بیت المقدس یا یروشلم یہودیوں ، مسیحیوں اور مسلمانوں
تینوں کے نزدیک مقدس ہے۔ یہاں حضرت سلیمان کا تعمیر کردہ معبد ہے جو بنی
اسرائیل کے نبیوں کا قبلہ تھا اور اسی شہر سے ان کی تاریخ وابستہ ہے۔ یہی
شہر مسیح کی پیدائش کا مقام ہے اور یہی ان کی تبلیغ کا مرکز تھا۔ مسلمان
تبدیلی قبلہ سے قبل تک اسی کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے تھے۔ بیت المقدس
کو القدس بھی کہتے ہیں۔ یہاں مسلمانوں کا قبلہ اول مسجد اقصی اور قبہ
الصخرہ واقع ہیں۔ مکہ مکرمہ سے بیت المقدس کا فاصلہ تقریبا 1300 کلومیٹر
ہے۔یروشلم کا عربی نام القدس ہے جسے قدیم مصنفین عام طور پر بیت المقدِس
لکھتے ہیں، دراصل اس سے مراد ہیکل(سلیمانی)تھا جو عبرانی بیت ہمقدش کا
ترجمہ ہے لیکن بعد میں اس لفظ کا اطلاق تمام شہر پر ہونے لگا۔ بیت المقدس
کو یورپی زبانوں میں Jerusalem(یروشلم) کہتے ہیں۔ بیت المقدس سے مراد
’’مبارک گھر‘‘ یا ایسا گھر ہے جس کے ذریعے گناہو ں سے پاک ہوا جاتا ہے۔
پہلی صدی ق م میں جب رومیوں نے یروشلم پر قبضہ کیا تو انہوں نے اسے ایلیا
کا نام دیا تھا۔ بیت المقدس پہاڑیوں پر آباد ہے اور انہی میں سے ایک پہاڑی
کا نام کوہ صیہون ہے جس پر مسجد اقصی اور قبہ الصخرہ واقع ہیں، کوہ صیہون
کے نام پر ہی یہودیوں کی عالمی تحریک صیہونیت قائم کی گئی۔
برطانیہ اور اقوام متحدہ کی سرپرستی میں جب اسرائیل کا قیام عمل میں لایا
گیا تو یہ بات طے کر دی گئی کہ یروشلم کا شہر اسرائیل کاحصہ نہیں
ہوگا۔29نومبر 1947 ء کواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد نمبر 181کے
تحت یہ قرار دیا کہ یروشلم کی حیثیت "Corpus Separatum" کی ہوگی۔ اس کا
مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ شہر اب کسی ایک ریاست کا حصہ نہیں۔ اس کی الگ اور
جداگانہ حیثیت ہے۔ اقوام متحدہ نے کہا کہ چونکہ اس شہر کی مذہبی حیثیت ایسی
ہے کہ یہ تینوں مذاہب کے لیے محترم ہے، اسے لیے اس علاقے میں اسرائیل اور
فلسطین نام سے دو ریاستیں تو وجود میں آ رہی ہیں، لیکن یروشلم کا شہر
"Corpus Separatum" ہوگا، اورا س کا انتظام اقوام متحدہ چلائے گی۔ یہی بات
جنرل اسمبلی نے گیارہ ستمبر 1948 کی اپنی قرارداد نمبر194 میں کہی اور اسی
بات کا اعادہ فلسطین پر اقوام متحدہ کے کمیشن (UNCCP) نے1949 میں
سوئٹزرلینڈ کے شہر لازین میں اس کانفرنس میں کیا جو 27 اپریل سے 12ستمبر تک
جاری رہی۔اسرائیل نے 1949 میں مصر، اردن، شام اور لبنان سے معاہدے کیے
جنہیں "Armistice Agreement" یعنی صلح کے معاہدے کہا جاتا ہے، ان میں بھی
یروشلم شہر کی یہ حیثیت برقرار رکھی گئی۔ چنانچہ ایک انتظام کے تحت مشرقی
یروشلم اردن کے پاس چلا گیا۔ یاد رہے کہ مسجد اقصی، قبہ الصخرا، مغربی
دیوار، اور چرچ آف دی ہولی سپیلکر یعنی کنیسہ القیامہ اسی مشرقی یروشلم میں
واقع ہیں۔ 1967 تک یہ مقامات مسلمانوں کے پاس رہے اور اردن ہی ان کے
انتظامی معاملات کو دیکھتا رہا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے وحی الٰہی کے مطابق مسجد بیت
المقدس (مسجد اقصی)کی بنیاد ڈالی اور اس کی وجہ سے بیت المقدس آباد ہوا۔
پھر عرصہ دراز کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام (961ق م) کے حکم سے مسجد اور
