وسیلہ اور امام ابو حنیفہ

وسیلہ کے بارے میں بعض لوگوں نے مجھ سے دلیل مانگی ہے کہ اس بارے میں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ وہ کسی فوت شدہ مخلوق کے وسیلے کو قائل نہیں تھے اور اس کو برا جانتے تھے اس لئے وہ عبارت میں یہاں مکمل حوالے کے ساتھ نقل کر رہا ہوں وتوفیقی باللہ۔

وسیلہ حق اور وسیلہ باطلہ۔
اس معاملے میں دو انتہائی نظریات ہیں ایک اپنی کم علمی کی بنا پر یہ سمجھتے ہیں کہ دین میں کسی قسم کا بھی وسیلہ جائز نہیں ہے جبکہ دوسری انتہا یہ مانتی ہے کہ ہر قسم کا وسیلہ جائز ہے مگر ہمیں قرآن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے عمل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تین قسم کا وسیلہ جائز ہے کیونکہ یہ تینوں اقسام ہمیں قرآن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اقوال سے ملتی ہے اس کے علاوہ جو وسیلہ ہمارے یہاں رائج ہے وہ باطل ہے کیونکہ وہ قرآن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں ہے۔ سب سے پہلے وسیلہ کی وہ اقسام جو جائز ہیں۔

(١) اللہ کے اسماء مبارکہ کا وسیلہ:
اللہ کے ناموں کے وسیلہ سے مانگنا جائز ہے قرآن میں اللہ ارشاد فرماتا ہے “ اللہ کے نام سب اچھے ہیں تو اسے انہی ناموں سے پکارو“ (سورہ الاعراف ١٨٠) اور اس کے دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی پریشانی میں ہوتے تو اللہ کے ناموں کے وسیلہ سے پکارتے تھے-

انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ“ نبی اکرام صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی بات کی پریشانی ہوتی تو فرماتے اے حی القیوم میں تیری رحمت کے ساتھ تجھ سے فریاد کرتا ہوں۔(سنن ترمزی کتاب الدعوت رقم ٣٥٢٤)

(٢) نیک آدمی کی دعا کا وسیلہ: احادیث میں یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ کسی نیک آدمی سے دعا کی درخواست کی جاسکتی ہے چنانچہ اس کی دلیل متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرام صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کیا کرتے اور آُپ کے وصال کے بعد عباس رضی اللہ عنہ سے بارش کی دعا کی درخواست کی گئی (صحیح بخاری کتاب استسقاء ١٠١٠ )

(٣) نیک اعمال کا وسیلہ : الله کی بارگاہ میں اپنے نیک اعمال کے وسیلے سے دعا کی جا سکتی ہے اور اس کی دلیل قرآن اور حدیث میں موجود ہے "جو الله سے فریاد کرتے ہیں اے پروردگار ہم ایمان لائے سو ہمارے گناہ معاف فرما دے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا "(سوره ال عمران ٥٣ ) اور صحیح مسلم کی ایک طویل حدیث میں موجود ہے کہ تین لوگ ایک غار میں بند ہو گئے تو انھوں نے اپنے نیک اعمال کے وسیلے سے دعا تو الله نے ان کی دعا کو قبول فرمایا (مسلم رقم ٢٧٤٣ باب قصہ اصحاب الغار )

وسیلہ کی جائز اقسام بیان کرنے کے بعد اب ہم وسیلہ باطلہ کی جانب چلتے ہیں جو ہمارے یہاں بہت عام ہے اور جس کو جائز سمجھا جاتا ہے-

کسی فوت شدہ نیک شخصیت کے مقام اور مرتبہ کو وسیلہ بنا کر دعا کی جائے یہ نا جائز اور مکروہ ہے اور اس کو بدعت کہا گیا ہے اس حوالے سے میں صرف شرح عقیدہ الطحاویہ کی عبارت نقل کرنا چاہتا ہوں جس کے حوالے سے مجھ سے بعض حضرات جاننا چاہتے تھے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا کیا موقف ہے اب اس عبارت کی جانب چلتے ہیں جو احناف کی معتبر کتب میں سے ایک ہے-

وسیلہ باطلہ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ
فکانہ یقول : لکون فلان من عبدک الصالحین اجب دعای: وای مناسبہ فی ھذا و ای ملازمہ؟ انما ھذا من الاعتداء فی الدعاء وقد قال تعالی: ادعوا ربکم تضرعا وخفیہ، انہ لا یحب المعتدین ۔ وھذا نحوہ من الادعیہ المبتدعہ، ولم ینقل عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ولا عن الصحابہ ، ولا عن التابعین، ولا عن احد من الائمہ رضی اللہ عنھم ، و انما یوجد مثل ھذا فی الحروز الھیاکل التی یکتب بھا الجھال و الطرقیہ۔ الدعاء من افضل العبادات، والعبادت مبنا ھا علی السنہ والاتباع ، لا علی الھوی الابتداع۔

