آج ترقی کی شاہراہ پر پاکستان سے آگے نکلنے والا بنگلہ
دیش کبھی ہمارا سب سے بڑا صوبہ ہوا کرتا تھا جس کا نام مشرقی پاکستان تھا ۔درمیان
میں ایک ہزار میل کا فاصلہ ہونے کے باوجود کلمہ طیبہ کی بنیاد پر ہم ایک
تھے ۔پھر کیا ہوا سازشوں کی نا تھمنے والی ہوا چلی اور ہم الگ ہو گئے ۔یا
یہ کہہ لیں کہ ہم الگ کر دئے گئے ۔کتنی عجیب بات ہے کہ 16 دسمبر پاکستانیوں
کے لئے تاریخی اعتبار سے ایک سیاہ باب کی حیثیت رکھتا ہے ۔سقوط ڈھاکہ 16
دسمبر کو ہوئی ،سانحہ پشاور اسی تاریخ کو ہوا ۔ مگر دوسری طرف یہ دن بنگلہ
دیش کے لئے آزادی کا دن ابھر کر سامنے آیا ۔آزادی کی خوشی کیسی ہوتی ہے وہ
احساسات ہر پاکستانی 14 اگست کا دن یاد کر کہ محسوس کر سکتا ہے ۔تو یہ 16
دسمبر انتہائی اہم بھی ہے اور اپنے اندر متضاد معنی اور جذبات بھی رکھتا ہے
۔
ہم سے ڈھاکہ کی سرزمین میں الگ ہونے والے وہی لوگ تھے جو قیام پاکستان کی
تحریک کو کامیاب بنانے میں سرگرم تھے جن لوگوں نے تاریخ میں خود کو اہم
کردار ادا کرنے والوں میں محفوظ کروالیا ۔قیام پاکستان کے بعد اکثریت میں
انہی لوگوں کا شمار ہوتا ہے ۔ اور پھر یہ لوگ تاریخ کے 24 سال بعد ہیہم سھ
علحیدہ ہو گئے ۔اکثریت نے اقلیت سے علحیدگی کی جنگ لڑی اور آخر کار اقلیت
کو ہتیار ڈالنے ہی پڑے۔
کسی بھی جنگ میں کبھی بھی دو فریقین کا کردار اتنا نہیں ہوتا جتنا اہم
کردار وہ منافقین ادا کرتے ہیں جو پس پردہ دونوں جگہ پھوٹ ڈالنے میں کوئی
کسر نہیں چھوڑتے پھر چائے وہ بدر کا میدان ہو یا سر زمین ڈھاکہ ۔
اتنے کم عرصے صرف 24 سال کے عرصے میں مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہو گیا
یہمسقوط ڈھاکہ اچانک رونما نہیں ہوا اس کے پیچھے کئی محرومیاں تھیں اور کئی
کردار تھے ان کرداروں نے ان تمام محرومیوں کو منفی شوچ میں بدل دیا ۔ ان
فاصلوں کا آغاز اس دن شروع ہوا جب اردو،بنگالی زبان کا سرکاری ہونے پر
تنازعہ کھڑا ہوا اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان بنایا گیا ۔بنگالی جو اردو
بولنا بھی نہیں جانتے تھےاور وہ بنگالی کو سرکاری زبان کے درجے پر فائز
کرنا چاہتے تھے ۔اسی تنازعہ پر ایک تحریک چلائی گئی اس تحریک نے دونوں
ملکوں کے درمیان کھڑی ہونے والی دیوار میں پہلی اینٹ کا کام کیا ۔اور
بنگالی بھی سرکاری زبان کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ۔
قیام پاکستان کے بعد ابتدائی برسوں میں جس وقت پاکستان پر مسائل کا ایک
طوفان کھڑا تھا اسی دوران بنگالیوں کو یہ احساس ہونے لگا کہ انہیں سیاسی حق
نہیں دیا جا رہا اور وہ بھارت سے آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی غلامی کی
زندگی گزار رہے ہیں مغربی عہدے دارجو اس وقت بنگال میں تعینات تھے بنگالیوں
کی ان محرمیوں کو مذید پروان چڑھایا ۔
