبکہ باقی تمام اضلاع میں زمینوں کا ریکارڈ سنہ دو
ہزار چودہ تک کمپیوٹرائزڈ کیا جانا تھا لیکن ایسا نہیں ہو پایا کیونکہ
پٹواریوں کی سیاست بھی کم نہ تھی انہوں نے راتوں رات ایک تنظیم منظم کی اور
احتجاجوں پر ڈٹ گئے کہ ہمارا استحصال کیا جا رہا ہے ۔ ریکارڈ کسی صورت
کمپیوٹرائز ڈ نہیں کیا جا سکتا! یہاں تک نعرے لگائے گئے کہ یہ آئین و قانون
کے خلاف ہے ۔ اس نظام کو سمجھنے کیلئے ہم نے ایک پٹواری کے دفتر کا دورہ
کیا، پٹواری صاحب تو خود موجود نہیں تھے البتہ ان کا نجی سٹاف موجود تھا جو
لوگوں کو کپڑے کے ٹکڑے کے ذریعے زمین کی نشاندہی کر کے دے رہا تھا اور کچھ
فیس وصول کر رہا تھا جو بظاہر سرکاری خزانے میں جمع نہیں ہونا تھی ۔ پوچھنے
پر معلوم ہوا کہ پٹواری کے اس نجی سٹاف نے پٹوار کا کورس بھی کر رکھا ہے نے
بتایا کہ کپڑے کے ٹکڑے پر کی گئی زمینوں کی نشاندہی کو کہیں بھی چیلنج نہیں
کیا جا سکتا ۔یہاں سوال یہ ہے کہ ایک نویں گریڈ کا سرکاری ملازم جس کی
تنخواہ پندرہ سے بیس ہزار روپے ماہانہ ہو کس طرح تین سے چار ملازم رکھ سکتا
ہے ؟ اس پر انکشاف ہوا کہ تحصیل دار سمیت اعلیٰ سرکاری افسران کی طرف سے ان
سے غیر سرکاری مطالبات کئے جاتے ہیں جن کو پورا کرنے کیلئے ان کے پاس لوگوں
سے زمینوں کی نشاندہی اور نقل فراہم کرنے کیلئے پیسے لینے کے علاوہ کو ئی
چارہ نہیں ہوتا ۔ یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ مختلف حلقوں میں تعیناتی کیلئے
سفارش اور بولیاں لگائی جاتی ہیں او ر جو پٹواری صاحبان سیاسی اثر و رسوخ
کے علاوہ افسران کے غیر ضروری مطالبات تسلیم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں
انہیں ان حلقوں میں تعینات کیا جاتا ہے جہاں پر زمین کی خرید و فروخت کا
کام سب سے زیادہ ہوتا ہے ۔زمینوں کی نشاندہی اور ملکیت کے بارے میں
پٹواریوں سے متعلق لاکھوں مقدمات عدالتوں میں آج بھی زیر سماعت ہیں ۔انہی
مسائل کے حل کیلئے پنجاب حکومت نے زمینوں کے ریکارڈ کی کمپیوٹرائیزیشن کا
منصوبہ شروع کیا تھا !عوام کو اعتماد میں لیتے ہوئے حکومت نے کہا تھا کہ اس
سے پٹواریوں کی طاقت کم ہو گی اور لوگوں کو ریلیف ملے گا ۔لیکن افسوس کہ
تمام وعدے اور دعوے دھرے رہ گئے ۔ پٹواریوں کی ہٹ دھرمی یہاں بھی رنگ لے
آئی ، ایک پٹواری کسی بھی سیاستدان اور بیوروکریٹ سے بڑا افسر نکلا جس طرح
اسی اور نوے کی دہائی میں ہمارے بزرگ اگر کوئی لڑکا بہت زیادہ پڑھ جاتا تو
اسے دعائیں دیتے تھے اللہ تجھے پٹواری لگائے ۔جو خرد برد اور کرپشن زمینوں
کے ریکارڈ میں جس طرح کی گئی تھی کمپیوٹر ائزڈ ریکارڈ میں اسی طرح شامل کر
لیا گیا ، لوگوں کے مسائل پہلے سے زیادہ بڑھ چکے ہیں ، ایک چھوٹی سی فرد
ملکیت لینا جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف ہے صبح فجر کی نماز کے بعد لائن
