اللہ کی راہ میں خرچ کرو

رمضان کا مہینہ پورا ہوچکا تھا ۔عید کا چاند نظر آنے کا اعلان ہوچکا تھا۔ عاقب اور ہادی آج بہت خوش تھے۔ سب لوگ ایک دوسرے کو عید چاند کی مبارک باد دے رہے تھے۔ عاقب اور ہادی کل ہی اپنے والدین کے ساتھ عید کی خریداری کر کے آئے تھے۔ نئے کپڑے، نئے جوتے، نئی گھڑی، نئی عینک سب کچھ آچکا تھا، عاقب تو بہت ہی زیادہ خوش تھا۔ اس نے اس رمضان المبارک میں پانچ روزے رکھے تھے۔ رمضان شریف میں روزانہ عشاء کے بعد وہ اپنی امی جان سے دین کی باتیں سیکھتا تھا، اب اسکے پاس دین کے حوالے سے خاصی معلومات تھیں۔

اس عید پر اس نے اپنے ساتھ ساتھ اپنے دوست باسط کے لئے عید کے نئے جوتے، کپڑے اور دوسری چیزیں خرید کر دیں جسے وہ 25 ویں روزے دیکر آیا تھا، اس کا دل مطمئین تھا کہ اس نے کسی کی مدد کی۔ باسط کے ابو بہت غریب تھے وہ جو کچھ کماتے تھے وہ گھر کے خرچ اور باسط کی والدہ (جو کہ بیمار رہتی تھیں) کی دواؤں پر خرچ ہوجاتے تھے۔ باسط کے والدین اپنا پیٹ کاٹ کر باسط کو تعلیم دلوا رہے تھے۔ عاقب نے اپنی والدہ سے دین کی جو باتیں سیکھی تھیں ان سے وہ اس نتیجہ پر پہنچا تھا کہ دین یہ چاہتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کے کام آئے۔ حضوراکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث کو اس نے اچھی طرح ذہن نشین کرلیا تھا کہ "انسانوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے"۔

چاند رات کو عشاء کی نماز کے بعد سب لوگ عید کی تیاریوں میں مصروف تھے، کوئی کپڑے استری کر رہا ہے، کوئی کمرہ تیار کر رہا ہے، عورتیں مہندی لگارہی ہیں، عاقب کی امی اور اسکی خالہ سویاں پکانے کیلئے کچن میں مصروف ہیں تاکہ صبح عید نماز سے پہلے سویاں تیار ہوجائیں۔ عاقب اور ہادی سونے کی تیاری کررہے تھے۔ انکی امی نے پوچھا کہ آج تو بہت جلدی سونے لگے ہو۔ عاقب نے کہا کہ آج اس لئے جلدی سورہے ہیں تاکہ جلدی سے صبح ہو اور ہم نئے کپڑے پہن کر عید پڑھنے جائیں اور واپس آکر عیدی وصول کریں۔

عید کی صبح سب تیار ہو کر عید کی نماز پڑھنے کیلئے چلے گئے۔ عاقب اور ہادی بھی اپنے ابو کے ساتھ عید نماز کے لئے گئے تھے۔ عاقب کے ابو نے مسجد میں کسی شخص کو پانچ سو روپے دئیے اور اس سے رسید حاصل کی اور پھر عید کی نماز پڑھی۔ اسی طرح اور لوگ بھی اسے پیسے جمع کروا رہے تھے۔ عاقب کے ذہن میں فوراً سوال آیا کہ لوگ پیسے کیوں دے رہے ہیں؟ عید کی نماز پڑھنے کے بعد سب لوگ ایک دوسرے سے گلے ملے عید کی مبارکباد دی۔ عاقب اور ہادی بھی اپنے کزنز اور دوستوں سے عید ملے۔ پھر گھر آکر عیدی وصول کرنا شروع کی۔ تمام دن عید کی خوشیاں منانے میں مصروف گزرا۔

رات کو جب سب لوگ سونے کی تیاری کرنے لگے توعاقب نے اپنی امی کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ امی نے پوچھا عاقب کیا بات ہے۔ عاقب جو سوال صبح سے ذہن میں لیے گھوم رہا تھا وہی سوال اس نے امی سے پوچھا کہ صبح عید کی نماز سے پہلے مسجد میں لوگ پیسے کیوں جمع کروا رہے تھے؟ عاقب کی امی نے اسے بتلایا کہ یہ صدقہ فطر ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے ذمہ لگایا ہے کہ جو مالدار لوگ ہیں وہ اپنے گھر کے تمام لوگوں کی طرف سے ہر ایک کے حصہ کا ڈھائی کلو گندم یا کسی اور جنس کے برابر رقم اللہ کی راہ میں خرچ کریں۔ یہ رقم عید کی نماز سے پہلے پہلے ادا کرنا ضروری ہے۔

