دریائے کنڑ کا بہاو پانی، سیاست اور طاقت کا نیا محاذ”
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
آج کل افغانستان میں دریائے کنڑ پر ڈیم کی تعمیر کی خبریں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ طالبان حکومت بھارت کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پاکستان کا پانی روکنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ بظاہر یہ ایک عام سیاسی بیان لگتا ہے، مگر اس کے پیچھے چھپے محرکات، خطے کی آبی سیاست اور اس کے ممکنہ اثرات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ مسئلہ صرف پانی کا نہیں بلکہ مستقبل کی علاقائی طاقت کے توازن، ماحولیات، اور خطے کے امن سے جڑا ہوا ہے۔
سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دریائے کنڑ دراصل کوئی الگ دریا نہیں، بلکہ پاکستان کے ضلع چترال سے نکلنے والے دریائے چترال—جسے بعد میں دریائے کابل کہا جاتا ہے—کی ایک شاخ ہے۔ یہ دریا پاکستان سے نکل کر افغانستان میں داخل ہوتا ہے، وہاں دریائے کابل سے ملتا ہے، اور پھر دوبارہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا سے گزرتے ہوئے دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسے “shared river system” کہا جاتا ہے۔ اس کے پانی پر افغانستان اور پاکستان دونوں کا انحصار ہے۔ چترال، کنڑ، ننگرہار، لغمان، اور پشاور و نوشہرہ جیسے علاقے اس دریا کے بہاو سے جڑے ہوئے ہیں۔ یعنی اگر ایک ملک پانی کے بہاو میں مداخلت کرے تو دوسرے ملک کے ماحولیاتی اور معاشی نظام پر فوری اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
افغان طالبان کی جانب سے دریائے کنڑ پر ڈیم بنانے کے اعلانات اس وقت سامنے آئے جب بھارت اور افغانستان کے درمیان دوبارہ تکنیکی تعاون کی باتیں ہونے لگیں۔ بھارت ماضی میں افغانستان میں متعدد آبی منصوبے مکمل کر چکا ہے، جن میں سلما ڈیم—جسے بعد میں “انڈو افغان فرینڈشپ ڈیم” کہا گیا—نمایاں مثال ہے۔تاہم کنڑ ڈیم ایک بالکل مختلف اور بڑا منصوبہ ہے۔ اس کے لیے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری، اعلیٰ انجینئرنگ مہارت، عالمی مالیاتی اداروں کی منظوری، اور کئی برسوں پر محیط تعمیراتی عمل درکار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ طالبان حکومت کے پاس نہ وہ سرمایہ ہے، نہ تکنیکی ماہرین، نہ بین الاقوامی حمایت۔ عالمی مالیاتی ادارے پہلے ہی طالبان حکومت کے ساتھ کسی بڑے معاہدے کے لیے تیار نہیں۔اس لیے امکان یہی ہے کہ دریائے کنڑ پر ڈیم کی بات فی الحال ایک سیاسی نعرہ یا بھارت کی سفارتی چال سے زیادہ کچھ نہیں۔
فرض کریں کہ طالبان حکومت کسی طرح اس منصوبے کو آگے بڑھانے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو اس کے نتائج خطے میں بڑے ماحولیاتی اور سفارتی بحران کو جنم دے سکتے ہیں۔ دریائے کنڑ سے نکلنے والا پانی افغانستان کے مشرقی صوبوں کی زراعت اور توانائی کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اگر پانی ذخیرہ کرنے کے عمل میں توازن نہ رکھا گیا تو افغانستان کے ہی کئی علاقے خشک سالی اور زرعی تباہی کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔دوسری طرف، پاکستان بھی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھے گا۔ اگر اسلام آباد کو محسوس ہوا کہ کابل کی حکومت جان بوجھ کر پانی روک رہی ہے، تو وہ چترال کے منبع پر انجینئرنگ کے ذریعے بہاو کو متبادل راستے پر موڑ سکتا ہے۔ ٹنل یا بائی پاس کے ذریعے بہاو میں تبدیلی ممکن ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ افغانستان کے مشرقی علاقوں—خصوصاً کنڑ، ننگرہار، لغمان اور کابل—میں پانی کی کمی پیدا ہو جائے گی، جس کے نتیجے میں زرعی پیداوار متاثر، خوراک کی قلت بڑھے گی، اور قحط کی صورتحال جنم لے سکتی ہے۔افغانستان جیسے ملک میں جہاں پہلے ہی معیشت تباہ حال ہے، ایسی صورتحال خانہ جنگی اور اندرونی بدامنی کا باعث بن سکتی ہے۔