جن کو اقتدار کی حوس تھی ان لوبوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔جنرل ایوب
خان نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد جمہوریت کے نام سے ایک سیاسی نظام
متعارف کروایا جس کے تحت عوام کے پاس پارلیمنٹ میں اپنے نمائندے براہ راست
چننے کا اختیار نہیں تھا اس کی بہترین مثال محترمہ فاطمہ جناح کی شکست تھی
۔بنگال چونکہ ساحل سمندر کے ساتھ واقع تھا تو سمندری آفات کی ذد میں رہتا
تھا حکومت کی طرف سے ایسے حالات میں امداد کا کوئی مناسب نظام نہیں تھا
۔بنگالیوں کی احساس محرومیوں میں بنگال کے متاثرین کے لئے ناکافی سہولیات
نے مزید اضافہ کیا 1965 کی جنگ ہوئی جس میں مشرقی حصے کی حفاظت کا کوئی
انتظام نہیں تھا مشرقی پاکستان جو پہلے ہی مغرب سے پہلے ہی خوش نہیں تھا
اور آزادی کے بعد بھی خود کو غلام تصور کرتا تھا ان حالات کے بعد ان لوگوں
نے بھارت کا ساتھ دیا ۔اور بھارت کو موقع چائے تھااپنی ذلت کا ہمارے حکمراں
نے ایسے حالات پیدا کرکے بھارت کو نا صرف موقع دیا بلکہ اس کا راستہ بھی
صاف کردیا ۔پاکستانی فوج زیادہ دن تک مقابلہ نہیں کرسکی کیونکہ ایک ساتھ
بھارتی افواج کے ساتھ مشرقی پاکستان کا بھی سامنا کرنا پڑا ۔کوئی دشمن سے
تو جیت سکتا ہے مگر جب مدمقابل اپنے ہی لوگ آ جائیں تو جیت ممکن ہو ہی نہیں
سکتی ۔اور پھر 16 دسمبر کا وہ لمحہ آیا جب جنرل نیازی نے پلٹن کے میدان میں
ہتھیار ڈال دئے ۔اس جنگ میں پاکستان کے نوے ہزار سے زیادہ فوجی اور سویلین
عہدے دار جنگی قیدی بنا لئے گئے جن کی واپسی ایک طویل عرصے میں ہوئی ۔بھارت
اپنی انتقامی آگ بجھانے میں کامیاب ہو گیا ۔اندرا گاندھی جس کے حکم بھارتی
فوج باقاعدہ ڈھاکہ میں داخل ہوئی۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد ان کا بیان تھا "آج ہم
نے مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے کر پاکستان کا دو قومی
نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے"ان کا بیان ان کی نفرت کی عکاسی کرتا ہے
وہ اکثر محفلوں میں کہا کرتی تھیں "میری زندگی کا حسین ترین لمحہ وہ تھا جب
میں نے پاکستان کو دو لخت کرکے بنگلہ دیش بنایا "
افسوس اس بات کا ہے کہ بھارت کر لئے اس مداخلت کے لئے سازگار حالات ہمارے
حکمراں نے خود پیدا کئے ہم صرف بھارت پر کیوں الزام عائد کریں کہ اس نے یہ
مذموم کھیل کیھلا۔دشمن کا کام تو دشمنی ہی ہوتا ہے پر ہمارے حکمراں نے دشمن
کی دشمنی کے آگے بندھ باندھنے کے بجائے دشمن کو ایندھن فراہم کیا اس کی
راہیں ہموار کیں ۔ذوالفقار علی بھٹو ،مجیب الرحمن ، جنرل یحی خان کسی نے
کوئی کسر نہ چھوڑی اپنے مفادات سیاست کی بھوک مٹانے میں ۔یہ لوگ پاکستان کی
تاریخ میں سیاہ باب کا اضافہ کر گئے ۔
سقوط ڈھاکہ کو 46 سال گزر گئے ہر سال اس تاریخ پر تمام تلخ یادیں دھرائی
جاتی ہیں مگر آج پھرایک سوال ہمارے سامنے ہے کہ اس واقعے سے ہم نے کیا
سیکھا؟ |