میں لگ جاؤ اور ٹوکن لو پھر اپنی باری کا انتظار کرو ۔کئی بار تو آپ کی
مسافت 72 گھنٹوں تک پہنچ جاتی ہے کیوں کہ وقت ختم ہو جاتا ہے آپ کی باری
نہیں آتی ۔دو ہی گھنٹوں میں ٹوکن دینا بند کر دئے جاتے ہیں اس لئے کہ ٹوکن
ختم ہو گئے ہیں آئندہ روز جلدی آ کر لائن میں لگنا اور لینا ، لیکن اگر آپ
وہاں موجود کسی دلال سے رابطہ کریں تو آپ کو تھوڑے پیسوں کے ایوض پہلے
نمبروں میں ٹوکن دستیاب ہوتا ہے ،عام آدمی اور ملازمین سے زیادہ وہاں دلال
مافیا کا راج چلتا ہے ۔عوام کو ہر ممکن ذلت اور رسوائی دینے کا مقصد ہی
یہاں ریوینیو ڈیپارٹمنٹ کا یہی نظر آتا ہے کہ جیسے ، پٹواریوں کا بدلہ عوام
سے لیا جا رہا ہو ! نہ تو پٹواریوں کی طاقت کم ہو سکی کیونکہ آج بھی
کمپیوٹرائز ریکارڈ اول تو مکمل کیا نہیں جا سکا ہے اور اگر ہوا بھی ہے تو
جن کے کھاتے اور خسروں میں تبدیلیاں ہیں ، جو زمین اپنی کاشت کرتے ہیں لیکن
ان کے نام گرداوری یا تو کوسوں دور یا پھر دریاؤں میں جا نکلتی ہے ۔جب
ریکارڈ کمپیوٹرائزکیا جا رہا تھا تو نجی ڈیٹا انٹری آپریٹرز سے کام کروایا
گیا جن کی چالاکی کی وجہ سے کئی نام کمپیوٹر میں ٹائپنگ کی غلطی کی وجہ سے
غلط محفوظ ہو گئے جو کہ اس وقت کا سب سے بڑا معمہ زمینداروں کیلئے بنا ہوا
ہے ،نام ٹھیک کروانے کیلئے کئی دن تک خوار ہونا پڑتا ہے اور رشوت کا بازار
الگ سے گرم رہتا ہے۔یوں لگتا ہے کہ ایک پٹواری سے پیچھا چھڑانے کے بدلے اب
ڈبل پٹواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔آج بھی پہلے کھاتہ اور خسرہ متعلقہ
پٹواری سے لو جو بڑی تگ و دو اور معقول رشوت کے ایوض ملتا ہے اور پھر محکمہ
لینڈ اور ریوینیو کے کمپیوٹر سنٹر پر الگ سے رشوت دینی پڑتی ہے۔زمینداروں
کا کہنا ہے کہ پہلے ایک پٹواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا اب ڈبل کرنا پڑتا ہے
یوں لگتا ہے کہ حکومت نے اپنا الیکشن فنڈ بڑھا دیا ہے پہلے سنگل پٹواری
نظام کی مدد سے اکٹھا کیا جاتا تھا اب ڈبل پٹواری نظام سے اکٹھا ہوتا ہے
۔حکومت پاکستان اور پنجاب کو چاہئے کہ پٹواریوں اور کمپیوٹر سینٹر کے عملہ
کی جانب سے کی گئیں کوتاہیوں اور ہٹ دھرمیوں کا سدِ باب ترجیحی بنیادوں پر
کرے ، جہاں پٹواری ابھی تک کام کر رہے ہیں ان کے ذمے اپنے اپنے علاقے کا
ریکارڈ مکمل اور صحیح طور پر کمپیوٹرائزڈ کروانے اور جہاں غلطیاں کی گئیں
ان کا ازالہ کرنے کا الٹی میٹم دیا جائے جبکہ جن علاقوں میں پٹواری اب نہیں
ہیں وہاں حکومتی ٹیمیں تشکیل دے کر تمام ریکارڈ کو منظم طریقے سے محفوظ
کروایا جائے ، کمپیوٹر سینٹر میں موجود افسران اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے
ہوئے تمام ریکارڈپرنظر ثانی کرے اور جہاں غلطی ہو اسے ٹھیک کروائے ،تا کہ
بڑھتی ہوئی عوام کی خجالت کم ہو سکے اور وہ اس حکومتی منصوبے سے پوری طرح
مستفید ہو سکیں ۔ |