شہر کی تعمیر اور تجدید کی گئی، اس لیے یہودی مسجد بیت المقدس کو ہیکل
سلیمانی کہتے ہیں۔ ہیکل سلیمانی اور بیت المقدس کو 586ق م میں شاہ بابل
(عراق)بخت نصر نے مسمار کر دیا تھا اور ایک لاکھ یہودیوں کو غلام بنا کر
اپنے ساتھ عراق لے گیا۔ بیت المقدس کے اس دور بربادی میں حضرت عزیر علیہ
السلام کا وہاں سے گزر ہوا، انہوں نے اس شہر کو ویران پایا تو تعجب ظاہر
کیا کہ کیا یہ شہر پھر کبھی آباد ہوگا؟ اس پر اﷲ نے انہیں موت دے دی اور جب
وہ سو سال بعد اٹھائے گئے تو یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ بیت المقدس پھر آباد
اور پر رونق شہر بن چکا تھا۔ بخت نصر کے بعد 539ق م میں شہنشاہ فارس روش
کبیر (سائرس اعظم)نے بابل فتح کر کے بنی اسرائیل کو فلسطین واپس جانے کی
اجازت دے دی۔ یہودی حکمران ہیرود اعظم کے زمانے میں یہودیوں نے بیت المقدس
شہر اور ہیکل سلیمانی پھر تعمیر کر لیے۔ یروشلم پر دوسری تباہی رومیوں کے
دور میں نازل ہوئی، رومی جرنیل ٹائٹس نے یروشلم اور ہیکل سلیمانی دونوں
مسمار کر دئیے۔ 137ق م میں رومی شہنشاہ ہیڈرین نے شوریدہ سر یہودیوں کو بیت
المقدس اور فلسطین سے جلا وطن کر دیا، چوتھی صدی عیسوی میں رومیوں نے
عیسائیت قبول کرلی اور بیت المقدس میں گرجے تعمیر کیے۔ جب نبی کریم صلی اﷲ
علیہ و آلہٖ وسلم معراج کو جاتے ہوئے بیت المقدس پہنچے، 2ھ بمطابق 624 تک
بیت المقدس ہی مسلمانوں کا قبلہ تھا، حتی کہ حکم الٰہی کے مطابق کعبہ (مکہ)
کو قبلہ قرار دیا گیا۔ 17ھ یعنی 639 میں عہد فاروقی میں عیسائیوں سے ایک
معاہدے کے تحت بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ خلیفہ عبد الملک کے
عہد میں یہاں مسجد اقصی کی تعمیر عمل میں آئی اور صخرہ معراج پر قبہ الصخرہ
بنایا گیا۔ 1099ء میں پہلی صلیبی جنگ کے موقع پر یورپی صلیبیوں نے بیت
المقدس پر قبضہ کر کے 70ہزار مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ 1187 ء میں سلطان
صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو عیسائیوں کے قبضے سے چھڑایا۔ پہلی جنگ
عظیم دسمبر 1917ء کے دوران انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کر
کے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی، یہود و نصاری کی سازش کے تحت
نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دھاندلی سے کام لیتے ہوئے
فلسطین اور عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا اور جب 14 مئی 1948 کو
یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا تو پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ
گئی۔ اس کے جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر قابض ہو
گئے، تاہم مشرقی یروشلم (بیت المقدس)اور غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے
میں آ گئے۔ تیسری عرب اسرائیل جنگ (جون 1967)میں اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین
اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا۔ یوں مسلمانوں کا قبلہ اول ہنوز
یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ یہودیوں کے بقول 70 کی تباہی سے ہیکل سلیمانی کی
ایک دیوار کا کچھ حصہ بچا ہوا ہے جہاں دو ہزار سال سے یہودی زائرین آ کر
