چین کی سوشلسٹ جدیدیت کے سفر کا فیصلہ کن موڑ

چین کی سوشلسٹ جدیدیت کے سفر کا فیصلہ کن موڑ
تحریر: شاہد افراز خان، بیجنگ

کمیونسٹ پارٹی آف چائنا (سی پی سی) کی 20ویں مرکزی کمیٹی کا چوتھا کل رکنی اجلاس اس وقت بیجنگ میں جاری ہے۔ یہ اجلاس چین کے ترقیاتی سفر میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ ملک کے 15ویں پانچ سالہ منصوبے کی سمت متعین کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔ یہی منصوبہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت کو 2026 سے 2030 تک رہنمائی فراہم کرے گا ، یعنی ایک ایسا مرحلہ جب چین 2035 تک بنیادی سوشلسٹ جدیدیت کے ہدف کے قریب پہنچنے کے لیے بھرپور پیش قدمی کرے گا۔

اس اجلاس میں قومی اقتصادی و سماجی ترقی کے 15ویں پانچ سالہ منصوبے کی تیاری کے لیے مرکزی کمیٹی کی مجوزہ تجاویز کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ چین کے پانچ سالہ منصوبے دراصل ملک کی ترقی کے لیے جامع رہنما خاکے ہوتے ہیں، جو اہداف، ترجیحات، حکمتِ عملیوں اور پالیسی سمتوں کو واضح کرتے ہیں۔
1953 میں پہلے منصوبے سے آغاز کرتے ہوئے یہ سلسلہ چین کے نظامِ حکمرانی کا ایک اہم ستون بن چکا ہے۔ انہی منصوبہ بندیوں کی بدولت چین نے گزشتہ سات دہائیوں میں اقتصادی استحکام، سماجی ترقی، اور تکنیکی خودانحصاری کی بنیادیں مضبوط کی ہیں۔

گزشتہ پانچ برسوں میں، چین نے اختراع، سبز ترقی، اور بڑھتی ہوئی گھریلو کھپت کی بنیاد پر اعلیٰ معیار کی ترقی میں نمایاں پیش رفت حاصل کی ہے۔کووڈ۔19 کی عالمی وبا اور پیچیدہ بین الاقوامی حالات کے باوجود، 2021 سے 2024 کے درمیان چین کی اوسط سالانہ شرحِ نمو 5.5 فیصد رہی، جو دنیا کی بڑی معیشتوں میں ایک قابلِ ذکر کارکردگی ہے۔

تخمینوں کے مطابق، 14ویں پانچ سالہ منصوبے (2021–2025) کے دوران چین کی معیشت میں 35 ٹریلین یوآن تقریباً 4.93) ٹریلین امریکی ڈالر ( کا اضافہ متوقع ہے ، جو کسی بڑی مغربی معیشت کے کل سالانہ جی ڈی پی کے برابر ہے۔ گزشتہ برس چین کا فی کس جی ڈی پی 13,445 امریکی ڈالر تک پہنچ گیا، جس سے ملک اعلیٰ متوسط آمدنی والے ممالک کی صفِ اوّل میں شامل ہو گیا۔

14ویں منصوبے کی کامیاب تکمیل کے بعد، اب 15واں منصوبہ چین کے لیے سوشلسٹ جدیدیت کی جانب سفر میں ایک فیصلہ کن مرحلہ ثابت ہونے جا رہا ہے۔مطلق غربت کے خاتمے اور ہمہ گیر خوشحال معاشرے کے قیام کے بعد، چین اب 2035 تک بنیادی سوشلسٹ جدیدیت اور وسطِ صدی تک ایک عظیم جدید سوشلسٹ طاقت بننے کے ہدف پر گامزن ہے۔

آئندہ پانچ برسوں میں چین کی توجہ کا مرکز نئی نوعیت کی پیداواری قوتوں کو فروغ دینا ہوگا۔ اس مقصد کے لیے جامع منصوبہ بندی، ادارہ جاتی اصلاحات اور پالیسی استحکام کو یقینی بنایا جائے گا۔چین سائنسی و تکنیکی اختراعات، کلیدی بنیادی ٹیکنالوجیز، اور صنعتی جدت کے امتزاج سے ترقی کا نیا ماڈل تشکیل دے گا۔جدید چِپس، آپریٹنگ سسٹمز، مصنوعی ذہانت کے بڑے ماڈلز، کوانٹم ٹیکنالوجی، اور انسان بردار خلائی پروازوں میں نمایاں پیش رفت نے چین کو ایک اختراعی معیشت کے طور پر مستحکم کیا ہے۔
چین کا "اے آئی پلس" اقدام سائنسی تحقیق، صنعتی ترقی اور صارف منڈیوں میں نئی توانائی پیدا کر رہا ہے، جب کہ ہائی ٹیک صنعتیں اور سمارٹ مینوفیکچرنگ مستقبل کی معیشت کے لیے نئے انجن کی حیثیت اختیار کر رہی ہیں۔

چین تیزی سے ایسے ترقیاتی ماڈل کی جانب بڑھ رہا ہے جس میں گھریلو طلب معیشت کی مرکزی قوت بن رہی ہے۔ حکومت نے کھپت میں اضافے، سرمایہ کاری سے بہتر منافع حاصل کرنے، اور دیہی و شہری منڈیوں کو وسعت دینے کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا ہے۔"برفانی کھیلوں"، "بزرگ آبادی کی معیشت"، "کم بلندی والی معیشت" اور دیہی منڈیوں کے فروغ جیسے نئے مواقع ملکی ترقی کے اہم ستون بن رہے ہیں۔

سبز ترقی میں عالمی رہنما کی حیثیت سے چین ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے سبز منتقلی کو تیز کر رہا ہے۔ کم لاگت ماحول دوست ٹیکنالوجیز اور سائنسی مہارت کے ذریعے چین نہ صرف اپنے اندرونی نظام کو بہتر بنا رہا ہے بلکہ عالمی سطح پر پائیدار ترقی کے عمل میں بھی مؤثر کردار ادا کر رہا ہے۔

دنیا بھر کی نظریں اس بات پر مرکوز ہیں کہ چین آئندہ برسوں میں جامع اصلاحات اور اعلیٰ معیار کے کھلے پن کی پالیسی کو مزید آگے بڑھائے گا۔قومی اتحاد، پائیدار پالیسیوں اور بین الاقوامی تعاون کے امتزاج کے ذریعے چین اپنے اہداف کے قریب تر پہنچنے کی راہ پر استحکام اور اعتماد کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے ، چاہے مستقبل کا راستہ کتنا ہی چیلنجنگ کیوں نہ ہو۔

 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1663 Articles with 953410 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More