عاقب نے پوچھا اللہ ہمیں پالتا ہے، اللہ ہمیں رزق دیتا ہے تو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا کیا مطلب ہے؟ عاقب کی امی نے بتلایا کہ معاشرہ میں مالدار لوگ بھی ہوتے ہیں اور غریب بھی۔ اللہ تعالیٰ نے مالدار لوگوں پر فرض کیا ہے کہ وہ غریبوں کی مدد کریں۔ ان غریبوں کو اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے میں انکی مدد کریں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں حکم دیا ہے کہ” تمہارے مالوں پر محروم اور سوال کرنے والوں کا حق ہے“۔ تو جب ہم ان کا حق ادا کرتے ہیں یہی اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔

عاقب نے پوچھا کہ اگرہم اللہ کی راہ میں خرچ نہ کریں تو کیا ہوتا ہے؟ امی بولیں کہ دراصل مال ایسی چیز ہے جس کو انسان محنت سے کماتا ہے اور اس سے اپنی ضروریات پوری کرتا ہے جن لوگوں کو اللہ نے عقل اور صلاحیت زیادہ دی ہے وہ باقی لوگوں کی نسبت زیادہ کماتے ہیں۔ انسان کو اپنی کمائی ہوئی دولت سے محبت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ مال کو بلاضرورت جمع کرنا شروع کردیتا ہے ہم نے قرآن حکیم کا تیسواں پارہ پڑھا ہے۔ اس کے درمیان میں سورة الفجر میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ”تم مال و دولت سے بہت ہی محبت رکھتے ہو“۔ پھر اسی پارہ کے آخر میں سورة حمزہ میں ہے کہ “پھٹکار ہو ہر غیبت کرنے والے عیب کرنے والے پر جس نے دولت اکٹھی کی، اور اس کو گن گن کر رکھا، سمجھتا ہے کہ یہ دولت اس کو ہمیشہ رکھے گی“۔ عاقب کی امی نے کہا کہ اس سے دولت آہستہ آہستہ چند لوگوں کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے اور معاشرہ کے لوگ دولت سے محروم ہوجاتے ہیں جس سے وہ اپنے بچوں کیلئے کما نہیں سکتے انہیں پڑھا نہیں سکتے اگر بیمار ہوجائیں تو ان کا علاج نہیں کرواسکتے۔ اس سے معاشرہ میں بھوک، محرومی اور جہالت پھیلتی ہے ۔

حضوراکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ” غربت انسان کو کفر تک لیجاتی ہے“یعنی محروم اور نادار شخص اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے قانون توڑنا شروع کرتا ہے، وہ چوری، رشوت، لوٹ مار، دھوکہ، فراڈ، ملاوٹ اور قتل وغارت گری شروع کردیتا ہے۔ اس سے پورے معاشرے میں بدامنی پھیل جاتی ہے۔ پھر اس سے کوئی بھی شخص محفوظ نہیں رہتا۔ خود مالدار بھی اپنی حفاظت کیلئے لوگوں کو محافظ رکھتے ہیں، اپنے آنے جانے کے راستوں پر پہریدار بٹھاتے ہیں، ان کاموں پر بھاری خرچ اٹھاتے ہیں مگر یہی مال وہ اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، عاقب کی امی نے بتلایا کہ اس دنیا میں جس کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سب اللہ کا دیا ہوا ہے وہی تمام چیزوں کا مالک ہے اللہ نے فرمایا” (اے لوگو) تم کو کیا ہوا ہے جو خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے اور آسمانوں اور زمین کی میراث اللہ ہی کی ہے “(حدید۔10)۔”اور خدا کا ہی جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں ہے “۔ آسمانوں اور زمین کی ملکیت (بادشاہت) اسی خدا کی ہے اور تم کو کون روزی دیتا ہے۔ آسمان سے اور زمین سے؟ اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا ہے؟ (نمل ۔64)۔ بے شبہ اللہ وہی ہے جو اللہ روزی دینے والا، زور آور اور مضبوط ہے “(ذاریِت ۔85)۔

عاقب نے پوچھا کہ جب اللہ تعالیٰ مال خرچ کرنے کا حکم دیتے ہیں تو پھر لوگ مال کیوں جمع کر کے رکھتے ہیں؟ اور معاشرہ میں غربت پھیلاتے ہیں؟ امی نے اسے سمجھایا کہ انسان کے دل میں شیطان یہ خیال پیدا کرتا ہے کہ اگر یہ مال خرچ کیا توختم ہوجائے گا اور وہ محتاج ہوجائے گا قرآن میں ہے کہ شیطان تم کو محتاجی کا خیال دلاتا ہے اور تمہیں بے حیائی کی بات (بخل) کہتا ہے اور خدا تم سے اپنی طرف سے گناہوں کی بخشائش اور فضل و کرم کا وعدہ کرتا ہے اور اللہ کشائش والا ہے، جانتاہے “۔ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم باندھو نہیں ورنہ تم پر باندھا جائے گا۔“ یعنی اگر تم اپنی (دولت کی) تھیلی کا منہ بند کرو گے اور دوسروں کو نہ دو گے، تو خدا بھی اپنی تھیلی کا منہ بند کرے گا اور تم کو نہیں دے گا۔ امی نے عاقب کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک دفعہ حضور صلی اﷲ علیہو آلہ وسلم نے قرآن حکیم کے تیسویں پارہ کی سورة التکاثر کی یہ آیت پڑھی تم کو مال ودولت اور ناز و نعمت کی بڑھوتی نے ہلاکت میں ڈال دیا “ پھر فرمایا کہ آدم کے بیٹے کا یہ حال ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میرا مال، میرا مال اور(جبکہ اے انسان) تیرا مال تو وہی ہے جو تو نے صدقہ کیا، اور آگے چلایا جو کھا لیا اس کو تو فنا کر چکا اور جو پہن لیا اس کو تو پرانا کرچکا۔“ عاقب کی امی نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کے کام ہمیشہ کیلئے وہی مال آتا ہے جو وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔

عاقب نے امی سے پوچھا کہ اس طرح تو معاشرے میں ایک طبقہ صرف مانگنے میں لگا رہے گا یعنی گداگر بن جائے؟ اس طرح ہمارے معاشرے کے لوگ نکمے، کام چور اور ذلت کے ساتھ ہاتھ پھیلانے والے بن جائِیں گے، اور دینے والوں کے احسان مند رہیں گے۔ یہ سوچ کے کہ ہم امیروں سے لے لیں گے وہ کوئی کام نہیں کریں گے؟ اس کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے؟ عاقب کی امی نے کہا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے حوالے سے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم خرچ کرو تو کسی پر احسان نہ جتلاؤ “پھر ایک جگہ فرمایا کہ جب تم کسی کی مدد کروہ تو اسطرح کہ دائیں ہاتھ سے دیتے ہوئے بائیں ہاتھ کو پتہ نہ چلے “پھر حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے“ اس لئے اللہ کی راہ میں خرچ کا طریقہ یہ ہے کہ تم کسی شخص کو کوئی چھوٹا موٹا کاروبار ڈال دو تاکہ کچھ عرصہ کے بعد وہ خود دینے والا بن جائے اور کسی کا محتاج نہ رہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اپنے مالداروں سے ان کے عطیات، صدقات کی رقم لے کر اکٹھی کرے اور اس سے کارخانہ لگائے اور ان کارخانوں میں ان لوگوں کو کام دے جو ضرورت مند ہیں یعنی ان پیسوں کے حقدار ہیں۔ ان کام کرنے والوں کو ان کارخانوں میں حصہ دار بنائے۔ اس طرح کچھ عرصہ کے بعد ہمارے ملک میں غربت ختم ہوجائے گی۔ آج ہمارا ہمسایہ ملک چین اسی طرح کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے ملک میں کوئی بیروزگار نہیں۔ کوئی شخص بھوکا نہیں سوتا اور سب لوگ محنت سے کام کرتے ہیں۔ پوری دنیا اس ملک کی عزت کرتی ہے۔

عاقب کی امی نے ایک واقعہ کی طرف متوجہ کرتے ہوئے بتلایا کہ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک انصاری صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آئے اور کچھ سوال کیا۔ آپ نے فرمایا تمہارے پاس کچھ نہیں؟ وہ بولے کہ بس ایک بچھونا ہے جس کا کچھ حصہ اوڑھ لیتا اور کچھ بچھا لیتا ہوں اور ایک پانی پینے کا پیالہ ہے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں چیزیں منگوائیں پھر فرمایا یہ چیزیں کون خریدتا ہے؟ ایک صحابی نے دو درہم میں خرید لیں۔ آپ نے درہم انصاری کو دئیے اور کہا کہ ایک درہم کا کھانا خرید کر گھر دے آؤ اور دوسرے سے رسی خریدو (بعض جگہ پر ہے کہ کلہاڑا خریدنے کا کہا) اور جنگل سے لکڑیاں لا کر شہر میں بیچو، پندرہ دن کے بعد وہ انصاری آپ کی خدمت اقدس میں آئے تو دس درہم ان کے پاس جمع ہوگئے تھے۔ انصاری صحابی نے ان پیسوں سے اپنے گھر کیلئے کپڑا خریدا، کچھ غلہ مول لے لیا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایاکہ یہ کمانا اچھا ہے یا یہ کہ قیامت میں چہرہ پر گدائی (مانگنے) کا داغ لگا کر جائے “ ۔ دیکھا حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مانگنے کو برا کہا اور محنت کی طرف توجہ دلائی۔ گداگری کا پیشہ اسلام میں قابل نفرت سمجھا جاتا ہے۔ مانگنے کو پیشہ بنانا جرم ہے اور حرام ہے ۔عاقب کی امی نے بتایا حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پر بننے والے نظام کا ہی اثر تھا کہ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی خلافت میں کوئی شخص غریب نہیں رہا۔ سب لوگ خوشحال ہوگئے اگر ہمارے ملک کے لوگ بھی مل بانٹ کر کھائیں تو ہمارا ملک بھی خوشحال ہوجائے گا اور کوئی غریب نہیں رہے گا۔ اللہ ہمارے ملک کی حفاظت فرمائے۔ (آمین)۔
rasheed ahmad
About the Author: rasheed ahmad Read More Articles by rasheed ahmad: 11 Articles with 16179 views Ph.D Scholar
Department of Islamic Studies
Bahauddin Zakariyya University, Multan
.. View More