رویا کرتے تھے اسی لیے اسے ’’دیوار گریہ‘‘کہا جاتا ہے۔ اب یہودی مسجد اقصی
کو گرا کو ہیکل تعمیر کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ اسرائیل نے بیت
المقدس کو اپنا دارالحکومت بھی بنا رکھا ہے۔
1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا لیکن دنیا نے اس
قبضے کو آج تک تسلیم نہیں کیا۔ اقوام متحدہ کے مطابق مشرقی یروشلم مقبوضہ
فلسطین ہے اور اسے اسرائیل نہیں کہا جا سکتا۔ سلامتی کونسل نے 22نومبر1967ء
کو قرارداد نمبر 242کے ذریعے اسرائیل کے قبضے کو ناجائز قرار دیا اور اسے
مشرقی یروشلم سے نکل جانے کو کہا۔ اس قرارداد کو امریکہ سمیت 15ممالک کے
ووٹ ملے، نہ کوئی ملک غیر حاضر رہا نہ کسی نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔ اقوام
متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 4جولائی 1967ء کو قرارداد نمبر 2253کے ذریعے
اسرائیلی قبضے کو غیر قانونی اور ناجائز قرار دیا۔ اس میں کہا گیا کہ
اسرائیل ہر ایسے اقدام سے باز رہے جو یروشلم شہر کی طے شدہ حیثیت کو تبدیل
کر تا ہو۔ 99ممالک نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا اور کسی ایک ملک نے بھی
اس کی مخالفت نہیں کی۔ تیرہ سال اسی طرح گزر گئے۔ 1980ء میں اسرائیل نے
اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پامال کرتے ہوئے اعلان کر دیا کہ یروشلم اس کا
دارالحکومت ہوگا۔ اسرائیل نے دنیا سے کہا کہ وہ اپنے سفارت خانے یروشلم
منتقل کرے۔ اس قدم سے اسلامی دنیا میں بھونچال آ گیا اور او آئی سی نے کہا
کہ جو ملک اپنا سفارت خانہ یروشلم لے گیا، تمام اسلامی ممالک سے اس کے
سفارت خانے بند اور سفارتی تعلقات منقطع کر دیے جائیں گے۔ اس دوران اقوام
متحدہ کی سلامتی کونسل نے پہلے 30جون کو قرارداد نمبر 476اور پھر 20اگست
1980 ء کو قرارداد نمبر 478پاس کی اور اسرائیل کے اس قدم کو انٹرنیشنل لاء
کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے تمام ممالک سے کہا کہ اقوام متحدہ کے فیصلے کو
مانیں اور کوئی ملک بھی اپنا سفارت خانہ یروشلم نہیں لے جائے گا۔ اس
قرارداد کے حق میں 14 ووٹ آئے جبکہ کسی ایک ملک نے بھی مخالفت نہیں کی۔
امریکہ البتہ غیر حاضر رہا۔ چنانچہ اس قرارداد کے فورا بعد بولیویا، چلی،
کولمبیا، کوسٹا ریکا، پانامہ، یوروگوائے، وینزیویلا، ایکواڈور، سالوادور
جیسے ممالک نے جو اپنے سفارت خانے یروشلم منتقل کر چکے تھے، واپس تل ابیب
لے کر آ گئے۔ حتی کہ امریکہ کو بھی یہ ہمت نہ ہو سکی کہ وہ اپنا سفارت خانہ
یروشلم لے جائے۔ دسمبر 1980ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسرائیل کے
اس اقدام کو غیر قانونی قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل چوتھے جنیوا کنونشن کی
خلاف ورزی کر رہا ہے۔ وہ اس سے باز رہے۔
امریکہ نے اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم (بیت
المقدس)منتقل کرنے کا فیصلہ تو کر لیا لیکن سوال یہ ہے کہ جب بین الاقومی
قوانین کے تحت یروشلم اسرائیل کا شہر ہی نہیں ہے، تو سفارت خانہ وہاں منتقل
کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ سوال بہت ہی اہم ہے۔ چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جو
ممالک اسرائیل کے ناجائز وجود کو بطور ریاست تسلیم کر چکے ہیں، وہ بھی اس