یہ تنازعہ صرف پانی کے بہاوتک محدود نہیں۔ یہ دراصل جنوبی ایشیا میں طاقت کے نئے توازن کا حصہ بن چکا ہے۔ بھارت اور پاکستان پہلے ہی سندھ طاس معاہدے کے تحت مستقل کشمکش میں ہیں۔ اب اگر افغانستان کو بھی اس “پانی کی جنگ” میں شامل کر لیا گیا، تو پورا خطہ ماحولیاتی بحران اور سیاسی عدم استحکام کے دہانے پر پہنچ سکتا ہے۔بھارت کے لیے افغانستان میں ایسے منصوبے محض ترقیاتی نہیں بلکہ اس کے لیے ایک اسٹریٹجک ہتھیار ہیں۔ وہ جانتا ہے کہ اگر افغانستان کے دریاوں پر کنٹرول حاصل کر لیا جائے، تو پاکستان کے دریائی نظام پر دباو بڑھایا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر دریائے کابل اور اس کی شاخیں پاکستان کے پانی کے اہم ذرائع میں شامل ہیں۔طالبان حکومت شاید اس دباو کو مکمل طور پر سمجھ نہیں رہی، یا پھر جان بوجھ کر بھارت کے سفارتی جال میں پھنس رہی ہے۔ کیونکہ اگر پاکستان نے اس کے ردعمل میں کوئی سخت قدم اٹھایا تو اس کا نقصان طالبان حکومت سے زیادہ افغان عوام کو ہوگا۔
دریائے کنڑ اور دریائے کابل کے پانی پر صرف زراعت ہی نہیں بلکہ بجلی پیدا کرنے کے منصوبے بھی منحصر ہیں۔ خیبر پختونخوا کے کئی ہائیڈرو پاور اسٹیشن اسی نظام سے توانائی حاصل کرتے ہیں۔ اگر پانی کی فراہمی میں کمی واقع ہوئی تو پاکستان کے شمالی علاقوں میں بجلی کی پیداوار متاثر ہوگی، جبکہ افغانستان میں زرعی پیداوار تباہ ہو سکتی ہے۔یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ پانی کسی ملک کی حدود کا احترام نہیں کرتا۔ اگر ایک ملک بہاو¿ کو روکنے کی کوشش کرے تو قدرت خود کسی نہ کسی انداز میں توازن بحال کرتی ہے—کبھی سیلاب کی صورت میں، کبھی خشک سالی کی صورت میں۔ لہٰذا پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی سوچ خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔
اگر افغانستان واقعی اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنا چاہتا ہے تو اسے ڈیم سیاست کے بجائے مشترکہ آبی انتظام (Joint Water Management) کی طرف جانا چاہیے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کوئی باقاعدہ واٹر ٹریٹی نہیں، حالانکہ دونوں ممالک کے دریا ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ایک مشترکہ ریجنل واٹر ایگریمنٹ نہ صرف ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنا سکتا ہے بلکہ دونوں ملکوں کے لیے اقتصادی فائدہ مند بھی ثابت ہوگا۔ مشترکہ منصوبوں کے ذریعے بجلی کی پیداوار بڑھائی جا سکتی ہے، زراعت کو جدید نظام سے جوڑا جا سکتا ہے، اور سیلابوں کے خطرات کم کیے جا سکتے ہیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ چین یا وسطی ایشیائی ممالک کی مدد سے کوئی ریجنل واٹر کوریڈور تشکیل دیا جائے، جس سے خطے کے تمام ممالک کو توانائی اور آبپاشی کے فوائد حاصل ہوں۔
طالبان حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ پانی کے بہاو کو روکنے کے دعوے وقتی سیاسی فائدہ تو دے سکتے ہیں مگر طویل المدت نقصان انہی کے عوام کو اٹھانا پڑے گا۔ افغانستان پہلے ہی خشک سالی، ماحولیاتی تباہی، اور خوراک کی کمی جیسے بحرانوں سے دوچار ہے۔ ایسے میں اگر وہ اپنے ہمسائے کے ساتھ آبی دشمنی مول لیتا ہے تو یہ خودکشی کے مترادف ہوگا۔پاکستان کے لیے بھی یہ وقت جذباتی ردعمل کا نہیں بلکہ حکمت عملی کا ہے۔ اسلام آباد کو چاہیے کہ کابل کے ساتھ تکنیکی مذاکرات شروع کرے، آبی اعداد و شمار کا تبادلہ کرے، اور ایک مستقل مکینزم قائم کرے تاکہ افواہوں اور پروپیگنڈے کے بجائے حقائق کی بنیاد پر فیصلے کیے جا سکیں۔ دریائے کنڑ کا تنازعہ دراصل ایک بڑے سبق کی یاد دہانی ہے—کہ خطے میں اب جنگیں بندوق سے نہیں بلکہ پانی سے لڑی جائیں گی۔ اگر پاکستان اور افغانستان نے دانشمندی سے کام نہ لیا تو آنے والی نسلیں پانی کی بوند بوند کو ترسیں گی۔
#kikxnow #musarratullahjan #kpk #kp #river #india #afghanistan #pakistan
٠ |