اس کے بعد امام ابو حنیفہ کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
ولھذا قال ابو حینفب وصاحباہ رضی اللہ عنہم : یکرہ ان یقول الداعی: اسالک بحق فلان، او انبیاءک ورسلک ، وبحق البیت الحرام ، والمشعر الحرام، ونحو ذلک حتی کرہ ابو حنیفہ و محمد رضی اللہ عنھما ان یقول الرجل : اللھم انی اسالک بمعقد العز من عرشک ، ولم یکرھہ ابو یوسف رحمہ اللہ لما بلغہ الاثر فیہ۔ تارہ یقول : بجاہ فلاں عندک ، یقول :نتوسل الیک بانبیائک ورسلک واولیائک۔ ومردہ ان فلان عندک ذو وجاھہ وشرف ومنزلہ فاجب دعاءنا۔ وھذا ایضا محذور ،فانہ لو کان ھذا ھو التوسل الذی کا الصحابہ یفعلونہ فی حیاہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم لفعلوہ بعد موتہ وانما کانو یتوسلون فی حیاتہ بدعائہ یطلبون منہ ان یدعو لھم ، وھ یومنون علی دعائہ ، کما فی الاستسقاء وغیرہ فلما مات صلی اللہ علیہ وسلم قال عمر رضی اللہ عنہ لما خرجوا یستسقون :۔ اللھم انا کنا اذااجدبنا نتوسل الیک بنبینا فتسقینا ، انا نتوسل الیک بعم نبینا ۔ معناہ بدعاہ وھ ربہ وشفاعتہ وسوالہ ، لیس المرد انا نقسم علیک بہ او نسالک بجاھہ عندک، اذ لو کان مادا لکان جاہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم اعظم و اعظم من جاہ العباس۔

شرح عقیدہ الطحاویہ باب وسیلہ ص ٩٣

جب کوئی یوں کہتا ہے فلاں تیرا نیک بندہ ہے پس تو میری دعا قبول کر , کیا اس طر ح کہنے کا کوئی تعلق( دعا) ہے یا یہ لازم ہےاس نوعیت کی دعا حد سے تجاوز ہے جیسا الله نے فرمایا اپنے رب کو پکارو عاجزی اور چھپ کر اور الله حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا اور اس طریقہ سے دعاکرنا بدعت ہے کیونکہ اس طرح دعا کرنا نہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے منقول ہے اور نہ صحابہ کرم رضی الله عنھم تابعین ائمہ میں سے کسی ایک سے بھی منقول ہے اس طرح (دعا کا طریقہ ) صرف اس میں پایا جاتا ہے جس میں جھلا طریقت پر لکھا گیا ہے چنانچہ دعا افضل عبادات میں سے ہے اور عبادات کی بنیاد سنت اور اتباع ہے اپنی نفسانی خواہش نہیں

آگے امام ابو حنیفہ رحمہ الله کا قول نقل کرتے ہوۓ بیان کرتے ہیں
امام ابو حنیفہ رحمہ الله اور ان کے ساتھی اس بات کو مکروہ جانتے تھے کو کوئی یوں کہے میں تجھ سے فلاں کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں یا انبیاء یا رسولوں اور یا یا بیت الحرام یا معشر الحرام کی وسیلے سے سوال کرتا ہے اور اسی طرح وہ اس کو بھی مکروہ مانتے تھے کے کوئی الله کے عرش کے پایوں کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں مگر امام ابو یوسف رحمہ الله اس کو برا نہیں جانتے تھے شاید ان کے پاس کوئی اثر موجود ہو اور کبھی یوں کہتا ہے تیرے فلاں بندے کے مرتبہ ہے یا یوں کہتا ہے ہم تیرے جانب وسیلہ پیش کرتے ہیں تیرے انبیاء تیرے رسولوں تیرے اولیاء کا، اس سے مراد ہے کہ فلان کا تیری بارگاہ میں مرتبہ و بزرگی اور منزلت ہے تو ہماری دعا قبول کر اور اس طریقہ(دعا) سے پرہیز کرنا چاہیئے کیونکہ اگر اس طرح کا توسل صحابہ کرام رضی اللہ عنم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں کیا ہوتا تو یقینا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بھی اس کو کرتے مگر انہوں نے صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کرنے کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا پر یقین رکھتے تھے (یعنی قبول ضرور ہو گی) جیسا استسقاء وغیرہ کی دعا مگر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا تو عمر رضی اللہ عنہ استسقاء کے لئے نکلے اور فرمایا “ اے اللہ تیری بارگاہ میں تیرے نبی کا وسیلہ پیش کرتے تھے تو ہمیں سراب کرتا تھا اب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کا وسیلہ پیش کرتے ہیں، اس کے معنی دعا اور سفارش کے ہیں اور اس سے مراد وہ وسیلہ نہیں ہے جو بیان ہوا ہے یا مرتبہ کے وسیلہ نہیں ہے اگر اس سے مراد یہ مرتبہ کا وسیلہ ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ عباس رضی اللہ عنہ سے بہت بڑا ہے۔

یہ عبارت شرح عقیدہ الطحاویہ کی ہے اور اس میں اس وسیلہ کو باطل، بدعت اور مکروہ قرار دیا گیا ہے جو آج مسلمانوں کی اکثریت مانتی ہے اور یہ ہمارے ٣٠٠ سال تک کسی ائمہ اربعہ تک سے ثابت نہیں ہے مگر ہمارے آج امت محمدیہ اپنے اسلاف کی تعلیمات سے ہی ناواقف ہے اللہ ہدایت نصیب کرے۔
tariq mehmood
About the Author: tariq mehmood Read More Articles by tariq mehmood: 13 Articles with 36993 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.