ادبِ مصطفی ﷺ ہی حقیقت میں ایمان ہے

عزت وتوقیر کاحکم:
اﷲ تعالی نے قرآن حکیم میں آپ ﷺ کی عزت وتوقیر اورنصرت ومدد کاحکم دیا فرمایا
لِّتُؤْمِنُوْا بِاﷲِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُط وَتُسَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًاo
(فتح ،۴۸:۹)
تاکہ (اے لوگو!) تم اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور آپ (ﷺ کے دین) کی مدد کرو اور آپ ﷺ کی بے حد تعظیم و تکریم کرو، اور (ساتھ) اﷲ کی صبح و شام تسبیح کروo
تعزیراس ہے جونبی اکرم ﷺ کی نصرت تائید اورحفاظت کوجامع ہے اورتوقیر ہراس چیز کوشامل ہے جس میں سکونیت طمانیت اوراجلال واکرام ہو، نیز تشریف وتکریم کامعاملہ ہواور ہراس چیز سے حفاظت کاسامان ہوجوانسان کوحدوقارسے خارج کرتی ہے۔
ادب مصطفی ﷺ میں اﷲ تعالی کا حضورﷺ کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ کہنا
اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اﷲَط یَدُ اﷲِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْج فَمَنْ نَّکَثَ فَاِنَّمَا یَنْکُثُ عَلٰی نَفْسِہٖج وَمَنْ اَوْفٰی بِمَا عٰـھَدَ عَلَیْہُ اﷲَ فَسَیُؤْتِیْہِ اَجْرًا عَظِیْمًاo
فتح ،۴۸:۱۰
(اے حبیب!) بے شک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اﷲ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اﷲ کا ہاتھ ہے۔ پھر جس شخص نے بیعت کو توڑا تو اس کے توڑنے کا وبال اس کی اپنی جان پر ہوگا اور جس نے (اس) بات کو پورا کیا جس (کے پورا کرنے) پر اس نے اﷲ سے عہد کیا تھا تو وہ عنقریب اسے بہت بڑا اجر عطا فرمائے گاo
حضور ِ اکرم ﷺکونام سے پکارنے کی ممانعت :
جب آقائے دوجہاں ﷺ کومخاطب کرنے کاوقت آیا توانداز خطاب اوراسلوب قرآن بدل گیا حضور ﷺ کوذاتی نام مبارک کی بجائے مختلف صفات والقاب سے مخاطب کیاکبھی یاایھاالنبی ، یاایھالرسول ،فرماکر اپنے محبوب کویادکیا ،یاایھا المزمل ،کبھی ایاایھالمدثر کے پیار بھرے الفاظ سے پکارا اورکبھی طہٰ ،یسین کہہ کر مخاطب کیا گویا حضور ﷺ کی تعظیم وتکریم اورتوقیر بجالانا تعلیمات قرآن کی تعمیل ہے۔

نبی آخرالزمان ﷺ کو خطاب سے اختصاص:
اﷲ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کوآپ کے شایان شان خطاب سے مختص فرمایا اس لئے فرمایا ۔
لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَکُمْ کَدُعَآءِ بَعْضِکُمَ بَعْضًاط قَدْ یَعْلَمُ اﷲُ الَّذِیْنَ یَتَسَلَّلُوْنَ مِنْکُمْ لِوَاذًاج فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ اَنْ تُصِیْبَہُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیْبَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌo نور،۲۴:۶۳
(اے مسلمانو!) تم رسول کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی مثل قرار نہ دو (جب رسولِ اکرم ﷺ کو بلانا تمہارے باہمی بلاوے کی مثل نہیں تو خود رسول ﷺ کی ذاتِ گرامی تمہاری مثل کیسے ہو سکتی ہے)، بے شک اﷲ ایسے لوگوں کو (خوب) جانتا ہے جو تم میں سے ایک دوسرے کی آڑ میں (دربارِ رسالت سے) چپکے سے کھسک جاتے ہیں، پس وہ لوگ ڈریں جو رسول (ﷺ) کے امرِ (ادب) کی خلاف ورزی کر رہے ہیں کہ (دنیا میں ہی) انہیں کوئی آفت آ پہنچے گی یا (آخرت میں) ان پر دردناک عذاب آن پڑے گاo
اس طرح اﷲ تعالی نے لوگوں کویامحمد،یااحمد یااباالقاسم پکارنے سے منع فرمایا اورخطاب میں یارسول اﷲ ،یانبی اﷲ کہنے کی تلقین کی اورایسا کیوں کہ ہو جبکہ خود سبحانہ وتعالی نے آپ ﷺ کوایسے القابات سے یادفرمایا جن سے کسی اورپیغمبر کوخطاب نہیں کیا قرآن حکیم میں کہیں آپ ﷺ کونام لے کر نہیں پکارا بلکہ یاایھا النبی ،یاایھا الرسول یاایھا المدثر ،یاایھا المزمل کہہ کر خطاب کیا۔
یٰٓـاَ یَُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ اِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَہَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْکُنَّ وَاُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًاo احزاب ،۳۳:۲۸
اے نبیِ (مکرَّم!) اپنی ازواج سے فرما دیں کہ اگر تم دنیا اور اس کی زینت و آرائش کی خواہش مند ہو تو آؤ میں تمہیں مال و متاع دے دوں اور تمہیں حسنِ سلوک کے ساتھ رخصت کر دوںo
یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِّـاَزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّط ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَـلَا یُؤْذَیْنَط وَکَانَ اﷲُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاo
الاحزاب،۳۳:۵۹
اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ (باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں، یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں (کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں) پھر انہیں (آوارہ باندیاں سمجھ کر غلطی سے) ایذاء نہ دی جائے، اور اﷲ بڑا بخشنے والا بڑا رحم فرمانے والا ہےo
یٰـٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّـآ اَرْسَلْنٰـکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًاo الاحزاب،۳۳:۴۵
اے نبِیّ (مکرّم!) بے شک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہےo؂
یٰٓـاَیُّہَاالنَّبِیُّ اِنَّآ اَحْلَلْنَا لَکَ اَزْوَاجَکَ الّٰتِیْٓ اٰتَیْتَ اُجُوْرَہُنَّ وَمَا مَلَکَتْ یَمِیْنُکَ مِمَّآ اَفَآءَ اﷲُ عَلَیْکَ وَبَنٰتِ عَمِّکَ وَبَنٰتِ عَمّٰتِکَ وَبَنٰتِ خَالِکَ وَبَنٰتِ خٰلٰتِکَ التِّٰیْ ہَاجَرْنَ مَعَکَز وَامْرَاَۃً مُّؤْمِنَۃً اِنْ وَّہَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِیِّ اِنْ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنْ یَّسْتَنْکِحَہَاق خَالِصَۃً لَّکَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَط قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَیْہِمْ فِیْٓ اَزْوَاجِہِمْ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ لِکَیْلَا یَکُوْنَ عَلَیْکَ حَرَجٌط وَکَانَ اﷲُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاo الاحزاب،۳۳:۵۰
اے نبی! بے شک ہم نے آپ کے لیے آپ کی وہ بیویاں حلال فرما دی ہیں جن کا مہَر آپ نے ادا فرما دیا ہے اور جو (احکامِ الٰہی کے مطابق) آپ کی مملوک ہیں، جو اﷲ نے آپ کو مالِ غنیمت میں عطا فرمائی ہیں، اور آپ کے چچا کی بیٹیاں، اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں، اور آپ کے ماموں کی بیٹیاں، اور آپ کی خالاؤں کی بیٹیاں، جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے اور کوئی بھی مؤمنہ عورت بشرطیکہ وہ اپنے آپ کو نبی (ﷺ کے نکاح) کے لیے دے دے اور نبی (ﷺ بھی) اسے اپنے نکاح میں لینے کا ارادہ فرمائیں (تو یہ سب آپ کے لیے حلال ہیں)، (یہ حکم) صرف آپ کے لیے خاص ہے (امّت کے) مومنوں کے لیے نہیں، واقعی ہمیں معلوم ہے جو کچھ ہم نے اُن (مسلمانوں) پر اُن کی بیویوں اور ان کی مملوکہ باندیوں کے بارے میں فرض کیا ہے، (مگر آپ کے حق میں تعدّدِ ازواج کی حِلّت کا خصوصی حکم اِس لیے ہے) تاکہ آپ پر (امتّ میں تعلیم و تربیتِ نسواں کے وسیع انتظام میں) کوئی تنگی نہ رہے، اور اﷲ بڑا بخشنے والا بڑا رحم فرمانے والا ہےo
یٰٓـاَیُّہَا النَّبِیُّ اتَّقِ اﷲَ وَلَا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَالْمُنٰـفِقِیْنَط اِنَّ اﷲَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًاo الاحزاب،۳۳:۱
اے نبی! آپ اﷲ کے تقویٰ پر (حسبِ سابق استقامت سے) قائم رہیں اور کافروں اور منافقوں کا (یہ) کہنا (کہ ہمارے ساتھ مذہبی سمجھوتہ کر لیں ہرگز) نہ مانیں، بے شک اﷲ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہےo
یٰٓـاَیُّھَا النَّبِيُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْھُنَّ لِعِدَّتِھِنَّ وَاَحْصُوا الْعِدَّۃَج وَاتَّقُوا اﷲَ رَبَّکُمْج لَا تُخْرِجُوْھُنَّ مِنْم بُیُوْتِہِنَّ وَلَا یَخْرُجْنَ اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍط وَتِلْکَ حُدُوْدُ اﷲِط وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اﷲِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗط لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اﷲَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًاo الطلاق،۶۵:۱
اے نبی! (مسلمانوں سے فرما دیں) جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو اُن کے طُہر کے زمانہ میں انہیں طلاق دو اور عِدّت کو شمار کرو، اور اﷲ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے، اور انہیں اُن کے گھروں سے باہر مت نکالو اور نہ وہ خود باہر نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کر بیٹھیں، اور یہ اﷲ کی (مقررّہ) حدیں ہیں، اور جو شخص اﷲ کی حدود سے تجاوز کرے تو بے شک اُس نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے، (اے شخص!) تو نہیں جانتا شاید اﷲ اِس کے (طلاق دینے کے) بعد (رجوع کی) کوئی نئی صورت پیدا فرما دےo
یٰٓـاَ یُّہَاالنَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اﷲُ لَکَج تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِکَط وَاﷲُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo تحریم ،۶۶:۱
اے نبئ (مکرّم!) آپ خود کو اس چیز (یعنی شہد کے نوش کرنے) سے کیوں منع فرماتے ہیں جسے اﷲ نے آپ کے لیے حلال فرما رکھا ہے۔ آپ اپنی ازواج کی (اس قدر) دلجوئی فرماتے ہیں، اور اﷲ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہےo
یٰٓاَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَط وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗط وَاﷲُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِط اِنَّ اﷲَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَo
المائدہ،۵:۶۷
اے (برگزیدہ) رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (وہ سارالوگوں کو) پہنچا دیجیے، اور اگر آپ نے (ایسا) نہ کیا تو آپ نے اس (ربّ) کا پیغام پہنچایا ہی نہیں، اور اﷲ (مخالف) لوگوں سے آپ (کی جان) کی (خود) حفاظت فرمائے گا۔ بے شک اﷲ کافروں کو راہِ ہدایت نہیں دکھاتاo
یٰـٓاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُoقُمِ الَّیْلَ اِلاَّ قَلِیْلاًo المزمل،۷۳:۱۔۲
اے کملی کی جھرمٹ والے (حبیب!)oآپ رات کو (نماز میں) قیام فرمایا کریں مگر تھوڑی دیر (کے لیے)o
یٰٓااَیُّھَا الْمُدَّثِّرُoقُمْ فَاَنْذِرْo المدثر،۷۴:۱۔۲
اے چادر اوڑھنے والے (حبیب!)oاُٹھیں اور (لوگوں کو اﷲ کا) ڈر سنائیںo
یٰٓـاَیُّھَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اﷲُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَo الانفال،۸:۶۴
اے نبی (معّظم!) آپ کے لیے اﷲ کافی ہے اور وہ مسلمان جنہوں نے آپ کی پیروی اختیار کر لیo
جبکہ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے دوسرے انبیائے کرام کونام لے کر خطاب فرمایا۔
قَالَ یٰـاٰدَمُ اَنْبِئْھُمْ بِاَسْمَآئِھِمْج فَـلَمَّآ اَنْبَاَھُمْ بِاَسْمَآئِھِمْ قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّـکُمْ اِنِّیْٓ اَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِلا وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَo
البقرہ،۲:۳۳
اﷲ نے فرمایا: اے آدم! (اب تم) انہیں ان اشیاء کے ناموں سے آگاہ کرو، پس جب آدمؑ نے انہیں ان اشیاء کے ناموں سے آگاہ کیا تو (اﷲ نے) فرمایا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی (سب) مخفی حقیقتوں کو جانتا ہوں، اور وہ بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہوo
وَقُلْنَا یٰٓـاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ وَکُـلَا مِنْہَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا وَلاَ تَقْرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَo البقرہ،۲:۳۵
اور ہم نے حکم دیا اے آدم! تم اور تمہاری بیوی اس جنت میں رہائش رکھو اور تم دونوں اس میں سے جو چاہو، جہاں سے چاہو کھاؤ، مگر اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ حد سے بڑھنے والوں میں (شامل) ہو جاؤ گےo
قَالَ یٰـنُوْحُ اِنَّـہٗ لَیْسَ مِنْ اَھْلِکَج اِنَّـہٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ فَـلَا تَسْئَلْنِ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌط اِنِّیْٓ اَعِظُکَ اَنْ تَکُوْنَ مِنَ الْجٰھِلِیْنَo ھود،۱۱:۴۶
ارشاد ہوا: اے نوح! بے شک وہ تیرے گھر والوں میں شامل نہیں کیوں کہ اس کے عمل اچھے نہ تھے پس مجھ سے وہ سوال نہ کیا کرو جس کا تمہیں علم نہ ہو، میں تمہیں نصیحت کیے دیتا ہوں کہ کہیں تم نادانوں میں سے (نہ) ہو جاناo
قَالَ یٰـمُوْسٰٓی اِنِّی اصْطَفَیْتُکَ عَلَی النَّاسِ بِرِسٰلٰتِیْ وَبِکَلَامِیْزصلے فَخُذْ مَآ اٰتَیْتُکَ وَکُنْ مِّنَ الشّٰکِرِیْنَo الاعراف،۷:۱۴۴
ارشاد ہوا: اے موسیٰ! بے شک میں نے تمہیں لوگوں پر اپنے پیغامات اور اپنے کلام کے ذریعے برگزیدہ و منتخب فرما لیا۔ سو میں نے تمہیں جو کچھ عطا فرمایا ہے اسے تھام لو اور شکر گزاروں میں سے ہو جاؤo
اِذْ قَالَ اﷲُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ اذْکُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْکَ وَعَلٰی وَالِدَتِکَم اِذْ اَیَّدْتُّکَ بِرُوْحِ الْقُدُسِقف تُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَھْدِ وَکَھْلًاج وَاِذْ عَلَّمْتُکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَالتَّوْرٰۃَ وَالْاِنْجِیْلَج وَاِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّیْنِ کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ بِاِذْنِیْ فَتَنْفُخُ فِیْھَا فَتَکُوْنُ طَیْرًام بِاِذْنِیْ وَتُبْرِِئُ الْاَکْمَہَ وَالْاَبْرَصَ بِاِذْنِیْج وَاِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰی بِاِذْنِیْج وَاِذْ کَفَفْتُ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ عَنْکَ اِذْ جِئْتَھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْہُمْ اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌo
المائدہ،۵:۱۱۰
جب اﷲ فرمائے گا: اے عیسیٰ ابن مریم! تم اپنے اوپر اور اپنی والدہ پر میرا احسان یاد کرو جب میں نے پاک روح (جبرائیل) کے ذریعے تمہیں تقویت بخشی، تم گہوارے میں (بعہدِ طفولیت) اور پختہ عمری میں (بعہدِ تبلیغ و رسالت یکساں انداز سے) لوگوں سے گفتگو کرتے تھے اور جب میں نے تمہیں کتاب اور حکمت (و دانائی) اور تورات اور انجیل سکھائی اور جب تم میرے حکم سے مٹی کے گارے سے پرندے کی شکل کی مانند (مورتی) بناتے تھے پھر تم اس میں پھونک مارتے تھے تو وہ (مورتی) میرے حکم سے پرندہ بن جاتی تھی اور جب تم مادرزاد اندھوں اور کوڑھیوں (یعنی برص زدہ مریضوں) کو میرے حکم سے اچھا کر دیتے تھے، اور جب تم میرے حکم سے مُردوں کو (زندہ کر کے قبر سے) نکال (کھڑا کر) دیتے تھے اور جب میں نے بنی اسرائیل کو تمہارے (قتل) سے روک دیا تھا جب کہ تم ان کے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے تو ان میں سے کافروں نے (یہ) کہہ دیا کہ یہ تو کھلے جادو کے سوا کچھ نہیںo
اِنَّ ھٰذَآ اَخِیْقف لَہٗ تِسْعٌ وَّتِسْعُوْنَ نَعْجَۃً وَّلِیَ نَعْجَۃٌ وَّاحِدَۃٌقف فَقَالَ اَکْفِلْنِیْھَا وَعَزَّنِیْ فِی الْخِطَابِo ص،۳۸:۲۳
بے شک یہ میرا بھائی ہے، اِس کی ننانوے دُنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک ہی دُنبی ہے پھر کہتا ہے یہ (بھی) میرے حوالہ کر دو اور گفتگو میں (بھی) مجھے دبا لیتا ہےo
امم سابقہ اپنے انبیاء کونام لے کر پکارا کرتیں ۔
حضور ﷺ کی تعظیم وتوقیر اورآپ کی جناب میں کلمات ادب عرض کرنا تقاضائے ایمان ہے جس کلمہ میں ترک ادب کاشائبہ ہووہ زبان پرلانا بھی ممنوع وحرام ہے ،یہی تعلیمات قرآن کامغز اورخلاصہ ہے قرآن حکیم نے ہرمقام پر آقائے دوجہاں کی عزت وتوقیر اورتعظیم وتکریم کاپاس ولحاظ رکھاہے پورے قرآن میں اﷲ رب العزت نے کسی بھی مقام پر حضور ﷺ کو ذاتی نام سے نہیں پکارا جبکہ دیگر انبیاء علھیم السلام کی جب بھی باری آئی توانہیں ذاتی نام سے یوں مخاطب کیافرمایا۔
وَقُلْنَا یٰٓـاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ وَکُـلَا مِنْہَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا وَلاَ تَقْرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَo (البقرہ ،۲:۳۵)
اور ہم نے حکم دیا اے آدم! تم اور تمہاری بیوی اس جنت میں رہائش رکھو اور تم دونوں اس میں سے جو چاہو، جہاں سے چاہو کھاؤ، مگر اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ حد سے بڑھنے والوں میں (شامل) ہو جاؤ گےo
قِیْلَ یٰــنُوْحُ اھْبِطْ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَبَـرَکٰتٍ عَلَیْکَ وَعَلٰٓی اُمَمٍ مِّمَّنْ مَّعَکَط وَاُمَمٌ سَنُمَتِّعُھُمْ ثُمَّ یَمَسُّہُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیْمٌo ھود،۱۱:۴۸
فرمایا گیا: اے نوح! ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ (کشتی سے) اتر جاؤ جو تم پر ہیں اور ان طبقات پر ہیں جو تمہارے ساتھ ہیں، اور (آئندہ پھر) کچھ طبقے ایسے ہوں گے جنہیں ہم (دنیوی نعمتوں سے) بہرہ یاب فرمائیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب آ پہنچے گاo
یٰٓـاِبْرٰھِیْمُ اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَاج اِنَّـہٗ قَدْ جَآءَ اَمْرُ رَبِّکَج وَاِنَّھُمْ اٰتِیْھِمْ عَذَابٌ غَیْرُ مَرْدُوْدٍo ھود،۱۱:۷۶
(فرشتوں نے کہا:) اے ابراہیم! اس (بات) سے درگزر کیجیے، بے شک اب تو آپ کے رب کا حکمِ (عذاب) آچکا ہے، اور انہیں عذاب پہنچنے ہی والا ہے جو پلٹایا نہیں جا سکتاo
یٰزَکَرِیَّآ اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمِنِ اسْمُہٗ یَحْیٰی لَمْ نَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّاo
مریم ،۱۹:۷
(ارشاد ہوا) اے زکریا! بے شک ہم تمہیں ایک لڑکے کی خوشخبری سناتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہوگا ہم نے اس سے پہلے اس کا کوئی ہم نام نہیں بنایاo
یٰـیَحْیٰی خُذِ الْکِتٰبَ بِقُوَّۃٍط وَاٰتَیْنٰـہُ الْحُکْمَ صَبِیًّاo
مریم ،۱۹:۱۲
اے یحییٰ! (ہماری) کتاب (تورات) کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور ہم نے انہیں بچپن ہی سے حکمت و بصیرت (نبوت) عطا فرما دی تھیo
۱۔ رسول اﷲ ﷺ سے سبقت کی ممانعت:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اﷲِ وَرَسُوْلِہِ۔
الحجرات،۴۹:۱
’’ اے ایمان والو! (کسی بھی معاملے میں) اﷲ اور اس کے رسول (ﷺ) سے آگے نہ بڑھا کرو۔‘‘
ایمان والوں کو اﷲ تعالیٰ نے منع فرما دیا کہ وہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ پر سبقت نہیں کر سکتے بلکہ ہر کام اﷲ تعالیٰ اور رسول ﷺ کے حکم کے ماتحت رہ کر سر انجام دیں گے۔
۲۔ ادب رسول ﷺ میں خوف خدا کو ملحوظ رکھنا:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
پس جب یہ نہی ایسی جگہ پائی جارہی ہوجہاں اذیت رسول ﷺ کاگمان ہوخواہ وہاں حقیقتاً اذیت رسول ﷺ کاپہلو پایاجائے یانہ پایا جائے تومنہی عنہ دوقسم پرمشتمل ہوا۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اﷲِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اﷲَط اِنَّ اﷲَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌo(۲) لحجرات،۴۹:۱
’’ اے ایمان والو! (کسی بھی معاملے میں) اﷲ اور اس کے رسول ﷺ سے آگے نہ بڑھا کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو (کہ کہیں رسول ا کی بے ادبی نہ ہوجائے)، بے شک اﷲ (سب کچھ) سننے والا خوب جاننے والا ہے۔‘‘
۳۔ نبی ﷺ کو اونچی آواز سے پکارنے کی ممانعت:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰـٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ۔
الحجرات،۴۹:۲
’’ اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبی مکرّم ﷺ کی آواز سے بلند مت کیا کرو۔‘‘
علامہ شوقانی رفع صوت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں۔
لاترفعو اصواتکم الی حدیکون فوق یاویبلغہ صوت النبی
فتح القدیرل۵:۵۹
تم اپنی آوازوں کواس حد تک بلند نہ کرو کہ نبی کریم ﷺ کی آواز سے بلند ترہوجائیں۔
مجلس مصطفوی ﷺ میں بیٹھنے سے پہلے آداب کوملوظ خاطر رکھنا چاہے کہ آقاعلیہ السلام آواز کی حدسے کسی کی آواز تجاوز نہ کرنے پائے بلکہ نہایت ہی پروقار اورمؤدب طریقے سے آہستہ آہستہ آواز میں حضورﷺ سے مخاطب ہواجائے تاکہ کلام مصطفی ﷺ ہرکسی کی گفتگو سے بلند ہوجائے اورآپ سے مخاطبت ایسے انداز میں ہو جیسے کوئی سرگوشی کررہاہو۔
امام احمد المنیر سکندری حاشیہ کشاف میں لکھتے ہیں کہ اس آیہ کریمہ میں مطلعقاً رفع صوت سے منع کیاگیاہے۔ اوراﷲ رب العزت نے یہاں بطورنہی رفع صوت سے ممانعت فرمائی ہے اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ وہ چیز اذیت رسول اﷲ ﷺکاباعث ہے ۔ اس سے بچنا چاہیے اوریہی قاعدہ اصول ہے کہ حضور ﷺ کی اذیت کفر تک پہنچاتی ہے اوربالاتفاق اعمال کے ضیاع کاباعث ہے۔
۴۔ حضور ﷺ سے بے تکلفی کی ممانعت:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَا تَجْہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ۔ الجرات ،۴۹؛۴
’’ اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو۔‘‘
۵۔ اپنی آواز کو نبی ﷺ کی آواز سے نیچا رکھنے کا حکم:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَہُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اﷲِ۔
الحجرات،۴۹،۳
’’ بے شک جو لوگ رسول اﷲ ﷺ کی بارگاہ میں (ادب و نیاز کے باعث) اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں۔‘‘
۶۔ حضور ﷺ کو حجروں کے باہر سے پکارنے کی ممانعت:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَکَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَکْثَرُھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَo
الحجرات،۴۹،۴
’’ بے شک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر (آپ کے بلند مقام و مرتبہ اور آدابِ تعظیم کی) سمجھ نہیں رکھتے۔‘‘
آیہ مبارکہ کاشان نزول :
ایک دفعہ بنی تمیم کاوفد جوستر اسی نفوس پرمشتمل تھا۔مدینہ طیبہ آیا اس وفد میں زبرقان بن بدرعطار ربن حاجب اورتیس ان عاصم ان کے سرداربھی تھے دوپہر کاوقت تھا سرورعالم ﷺ اپنے حجرہ مبارکہ میں قیلولہ فرمارہے تھے ۔ ان لوگوں نے حضور ﷺ کی آمد تک انتظار کواپنی شان کے خلاف سمجھا اورباہر کھڑے ہوکی صدائیں لگانے لگے حضور ﷺ کانام نامی لے کرکہنے لگے ہمارے پاس باہر آئیے حضور ﷺ تشریف لے آئے توان لوگوں نے شیخی بکھارتے ہوئے کہا ہم جس کی مدح کرتے ہیں اسے مزین کردیتے ہیں جس کی مذمت کرتے ہیں اس کومعیوب بنادیتے ہیں ہم تمام عربوں سے اشرف ہیں حضور ﷺ نے فرمایا اے بنی تمیم تم نے غلط بیانی سے کام لیاہے ۔بلکہ اﷲ تعالی کی مدح باعث زینت ہے اوراس کی ہی مذمت باعث تحقیرہے اورتم سے اشرف حضرت یوسف ہیں پھر انہوں نے کہا ہم مفاخرت کی غرض سے آئے ہیں ۔چنانچہ پہلے ان کاخطیب عاروبن حاجب کھڑا اوراپنے قبیلے کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملادئیے اوراپنی فصاحت وبلاغت کامظاہرہ کیا۔
حضور ﷺ نے ثابت ؓ ابن قیس کواس کاجواب دینے کاحکم دیاہے مکتب نبوت کایہ تلمیذارشد جب اوربکشا ہواتوان کے چکھے چھوٹ گے اور وہ سہم گئے۔
اسکے بعد ان کاشاعر برقان بن بدر کھڑا ہوا اوراپنی قوم کی مدح میں ایک قصیدہ پڑھ ڈالا۔
حضرت حسان بن ثابت ؓ کاقصیدہ:
زبر قان بن بدر کے جواب میں حضور ﷺ نے حضرت حسان بن ثابتؓ کواشارہ فرمایا توحضرت حسان ؓفی البدہیہ نے ان کے مفاخر کی دھجیاں بکھیر دیں اوراسلام کی صداقت اورحضور ﷺ کی عظمت کواس اندا ز میں بیان فرمایا کہ ان کاغرور خاک میں مل گیا۔اقرع کوتسلیم کرناپڑا نہ ہماراخطیب حضور ﷺ کے خطیب کے ہم پلہ ہے اورنہ ہماراشاعردرباررسالت کے شاعرے سے کوئی نسبت رکھتاہے ۔
اکثرہم لایعقلون کی تفسیر:
اکثر کی قید دلالت کرتی ہے کہ ان کے بعض ایسی بے ادبی بچنا چاہتے تھے ۔لیکن عقل کی قلت کااشارہ ہے کہ ان میں کوئی عقلمند نہ تھا ۔کیونکہ عرب کامحاورہ ہے کہ بسااوقات قلت نفی کے قائم مقام ہوتی ہے۔اب معنی یہ ہوگا کہ وہ سارے کے سارے لایعقل تھے اس لئے کہ اگران میں عقل ہوتی توایسی جسارت نہ کرتے بلکہ ادب کرتے اوردراقدس پربیٹھ جاتے یہانتک کہ حضور ﷺ خودتشریف لے آتے ۔
اسلام سے پہلے عرب کاخطہ جہالت وناشائستگی کوگہوارہ تھامکہ جیسے مرکزی شہر میں گنتی کے چند آدمیوں کے سواساری آبادی معمولی نوشت وخواند سے قاصرتھی۔ تہذیب ومعاشرت کے آداب سے یہ لوگ بالکل کورے تھے۔صحرانشین بدؤں کی حالت اوربھی ناگفتہ بہ تھی اس آیت مبارکہ میں آداب سکھائے جارہے ہیں۔جن کابارگاہ رسالت میں محلوظ رکھناازحد ضروری ہے۔
سرزنش کے بعد درس ہدایت :
سابقہ آیت مبارکہ میں حجرہ مبارک سے حضور ﷺ کوبلانے والوں کی سرزش کی گئی ہے جبکہ اس آیہ مبارکہ میں درس وہدایت دیا جارہاہے ۔ کہ اگرتم صبرکرتے تویہ تمہارے لیے بہتر تھااورحضور ﷺکاانتظار کرتے یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ قیلولہ کرنے کے بعدخود باہرتشریف لے آئے اس وقت تم زیارت کی سعادت حاصل کرتے اپنے احوال بھی بیان کرتے اوراس بحر جودوکرم سے سیراب بھی ہوئے۔

بے ادبی کی قیامت اورمحاسن آداب کی تعلیم :
علامہ آلوسی اس آیہ مبارکہ میں بارگاہ نبوت میں بے ادبی کی قباحت عیاں کرنے کے ساتھ محاس آداب کی بھی تعلیم دیتے ہیں فرماتے ہیں آقاﷺ کی بارگاہ توبہت اونچی ہے حتی کہ استاد کے دروازے کونہ کھٹکٹھا ؤ بلکہ باہر انتظارکرویہاں تک کہ شیخ استاد باہر تشریف لے آئیں۔ علامہ آلوسی ؒفرماتے ہیں کہ میں نے یہ واقعہ بچپن میں پڑھا تھا اورعمر بھراس کے مطابق اپنے اساتذہ کے ساتھ معاملہ کرتارہا۔
۷۔ حضور ﷺ کے انتظار میں صبر کرنے کا حکم:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَوْ اَنَّہُمْ صَبَرُوْا حَتّٰی تَخْرُجَ اِلَیْہِمْ لَکَانَ خَیْرًا لَّہُمْط وَاﷲُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo
الحجرات،۴۹،۵
’’ اور اگر وہ لوگ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ خود ہی ان کی طرف باہر تشریف لے آتے تو یہ اُن کے لیے بہتر ہوتا، اور اﷲ بڑا بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
۲۔ مفضی الی الکفر
جب کوئی شخص ان میں سے کسی ایک کاارتکاب کربیٹھے تواب ہمارے پاس دونوں اقسام میں امتیاز پیداکرنے کی کوئی واضح دلیل اور علامت نہیں رہتی ۔
رفع صوت کے بارے میں موقف:
مفسرین کرام نے اس امر سے بحث کی ہے کیا رفع صوت استخفافا اورارادہ اہانت سے منع ہے یامحض مطلقا رفع صوت کی ممانعت ہے۔
جہاں تک پہلی صورت کاتعلق ہے ۔اس کے بارے میں امت مسلمہ کااجماع ہے کہ جس شخص نے جان بوجھ کراہانت وتحقیر،گستاخی وبے ادبی کی نیت سے کسی بھی صورت میں اذیت رسالت مآب ﷺ کاارتکاب کیاتووہ کافر ہے گویا جس نے ابھی استحقارا ًاوراستخفانا ً اہانت کی نیت سے گستاخی وبے ادبی رسول اﷲ ﷺ کی جسارت کی تووہ بلاریب کافر اورمرتد ہے ۔
جبکہ دوسری صورت کے متعلق بعض آئمہ تفسیر کاموقف یہ ہے کہ اس آیہ کریمہ میں رفع صوت سے مراد مطلقا ً رفع صوت ہے کیونکہ اسختفا ًرفع صوت کی کہاں سرے سے بحث ہی نہیں اس لئے کہ یہاں خطاب اہل ایمان کوہورہا ہے کہ ایمان والو!اپنی آوازوں کونبی کریم ﷺ کی آواز سے اونچی نہ کرو اورنہ ہی آقا ﷺ کواس طرح بلاؤ جس طرح تم ایک دوسرے کوبلاتے ہواس لئے کہیں ایسا نہ ہوجس چیز کوظاہر تم معمولی سی بے ادبی وگستاخی بھی تصورنہیں کررہے ہو۔
یہ تمہارے تمام اعمال کوتباہ وبرباد کردے حضرت ابوہریرہ ؓاورحضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بیان کیاہے کہ ا س آیت کے نزول کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ رسول اﷲ ﷺ سے بہت چپکے سے بات کرتے تھے ۔ حضرت عمرفاروق ؓ رسول اﷲ ﷺ اتنی پست آواز سے بات کرتے تھے کہ حضور ﷺ سن بھی نہ پاتے تھے۔ اوردوبارہ دریافت فرماتے تھے۔
حضرت محمد ﷺ کی عزت وتعظیم اورادب وتوقیر قرآن حکیم کی رو سے امت مسلمہ کی رو سے امت مسلمہ کافرض ہے اس لئے ہرلمحہ ان آداب کالحاظ رکھنے کاحکم گیاہے۔ حضور ﷺ کی توجہ حاصل کرنی ہوتوبڑے پروقار ونرم اورراحت آمیز کلمات کے ساتھ اس مقصد کوحاصل کیاجاسکتاہے جبکہ روزمرہ میں ایک دوسرے کومخاطبت کرنے والے طریقے اورروش سے سختی سے منع کیاگیاہے۔
ایسی گفتگو جوآپس کی مجلس میں انتہائی بے تکلفی کے ساتھ۔آوازیں اونچی کرکے گفتگو کرتے ہوئے اس سے رک جاؤ۔ اس چیز کواپنی ذمہ داری سمجھو۔ ایک توتمہاری آواز حضورنبی کریم ﷺ کی آواز سے کبھی بھی بلند نہ ہونے پائے اوردوسری جب آپ ﷺ سے مخاطب ہوں تو انتہائی قول لین نرم وملائم میٹھے اورخوش خلقی لہجے میں ہوں جبکہ اس کے برعکس ترش روی لہجے کی سختی اوراکھڑپن کے ساتھ گفتگو کرنااس بارگاہ کے آداب کے خلاف ہے کیونکہ یہ بارگاہ نبوت ہے جس کے درجات ومراتب اورآداب کالحاظ رکھنا نہ صرف جزوایمان ہے بلکہ حقیقت وکما ل ایمان بھی ہے ،
حافظو اعلی مراعاۃ جلالۃ النبوۃ
منصب نبوت کی عظمت واحترام کاہرلمحہ خیال رکھاکرو۔کسی بھی لمحے کی غفلت تمہارے لئے ناقابل نقصان کاسبب بن سکتی ہے ۔
ایذا ء نبی کفر اورحبط اعمال کاباعث ہے ۔
پروردگار عالم نے اہل ایمان کوبارگاہ مصطفوی ﷺ میں بلند آوازسے اورعام روش کے مطابق ایک دوسرے کوبلانے کی طرز پرحضور ﷺ کومخاطب کرنے سے منع فرمایا ہے اس لئے کہ اونچی آواز سے اوربالجھر سے آپ کوپکارنا ایک ایساعمل ہے جونہ صرف ادب واحترام رسول اﷲ ﷺکے ترک کرنے پر دلالت کرتاہے بلکہ کفر تک بھی پہنچاتاہے ۔ جس کی وجہ سے سارے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں اس لئے ان چیزوں سے روک دیاکہ اعمال ضائع اور اکارت جانے سے محفوظ ہوجائیں گے اور ہر وہ چیز جس کی وجہ سے حبط اعمال کا اندیشہ وخدشہ ہو اس کو چھوڑ نا اور ترک کرنا واجب ہے تاکہ کہیں بے خبری ولاعلمی میں اعمال ضائع نہ ہوجائیں۔
ارشا باری تعالی ہے۔
ٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْن
الجرات:۴۹:۲
کہیں تمہارے اعمال ضائع نہ ہوجائیں اورتم کوخبر بھی نہ ہو۔
حبط اعمال کی اقسام:
۱۔ دینوی اعمال ہوں جن کاقیامت میں کوئی فائدہ نہ ہوگا جیسے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:
وقد مناالی ماعملو وانتم فجلعنا ھباء منثورا
’’جوکچھ انہوں نے کام کیے تھے ہم نے قصدفرما کر انہیں باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذرے کردیئے۔‘‘
۲۔ اعمال اخروی ہوں لیکن ا س کے عامل کامقصد رضائے الہی نہ ہوجیساکہ حدیث شریف میں ہے کہ ایک شخص کوقیامت میں لایاجائے گا اس سے سوال ہوگاکہ تودنیا میں کس عمل میں مشغول رہاعرض کرے گا۔قراء ت قرآن میں اسے کہاجائے گا کہ تو اس لیے قراء ت کرتاتھا کہ تجھے قاری کہاجائے سوتجھے قاری کہاگیااب جاؤ جہنم میں چنانچہ اسے جہنم میں دھکیلا جائے گا۔
۳۔ عامل کے اعمال توصالح ہوں لیکن جب مرا تھا تواس کے بالمقابل اس کی برائیاں بھی ہونگی اس طرح خفت میزان کااشارہ ہے۔
شان رسالت کی نزاکت:
امام الثلعبی ؒ نے عرائس میں فرمایا کہ اﷲ تعالی نے ہمیں سمجھایا کہ اس کے حبیب اکرم ﷺ کادل بوجہ کمال
لطافت اوربوجہ مراقب جمال ملکوت کے اصوات جہریہ سے متغیر ومنقص ہوتاہے اوروہ اس لیے بارگاہ حق میں حضوری ہوتی ہے اس لیے جب کوئی زورسے بولتا ہے تواس سے ان کاقلب اطہر اذیت پاتاہے اوراس سے سینہ فیض گنجینہ تنگ ہوجاتاہے گویا اس سے ان کی سیادین ازل کی سیر میں کمی آجاتی ہے اس لیے تنگی محسوس ہوتی ہے تواﷲ تعالی نے ہمیں ایسے عمل سے ڈرایا اوریہ ظاہر ہے کہ محبوب کریم ﷺ کی تشویش قلبی اعمال صالحہ کے فضائل ہونے کاسبب ہے ۔اورعرش معلی سے تحت الثری تک کوئی شے ایسی نہیں جوآپ ﷺ کے قلب اطہر کے مقابلہ کی ہو اوراﷲ تعالی کے نزدیک انبیاء واولیاء کی قلبی محبت کی پاسداری اعمال الثقلین سے بڑھ کرہے ۔
حبط اعمال بسبب کفر:
جس شخص کاایمان پرخاتمہ ہواہو اسے ضرور جنت میں داخل کیاجاتاہے۔ اگرچہ وہ گناہ ومصیبت کی وجہ سے دوزخ میں داخل کرہی دیاجائے بالآخر اسے وہاں سے چھٹکارا اوررہائی مل جاتی ہے ۔ لیکن جب کسی کے سارے اعمال اکارت چلے جائیں توان میں چونکہ ایمان بھی شامل ہے توپھر جنت میں داخلہ نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہوجاتاہے اوریہ بات ذہن نشین رہے کہ اعمال کووہی چیز تباہ وبرباد کرتی ہے جوان کی قبولیت کے منافی اورمتضاد ہو۔صاف ظاہر ہے کہ قبولیت اعمال کے منافی فقط ایک ہی چیز ہے اوروہ کفر ہے پس جہاں کفر ہوگا وہاں اعمال صالحہ کاتصوربھی نہیں ہوگا۔
ملاعلی قاری شرح الشفاء میں رقمطراز ہیں:
اہل سنت والجماعت کے نزدیک گنہگارخواہ گناہ کبیرہ کاتکب ہویاصغیرہ کااس کی نیکیاں اوراعمال صالحہ بایں سبب باطل وکارت نہیں جاتے سوائے اس وقت جب وہ کفر کااررتکاب کرتاہے۔
انما یبطلھا الکفر وھو یکونو الااذاتضمن رفع الصوۃ حفض حرمہ النبی ﷺواستخفا ف منصبہ
صرف کفر اعمال صالحہ کواکارت وباطل کرتاہے اوریہ اس وقت ہوتاہے جب رفع صوت بارگاہ مصطفی ﷺ میں ایسی ہوجس سے حضور ﷺ کے منصب نبوت ورسالت کواہمیت دی جائے اورنہ آپ کی عزت وناموس کاپاس کیاجائے۔
اس سے ثابت ہواکہ حبط اعمال بسبب کفرہوانہ کوئی اورچیز ہماراموقف یہ ہے کہ ذراسی بے ادبی کفر ہے کوحبط اعمال سے حبط اعمال دوزخ کاسبب ہے ۔
ان تحبط اعمالکم کافلسفہ :
اعمالکم کے اندر سارے اعمال آجاتے ہیں ۔حج ،زکوۃ ،روزہ کلمہ ،شہادت ،نماز ،نوافل مستحبات ،مباحات ،صدقات ،خیرات ،جہاد تبلیغ ،مسجد یں ،بناناسب کچھ شامل ہیں۔
عرض کرتے ہیں باری تعالی اتنی سے بے ادبی پر اعمال کی پوری کائنات ختم اس لیے کہ بے ادبی ایک عمل نہیں کیونکہ اگرعمل ہوتاتواس کے مرتکب ہونے سے اعمال کی پوری کائنات تباہ نہ ہوتی توپھر کیاوجہ ہے کہ سارے اعمال غارت کیوں گئے ۔ قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ اعمال کادارمدارتوایمان سے تھا اگرایمان ہی نہ ہوتواعمال کس کھاتے میں جائیں گے ۔ ایمان تھا تو اعمال تھے ۔ جب ایمان بے ادبی وگستاخی کے سبب چلاگیا تواعمال کوآگ لگانی ہے ۔
وانتم لاتشعرون کافلسفہ :
احساس اورشعورنہ ہوگااگر انسان کوپتہ چل جائے اورسمجھ آجائے کہ میرے سارے اعمال غرق ہوگئے تووہ
انسان گرہ زاری کرے گا توبہ استغفار کرے گا تو اﷲ پاک معاف کردے گا۔ جس کومعاف کرناہواسے پتہ چلنے دیتاہے کہ یہ کفر کربیٹھے ہو۔ اورجس کے بارے میں طے کرلوں کہ اس بدبخت کومعاف ہی نہیں کرنا میرانکار کرنامیر ی بے ادبی کرتاتومعاف کردیتا یہ میرے محبوب کاگستاخ ہے ۔یہ میرے محبوب کے برابر بننا چاہتاہے۔میرے محبوب کی شان معاذ اﷲ گھٹانے کی سوچ رہاہے تو یہ ایسا گستاخ وبے ادب ہے ۔ اسے میرے محبوب کاحیا ء نہیں ہے۔ اس کومعاف نہیں کرونگا۔
قابل غورنکتہ :
توجہ طلب بات یہ ہے کہ ایک انسان ساری زندگی خداکاانکارکرتا رہے شرک جیسا کبیرہ گناہ کامرتکب ہوتارہے ۔ سوسال کفر میں گزاردے اورآخری کلمہ طیبہ پڑھ کومسلمان ہوجائے اورمرجائے تومتفق قول ہے کہ جنتی ہے جبکہ سوسال تک عبادت کرتا رہے سارے اعمال فرائض ،واجبات سنن ومستحبات پرعمل کرتارہے آخری رات کوئی ایک کلمہ حضور ﷺ کی ذات میں گستاخی کوبول دیااورمرگیا، تو’’ان تحبط اعمالکم ‘‘کی نص قطعی سے یہ ثابت ہوگیاکہ اس کے سارے اعمال غرق کردیئے جائیں گے کیونکہ اﷲ تعالی ورمضان ’’ورفعان لک ذکرک‘‘سے محبوب کی شان خود پڑھا رہاہے ۔ اوریہ بدبخت میرے محبوب کی شان کوگھٹانے کاسوچ رہاہے ۔ اس کے لئے دوزخ کاعذاب ہے ۔
ادب مصطفی ﷺ کے حامل کی جزاء:
جوشخص ادب مصطفی کاحامل ہوگاتو اس کی جزاء کیاہوگی۔
ارشاد باری تعالی ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَہُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اﷲِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اﷲُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰی ط لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ عَظِیْمٌo
الحجرات،۴۹:۲۳
بے شک وہ جواپنی آوازیں کوپست کرتے ہیں ۔رسول اﷲ ﷺ کے پاس وہ ہیں جن کادل اﷲ نے پرہیز گاری کے لیے چن لیاہے ۔ ان کیلئے بخشش اوربڑا ثواب ہے ۔
تقوی اﷲ کا جوہر توحید اورکمال توحید ہے ۔ فرمایا جوادب بجالاتے ہیں تو اﷲ تعالی ان کے دل اپنے تقوی
یعنی توحید کے لیے چن لیتاہے۔ توحیدکانور صر ف انہیں دلوں کونصیب ہوتاہے جن کو ادب مصطفی ﷺ کاحیاء ہے توثابت ہوابے ادبی مصطفی ﷺ کفراورادب مصطفی عین توحید ہے ۔ توحید کوسمجھنا ہوتو مصطفی ﷺ کے ادب کوپالو۔
۲۔حضور ﷺ کی اطاعت معصیت سے بچنے کا ذریعہ :
امام احمد رحمۃ اﷲ علیہ نے کتاب الزہد میں مجاہد رحمۃ اﷲ علیہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی طرف لکھا گیا: اے امیر المؤمنین! وہ آدمی جو نہ تو معصیت کی خواہش کرتا ہے اور نہ اس کا ارتکاب کرتا ہے افضل ہے یا وہ آدمی جو گناہ کی آرزو تو رکھتا ہے لیکن اس کا مرتکب نہیں ہوتا؟ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے لکھا کہ وہ لوگ جو معصیت کی خواہش تو رکھتے ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کرتے، اﷲ نے ان کے دلوں کو تقویٰ کے لیے مختص کر لیا ہے۔ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اﷲُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰیط لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ عَظِیْمٌo)
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَکَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَکْثَرُھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَo وَلَوْ اَنَّہُمْ صَبَرُوْا حَتّٰی تَخْرُجَ اِلَیْہِمْ لَکَانَ خَیْرًا لَّہُمْط وَاﷲُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo
’’ بے شک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر (آپ کے بلند مقام و مرتبہ اور آدابِ تعظیم کی) سمجھ نہیں رکھتے۔ اور اگر وہ لوگ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ خود ہی ان کی طرف باہر تشریف لے آتے تو یہ اُن کے لیے بہتر ہوتا، اور اﷲ بڑا بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
۳۔ادب رسول ﷺ دنیا و آخرت میں کامیابی کا ضامن :
فرمایا: ’’ اَکْثَرُھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ‘‘ پھر ادب کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: ’’وَلَوْ اَنَّہُمْ صَبَرُوْا حَتّٰی تَخْرُجَ اِلَیْہِمْ لَکَانَ خَیْرًا لَّہُمْ‘‘ اس میں ان کے لیے دنیا و آخرت کی بھلائی تھی۔ پھر انہیں توبہ اور انابت (رجوع) کی طرف بلاتے ہوئے فرمایا: ’’وَاﷲُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘
زیارت مدینہ اور اس کے آداب
آنحضرت ﷺ کا ارشا دگرامی ہے۔
من رانی بعد وفاتی فکانما رانی فی حیاتی
’’جس نے میرے وصال کے بعد میری زیارت کی گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی۔‘‘
ابن عدی وطبرانی ودارقطنی نے بروئیت عمر ؓ اس حدیث کو بیان کیا۔
عن ابن عمر قال قال رسول اﷲ ﷺ من زار قبری بعد وفاتی کان کمن زار نی فی حیاتی
جو شخص مدینہ منورہ کا قصد کرے تو اسے چاہیے کہ درود پڑھے اور جب اس کی نگاہ مدینہ منورہ کی دیواروں پر پڑے تو کہے الہٰی یہ تیرے رسول ﷺ کا حرم ہے پس تو اس کو میرے لئے آگ سے بچا اور عذاب اور برے حساب سے امن بنا دے۔
پھر عمد ہ کپڑے پہنے خوشبو لگائے اور جب مدینہ منورہ میں داخل ہو نے لگے تو تواضع اور تعظیم کا پیکر بن کر داخل ہواور کہے:
ِبسْمِ اللّٰہِ وَعَلٰی مِلّٰۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ (الاسراء)
وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًاo ۔بنی اسرائیل۱۷؛۸۰
پھر مسجد نبوی میں جاکر منبر شریف کے پاس دو رکعتیں پڑھے اور کو شش کرے کہ جس قدر مسجد وسیع کرنے سے پہلے تھی اس احاطہ میں نماز پڑھے ۔ پھر اَدباً قبر مبارک کے پاس آئے اور چا رہاتھ کے فاصلے پر کھڑا ہو کر اس کا نام لے کر احتراماًسلام عرض کرے۔پھر حضرت عمر ؓو ابو بکر صدیق ؓ پر سلام بھیجے پھر قبلہ رخ کھڑے ہو کر خدائے تعالیٰ کی تمحید وتمجید کہے اور آپ ﷺ پر درود کی کثرت کرے۔
کاشانہ نبوی ﷺ میں داخلے کے آداب :
وہ ہستی جوساری انسانیت کے لئے واجب الاحترام ہے ا س کے ادب واحترام گفتگو اورتخاطب کے آداب بھی قرآن مجید نے اہل ایمان کوسکھائے ہیں اسی طرح نبی کریم ﷺ کے گھروں میں بغیر اجازت داخل ہو نے سے منع کیاگیاہے کہ یہ بات نبی کریم ﷺ کے ادب واحترام کے منافی ہے ۔
ارشاد باری تعالی ہے ۔
یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّآ اَنْ یُّؤْذَنَ لَکُمْ اِلٰی طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰـہُلا وَلٰـکِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَلَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍ ط اِنَّ ذٰلِکُمْ کَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْکُمْ وَاﷲُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ ط وَاِذَا سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ ط ذٰلِکُمَ اَطْہَرُ لِقُلُوْبِکُمْ وَقُلُوْبِہِنَّ ط وَمَا کَانَ لَکُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اﷲِ وَلَآ اَنْ تَنْکِحُوْٓا اَزْوَاجَہٗ مِنْم بَعْدِہٖٓ اَبَدًاط اِنَّ ذٰلِکُمْ کَانَ عِنْدَ اﷲِ عَظِیْمًاo
الاحزاب ،۳۳:۵۳
اے ایمان والو! نبیِ (مکرّم ﷺ) کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو سوائے اس کے کہ تمہیں کھانے کے لیے اجازت دی جائے (پھر وقت سے پہلے پہنچ کر) کھانا پکنے کا انتظار کرنے والے نہ بنا کرو، ہاں جب تم بلائے جاؤ تو (اس وقت) اندر آیا کرو پھر جب کھانا کھاچکو تو (وہاں سے اُٹھ کر) فوراً منتشر ہو جایا کرو اور وہاں باتوں میں دل لگا کر بیٹھے رہنے والے نہ بنو۔ یقینا تمہارا ایسے (دیر تک بیٹھے) رہنا نبیِ (اکر م ﷺ) کو تکلیف دیتا ہے اور وہ تم سے (اُٹھ جانے کا کہتے ہوئے) شرماتے ہیں اور اﷲ حق (بات کہنے) سے نہیں شرماتا، اور جب تم اُن (اَزواجِ مطہّرات) سے کوئی سامان مانگو تو اُن سے پسِ پردہ پوچھا کرو، یہ (ادب) تمہارے دلوں کے لیے اور ان کے دلوں کے لیے بڑی طہارت کا سبب ہے، اور تمہارے لیے (ہرگز جائز) نہیں کہ تم رسول اﷲ ﷺ کو تکلیف پہنچاؤ اور نہ یہ (جائز) ہے کہ تم اُن کے بعد اَبد تک اُن کی اَزواجِ (مطہّرات) سے نکاح کرو، بے شک یہ اﷲ کے نزدیک بہت بڑا (گناہ) ہےo
اس آیت میں مسلمانوں کونبی کریم ﷺ کے حجروں میں داخل ہونے یانہ ہونے کے متعلق ہدایات جاری ہیں ۔ فرمایاجب تک حضو ر ﷺ اجازت نہ دیں تمہارا ہونا قطعنا ممنوع ہے اورجب اجازت ہے توداخل ہوسکتے ہو۔ وہ بھی اتنے وقت کے لیے کہ کھانا کھاؤ اوراس کے بعدفوراً اٹھ جاؤ۔ ایسانہ ہوکہ تمہارے دیرتک بیٹھنے سے نبی کریم ﷺ کوتکلیف پہنچے۔
بعض لوگوں کادستورتھا کہ جب نبی کریم ﷺ کے کسی حجرہ شریف سے دھواں اٹھتے ہوئے دیکھتے توباہر آکر اس انتظار میں بیٹھے رہتے کہ ابھی کھانا تیارہوگا اورہمیں کھانے کی دعوت دی جائے گی ۔
ازواج مطہرات کا ادب:
قرآن مقدس میں ازواج مطہرات سے گفتگو کے آدا ب بھی بجالانے کا حکم دیا گیا ہے۔کیونکہ جہاں دیگرانبیائے کرام سے نسبت ہوجانے والی اشیاء وتبرکات کی بے ادبی طرح طرح کے مسائل اور مصائب کا سبب بنتی ہے تو بالکل اسی طرح حضور اکرم ﷺ کی ہی معاذ اﷲ بے ادبی و گستاخی کے مترادف ہوگا۔اس لئے اہل بیت اطہار کے آداب بھی سکھائے گئے ہیں۔
ارشاد فرمایا:
وَاِذَا سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ
الاحزاب:۳۳:۵۳
’’ اور جب تم اُن (اَزواجِ مطہّرات) سے کوئی سامان مانگو تو اُن سے پسِ پردہ پوچھا کرو۔‘‘
مذکورہ بالاآیت کریمہ میں ازواج مطہرات سے سوال کرنے کاطریقہ اور کوئی بھی چیز مانگنے کا سلیقہ وادب سکھایا گیا ہے، چونکہ ازواج مطہرات سے بلا تکلف بات چیت کرنے کی وجہ سے حضورا کرم ﷺ کو تکلیف پہنچی تھی تو ا س وجہ سے اﷲ تعالیٰ نے محبوب کی بارگاہ کے آداب بجا لانے کیلئے اہل بیت اطہار کے آداب کو بھی لازمی قرار دے دیاتاکہ بے ادبی تک کا شائبہ بھی نہ رہے۔
’’یامحمد ‘‘کہہ کرپکارنے کی شرعی حیثیت
’’یامحمد‘‘کہہ کر پکارنے کے حوالے سے علماء فقہاء کی مختلف آراء ہیں ،جن کاخلاصہ ملاحظہ ہو۔
’’یامحمد‘‘کہنا واجب ہے کیونکہ صحابہ کرام ؓ نے جنگ یمامہ میں بالاجماع یامحمداہ کہاتھا کیونکہ دشمن اپنے جھوٹے نبی یامسیلمہ کہہ رہتے تھے ۔
اگرکوئی عاشق اپنی حصول عزت کے لئے یامحمدکہے تو یہ مستحسن ومباح ہے مثلا ماں باپ کونام سے پکارنا اچھا نہیں لگتا خلاف اد ب ہے مگرکوئی بیٹا اکیلے حصول لذت کے لیئے ماں باپ کانام پکارے تومباح رہے۔
عام آدمی جس کے ذہن میں نہ تنقیص وگستاخی کاپہلو ہواورنہ ہی ادب کاخیال اپنے دل میں کہہ رہا ہو تویہ مکروہ ہے ۔
صحابہ کرام کے دلوں میں موجود اسی پاکیزگی و تقویٰ ہی کا اثر تھا کہ وہ آپ کے آداب کو ہر جگہ اور ہر وقت بجالاتے۔ اگر کسی بشری تقاضے یا سادگی سے کوئی ایسی حرکت ہوجاتی جس میں ہلکا سا بے ادبی کا شائبہ بھی ہوتا تو فوراً کلام الہٰی کے ذریعے تنبیہ اور زجرو توبیخ نازل ہوتی جس سے سب خبردار اور ہوشیار ہوجاتے۔ صحابہ کرام کے قلوب میں آپA کی تعظیم و تکریم اس قدر راسخ تھی کہ وہ آقاA کے روبرو بات نہ کرسکتے تھے اور اگر آپ ﷺ سے کچھ دریافت کرنا مقصود ہوتا تو کئی دنوں تک خاموش رہتے اور موقع کے منتظر رہتے۔ یا کسی بدو/اعرابی/ دیہاتی کے آنے کا انتظار کرتے کہ وہ آکر رسول اﷲ ﷺ سے کچھ پوچھے اور ہم اس سے استفادہ کریں کیونکہ وہ حضور ﷺ کی تعظیم و اکرام کے باعث خود دریافت نہ کرسکتے تھے۔ آپA کی مجلس میں آکر بیٹھتے تو بالکل بے حس و حرکت سرنیچے کیے بیٹھے رہتے۔ نگاہ اٹھا کر بھی حضور ﷺ کی طرف دیکھنا بے ادبی خیال کرتے تھے۔
ادب ایک کیفیت قلبی کا نام ہے جس کے زیرِ اثر انسان سے مختلف افعال ظہور میں آتے ہیں۔ صحابہ کرام، حضور نبی اکرم ﷺ کا ادب کس طرح بجا لاتے، اس کو کماحقہ احاطہ تحریر میں لانا ناممکن ہے۔ تاہم صحابہ کرامؓ کے ادب مصطفی ﷺ پر مبنی چند اعمال و افعال کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے قلب و روح کے لئے روشنی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں:
سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور ادبِ مصطفی ﷺ:
ایک دفعہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے والد ابوقحافہ نے کفر کی حالت میں رسول اﷲ ﷺ کی شان میں کوئی ناشائستہ کلمہ منہ سے نکالا۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فوراً ان کے منہ پر طمانچہ کھینچ مارا۔ رسول اﷲ ﷺ نے دریافت کیا تو عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ اس وقت میرے پاس تلوار نہ تھی ورنہ ایسی گستاخی پر ان کی گردن اڑادیتا۔ اسی وقت آپ کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی:
لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اﷲَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْکَانُوْٓا اٰبَآءَ ھُمْ اَوْ اَبْنآءَ ھُمْ اَوْاِخْوانَہُمْ اَوْ عَشِیْرَتَہُمْط اُولٰٓئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْاِیْمَانَ وَاَیَّدَ ھُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ۔ (المجادلۃ:۲۲)
’’آپ اُن لوگوں کو جو اﷲ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں کبھی اس شخص سے دوستی کرتے ہوئے نہ پائیں گے جو اﷲ اور اُس کے رسول (A) سے دشمنی رکھتا ہے خواہ وہ اُن کے باپ (اور دادا) ہوں یا بیٹے (اور پوتے) ہوں یا اُن کے بھائی ہوں یا اُن کے قریبی رشتہ دار ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اُس (اﷲ) نے ایمان ثبت فرما دیا ہے اور انہیں اپنی روح (یعنی فیضِ خاص) سے تقویت بخشی ہے‘‘۔
٭ حضرت ابوبکر صدیقؓ حضور نبی اکرم ﷺ کی محبت میں فنا تھے اور آپ ﷺ سے نسبت رکھنے والی ہر چیز سے محبت اور اس کا ادب ان کے ایمان کا حصہ تھا۔ آغاز خلافت میں منبر پر بیٹھ کر خطبہ دینے لگے تو منبر کے جس درجے پر رسول اﷲ ﷺ بیٹھ کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے، حضرت ابو بکر صدیقؓ ادباً اس سے نچلے درجہ پر بیٹھے۔ بعد ازاں حضرت عمرؓ نے اپنے ایام خلافت میں اسی منبر پر بیٹھ کر خطبہ دینا چاہا تو وہ اس درجہ سے بھی نیچے کے درجے پر بیٹھے جہاں سیدنا صدیق اکبر ؓ بیٹھے تھے کیونکہ ان کے نزدیک مقام رسول اﷲ ﷺ کے ادب کے ساتھ خلیفہ رسول اﷲ ﷺ کے مقام کا ادب بھی واجب تھا۔
حضرت عمر فاروقؓ اور ادبِ مصطفیﷺ :
حضرت عباسؓ کے مکان کی چھت پر ایک پرنالہ تھا۔ ایک روز حضرت عمرؓ نئے کپڑے پہنے ہوئے مسجد جارہے تھے۔ جب اس پرنالے کے قریب پہنچے تو اتفاق سے اس دن حضرت عباسؓ کے گھر دو مرغ ذبح کئے جارہے تھے، ان کا خون نالے سے نیچے بہہ رہا تھا، اس خون کے چند قطرے حضرت عمر فاروقؓ کے کپڑوں پر پڑگئے۔ آپ نے فوراً اس نالے کے اکھاڑ ڈالنے کا حکم صادر فرمایا تاکہ یہاں سے گزرنے والوں کے کپڑے اس سے خراب نہ ہوں۔ لوگوں نے فوراً اس پرنالے کو اکھاڑ دیا اور آپ گھر واپس آکر دوسرے کپڑے پہن کر مسجد میں تشریف لائے۔ نمازکے بعد حضرت عباسؓ آپ کے پاس آکر کہنے لگے یاامیرالمومنین! خدا کی قسم اس پرنالے کو جسے آپ نے اکھاڑ ڈالا ہے، رسول اﷲ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اس جگہ لگایا تھا۔ حضرت عمرؓ یہ سن کر نہایت مضطرب اور پریشان ہوئے۔ تھوڑی دیر کے کے بعد آپؓ نے عباسؓ کو فرمایا کہ اے عباس! میں تم کو قسم دیتا ہوں کہ آپ اپنے پاؤں میرے کندھے پر رکھ کر اس پرنالے کو جیسا حضور ﷺنے لگایا تھا اسی جگہ پر لگادو۔ چنانچہ حضرت عباسؓ نے حضرت عمر فاروقؓ کی درخواست پر اس کو پہلی جگہ پر لگادیا۔
حضرت عثمان غنیؓ اور ادبِ مصطفیﷺ :
حضرت عثمان غنیؓ کا دل محبت و ادب مصطفی ﷺ سے اس حد تک معمور تھا کہ جب آپؓ کو نبی کریم ﷺنے حدیبیہ کے موقع پر سفیر بناکر مکہ بھیجا تو آپؓ نے کفار مکہ کی اجازت کے باوجود آقا ﷺ کے بغیر طواف کعبہ کرنے سے انکار کردیا۔ گویا آپ نے بیت اﷲ شریف کے طواف کرنے کے مقابلے میں (جو عبادت میں داخل ہے) حضور ﷺکے ادب کو افضل جانا۔
٭ حضرت عثمان غنیؓ فرماتے ہیں کہ میں اسلام میں چوتھا شخص ہوں اور میرے نکاح میں رسول اﷲ ﷺنے اپنی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے دی ہیں اور میں نے جب سے اپنا داہنا ہاتھ حضور ﷺکے دست مبارک سے ملایا ہے اس دن سے میں نے اس ہاتھ سے اپنی شرمگاہ کو کبھی نہیں چھوا۔
ادب کا یہ وہ مرتبہ عظمیٰ ہے جس کا حق ہر شخص ادا نہیں کرسکتا بلکہ یہ صرف حضرت عثمانؓ کا ہی حصہ تھا۔ معلوم ہوا کہ ادب ایک ایسا خاصہ ہے کہ جو کسی حکم یا مثال کا محتاج نہیں بلکہ اہل ایمان کے دلوں کی خاص کیفیت کا نام ہے جس کو وہ ایمان سے متعلق کرتے ہیں۔
حضرت علیؓ اور ادبِ مصطفی ﷺ میں نماز کا ترک کرنا:
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کا عمداً نماز عصر کو ترک کردینا، محض اس خیال سے کہ اگر میں نے اپنا زانو ہلایا تو حضور ﷺ جو میری گود میں سر رکھے آرام فرمارہے ہیں بیدار ہوجائیں گے اور آپ کے آرام میں خلل آجائے گا، صحابہ کرامؓ کے دل و دماغ میں موجود ادبِ مصطفی ﷺ کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ لہذا آپؓ نے محض حضور ﷺکے ادب کی وجہ سے زانو کونہ ہلایا۔ حتی کہ آفتاب غروب ہوگیا اور نماز عصر کا وقت جاتا رہا۔ حضور ﷺ بیدار ہوئے تو حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کی نماز کے فوت ہوجانے کا حال عرض کیا گیا تو حضور ﷺ نے دعا فرمائی کہ یا اﷲ! علی تیری اور میری اطاعت میں تھا، پس آفتاب کو طلوع کردے۔ پس اسی وقت ڈوبا ہوا آفتاب پلٹ آیا۔ حضرت علیؓ نے نہایت تسکین کے ساتھ نماز عصر ادا کی پھر آفتاب حسب معمول غروب ہوگیا۔
نماز کا وقت پر پڑھنا اطاعت الہٰی میں شمار ہوتا ہے مگر یہاں حضور ﷺنے حضرت علیؓ کے کمال ادب کو دیکھتے ہوئے ان کے اس عمل کو نہ صرف اپنی اطاعت بلکہ اطاعت الہٰی میں شمار فرمایا اور پھر اس ادب مصطفی ﷺکا اجر بھی انہیں سورج واپس پلٹاتے ہوئے عصر کی نماز قضا کے بجائے وقت پر پڑھوا کر عطا کردیا۔
حضرت اسلع بن شریک کا ادب ِ مصطفیﷺ
حضرت امام طبرانی کے حوالہ سے یہ حدیظ نقل ہے کہ حضورنبی پاک ﷺ کے ایک صحابی حضرت اسلع بن شریک فرماتے ہیں کہ میں سفر میں حضورکی اونٹنی پرکجاوہ باندھا کرتاتھا جس پر تشریف فرماہوتے تھے۔ ایک رات مجھے نہانے کی حاجت ہوگئی۔اسی درمیان حضورﷺ نے کوچ کاارادہ فرمایا،اب میں سخت کش مکش میں مبتلا ہوگیا کہ کیاکروں۔
سخت سردی کی وجہ سے ٹھنڈے پانی سے غسل بھی نہیں کرسکتاتھا اوردوسری طرف طبیعت کوکسی طرح گوارہ نہ تھا کہ ناپاکی کی حالت میں حضورﷺ کے کجاوہ کوہاتھ لگاؤں۔ بالآخر میں نے ایک انصاری سے کہا اورانھوں نے اس دن کجاوہ باندھنے کی سعادت حاصل کی ۔
کیاادب تھا کہ جس کجاوہ میں حضرت محمد ﷺ تشریف رکھتے تھے اس کی لکڑیوں کوحالت جنابت میں ہاتھ لگانا گوارہ نہ تھا۔
حضرت براء بن عازبؓ اور ادبِ مصطفی ﷺ:
عبد بن فیروزؓ سے مروی ہے کہ حضرت براء بن عازبؓ سے میں نے پوچھا کہ کن جانوروں کی قربانی درست نہیں؟ انہوں نے کہا کہ رسول اﷲ ﷺ ہم لوگوں میں کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ چار قسم کے جانور ہیں جن کی قربانی درست نہیں۔ ایک وہ جس کی آنکھ پھوٹی ہو۔ دوسرا وہ جو سخت بیمار ہو۔ تیسرا وہ جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو۔ چوتھا وہ جو نہایت دبلا ہو۔ اس کی آپ ﷺنے اپنی انگلیوں کے اشارے سے تشریح فرمائی لیکن میری انگلیاں آپA کی انگلیوں سے چھوٹی ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ رسول اﷲ ﷺنے خطبہ میں دست مبارک کے اشارہ سے تعیین کرتے ہوئے فرمایا کہ چار جانور ہیں جن کی قربانی درست نہیں پھر ان کی تفصیل بیان فرمائی۔ براء بن عازبؓ نے جب اس واقعہ کو بیان کیا تو ادب نے اجازت نہ دی کہ رسول اﷲ ﷺکے دست مبارک کی ہلکی سی بھی مشابہت اپنے ہاتھ سے دی جائے۔ لہذا عذر ظاہر کیا کہ میری انگلیاں چھوٹی ہیں جن کو رسول اﷲ ﷺکی انگلیوں کے ساتھ کچھ نسبت نہیں ہے۔
ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ چار کا اشارہ ہاتھ سے کرنے میں مقصود صرف تعیین عدد ہے۔ ظاہراً نہ اس میں کوئی مساوات کا شائبہ ہے نہ سوءِ ادب کا۔ اس کے باوجود ادب نے گوارا نہ کیا کہ حضور ