پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری
کا کہنا ہے کہ اشرافیہ کے سیاہ دور اقتدار اور عرصہ سیاست میں آئین بے
حیثیت،قانون بے طاقت ادارے پامال رہے۔کسی کو سڑکوں پر آئے بغیر حق نہیں
ملا۔سانحہ ماڈل ٹاؤن اداروں کی انہی تباہیوں کا ایک باب ہے۔ وہ وکلاء
کنونشن کے سلسلے میں ارٹی کے وکلاء اور سینئررہنماؤں سے خطاب کررہے
تھے۔علامہ طاہر القادری کا علم اور ریاضت اس قدر زیادہ ہے کہ ان کے لیے
کوئی بھی عزت واحترام والا سابقہ و لاحقہ بے محل نہ لگے گا۔۔انہوں نے بڑا
نام کمایا ہے۔بڑی عزت ہاتھ آئی۔اب پچھلے کچھ برسوں سے جانے انہیں کس کی نظر
لگ گئی ہے۔ان کے ساتھ وہ کچھ ہورہا ہے۔جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ان سے کچھ
ایسے قصے کہانیاں منسوب ہو چکیں کہ ان کا امیج دھندلانے لگا۔ عام آدمی کے
لیے اب قادری صاحب کے بارے میں مففی رائے پیدا ہوچکی۔پتہ نہیں کہاں ان سے
غلطی ہوگئی کہ سیدھے چلتے چلتے غلط پگڈنڈی پر نکل گئے۔اس ٹولے کے ہاتھ چڑھ
گئے جو اجلی پیکنگ میں ردی مال بیچنے کا کاروبار کرتاہے۔قادری صاحب کے
نورانی چہرے کو آگے رکھ کر جب سیاست نہیں ریاست بچاؤ پروگرام چلایا گیا۔تو
اہل عقل کا ماتھا ٹھنکا سمجھ گئے کہ اب مکروہ چہرے والے اپنی دوکان پر اس
نورانی چہرے والے کو دکھا کر گھٹیا اور غلیظ مال بیچیں گے۔قادری صاحب اس
آسیب نگری میں ایسے پھنسے ہیں کہ نکل نہیں پارہے۔عام آدمی علامہ صاحب کی
مجبوریوں سے نابلد تصویر کا صر ف وہی رخ دیکھ رہا ہے۔جس میں قادری صاحب کسی
دنیا دار مولوی کا بڑا اچھا پوز لیے ہوئے ہیں۔
مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہونے سے روکنے کے لیے کیا جانے والا سیاست نہیں
ریاست بچاؤ ڈرامہ فیل ہوگیا تھا۔مگر قادری صاحب آرام سے نہیں بیٹھے۔اس
حکومت کوناکام کرنے کے لیے پہلے دن سے ہی کاربند ہوگئے۔سانحہ ماڈل ٹاؤن اسی
رجحان کا نتیجہ تھا۔جس طرح پنجاب حکومت کی رٹ کو علامہ صاحب کے کارکنان نے
ناکام بنایا۔جس طرح گھنٹوں پولیس کو اپنی حدود میں داخل ہونے سے روکے رکھا
گیا۔وہ قابل غور ہے۔اس حکومت کوکسی بھی طرح سے نہ ماننے کے غیر آئینی او
رغیر قانونی رجحان نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کو جنم دیا۔اگر بیریئر ہٹانے میں
مزاحمت نہ کی جاتی۔پولیس کو اپنا کام کرنے دیا جاتا۔تو یہ چودہ لاشیں کبھی
نہ گرتیں۔اگلے دن عدالت میں اس پولیس گردی کے خلاف رٹ دائر کردی جاتی تو
ریلیف مل سکتاتھا۔جو ناقدین چودہ لاشیں گرنے کی بات کرتے ہیں۔دراصل وہ ملک
میں جنگل کے قانون کی عملداری کی بات کرتے ہیں۔پولیس اہم انتظامی شعبہ
ہے۔اس کے کسی بھی اپریشن کے خلاف مزاحمت وہ لوگ کرتے ہیں جو کچھ چھپانے کی
کوشش میں ہوتے ہیں۔جو کسی غیر قانونی دھندے یا شغل میں ملوث ہوتے ہیں۔علامہ
صاحب نے پولیس آپریشن کی مزاحمت کی ہدایت کرکے ریاست کی رٹ چیلنچ کیا۔اگر
کسی انتظامی ادارے کو اپنی طاقت استعمال کرنے سے معذور کردیا جائے تو پھر
اس ادارے کے وجود کا ہونا نہ ہونا برابر سا ہوجاتاہے۔
جمہوری حکومت کو اشارہ ابرو سے ختم کرنے والوں کو بڑی دشواریوں کا
سامناہے۔نوازشریف قسمت کے دھنی ہیں۔ہمیشہ کی طرح اب بھی قانونی او رآئینی
طور پر ان کی پوزیشن بڑی مضبوط ہے۔ا ن ہاؤس تبدیلی کی ساری کوششیں ناکام
ہوچکیں۔پردہ نشینوں کی اس ناکامی کی ذمہ داری بھی انہی پر عاید ہوتی
ہے۔نظام سیاست کو اس قدر گدلا کردیا گیاہے کہ اصولوں او ر اخلاقیات کی کوئی
جگہ نہیں بچی۔ہر کوئی زیادہ سے زیادہ پانے کے چکر میں ہے۔کہاں سے مل رہا
ہے،کیسے ملے گا۔یہ کسی کا مسئلہ نہیں۔پس کسی نہ کسی طرح کچھ اختیار ملنا
چاہیے۔سیاست کو اس قدر بے آبرو کردیا گیا ہے۔ارکان پارلیمنٹ ایک سال تو کیا
ایک مہینے کے حکومتی فوائد گنوانے پر آمادہ نہیں ہوتے۔مسل لیگ ن کی حکومت
کے آخری دن تک ممبران کے لیے دودھ دینے والی گائے سے دوری مشکل ہوجائے گی۔
ان ہاؤس تبدیلی کی امید شاید پہلے دن ہی سے نہ تھی۔اس لیے نوازشریف کو
ہٹانے کے لیے دوسری راہیں ڈھونڈی گئیں۔ کاغذات کاوہ انبارجو خاں صاحب کے
ہاتھ سپریم کورٹ کو بھجوایا گیا تھا۔اتنا بودا تھا اس میں سے ایک صفحے
کوبھی دلیل کافی نہ پایا گیا۔جانے کسی عقلمند نے اقامہ کی راہ دکھائی اور
عدلیہ کو اس لمبی سردرد سے چھٹکار ہ ملا۔قادری صاحب جسٹس باقر نجفی رپورٹ
کو لے کر کسی نئے دھرنے کی داغ بیل میں مصروف ہیں۔جس طرح ان سے سانحہ ماڈل
ٹاؤن سے متعلق اظہار افسوس کرنے والوں کا تانتا بندھ رہاہے۔وہ حیران کن
ہے۔لگتاہے اقامہ فیصلے کے بعد بھی نوازشریف کی اکڑ ختم نہ ہونے پر جو تشویش
پائی جارہی تھی۔اس کے خاتمے کے لیے کوئی طریقہ سوچ لیاگیا ہے۔سانحہ ماڈل
ٹاؤن وقوعے کو ہوئے تین سال ہوچکے۔مگر یکا یکی ان کے آستانے پر حاضریاں اس
بات کا ثبوت ہے کہ نوازشریف کے خلاف میدان میں اتارے گئے خدمت گاران کا نیا
پڑاؤعلامہ قادری کا دراقدس ہوگا۔
|