اقدام کی حمایت نہیں کر پا رہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس اقدام کی کوئی
توجیح پیش نہیں کی جا سکتی۔ یروشلم کے بارے میں اقوام متحدہ واضح طور پر طے
کر چکی ہے کہ یہ اسرائیل کاحصہ نہیں ہے۔ جنرل اسمبلی کی چار جولائی 1967
اور چودہ جولائی کی قراردادوں کے علاوہ سلامتی کونسل کی 1968 کی قرارداد
نمبر 252 میں بھی اسرائیل سے یہی کہا گیا ہے کہ وہ ناجائز اور غیر قانونی
اقدامات کر کے یروشلم شہر کی حیثیت بدل رہا ہے، اس سے وہ اجتناب کرے۔1990
میں اسرائیلی کی جانب سے جب مسجد اقصی میں مسلمانوں پر تشدد ہوا تو سلامتی
کونسل نے 12اکتوبر کو قرارداد نمبر 672 کے ذریعے اسرائیل کو بین الاقوامی
قوانین کی پامالی کا مرتکب ٹھہرایا اور کہا کہ یروشلم اسرائیل کا حصہ نہیں
ہے، بلکہ یہ فلسطین کا علاقہ ہے جو اس وقت مقبوضہ حیثیت میں اسرائیل کے
ناجائز قبضے میں ہے۔ اس قرارداد میں اسرائیل سے کہا گیا کہ وہ اس مقبوضہ
علاقے میں ان ذمہ داریوں کو ادا کرے جو اقوام متحدہ کے قوانین کے تحت
مقبوضہ علاقوں کی بابت طے کر دی گئی ہیں۔یروشلم کی حیثیت کے تعین کے لیے یہ
معاملہ 2004 میں بین الاقوامی عدالت انصاف کے پاس بھی پیش کیا گیا تاکہ اس
سے ایڈوائزری اوپینین لیا جا سکے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف نے کہا کہ
یروشلم اسرائیل کا حصہ نہیں ہے بلکہ اسے مقبوضہ فلسطین کہا جائے گا۔ کہا
گیا کہ اسرائیل یہاں دیوار تعمیر نہیں کر سکتا کیونکہ یہ علاقہ اس کا نہیں
ہے بلکہ مقبوضہ ہے۔ یہ کام بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے
تو یہ بھی کہا کہ جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل اس ضمن میں مزید اقدامات
کریں۔ عالمی عدالت انصاف جس مقبوضہ علاقے میں ایک دیوار تعمیر کرنے کی
اجازت نہیں دے رہی، آج امریکہ وہاں پورا سفارت خانہ لے جانا چاہتا ہے۔ یہاں
ا س غلط فہمی کو بھی دور کر لیا جائے کہ یہ محض ٹرمپ کا فیصلہ ہے۔ یاد رہے
کہ امریکہ تو 1995 ہی میں یروشلم ایمبیسی ایکٹ متعارف کرا چکا ہے۔ خواب
پرانا ہے، اس خواب کو تعبیر البتہ ڈونلڈ ٹرمپ دے رہے ہیں۔یروشلم کے معتبر
ترین مسیحی رہنما، گریک آرتھوڈوکس چرچ کے ثیو فیلوس الثالث اور درجن بھر
دیگر مسیحی عمائدین نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک احتجاجی خط لکھا ہے، جس میں انہیں
وارننگ دی ہے کہ سفارت خانہ یروشلم منتقل کر کے آپ ناقانل تلافی نقصان
اٹھائیں گے، اور آپ کے اس اقدام سے یہاں نفرت اور تشدد میں اضافہ ہوگا، اور
امن اور اتحاد سے ہم مزید دور ہو جائیں گے۔
یہودیوں کی ہٹ دھرمی اپنی جگہ مگر رسول اﷲ صلی علیہ وآلہٖ وسلم کی پیشن
گوئیوں کے مطابق قربِ قیامت یہ سب کچھ ہو کر رہے گا، یہودیوں کی شکل میں
مسلمانوں پر تباہی نازل ہو گی جسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔ ترکی میں او آئی
سی کے اجلاس میں ایک دفعہ پھر بھرپور طریقے سے صہیونی ایجنڈے کی مخالفت کی
گئی ہے مگر اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے روایتی ہٹ دھرمی کا
مظاہرہ کرتے ہوئے مسلم راہنماؤں کے بیانات کو یکسر مسترد کردیا ہے، اب ایسے
حالات بنائے جارہے ہیں جس سے تیسری عالمی جنگ کی شروعات یقینی ہے۔ |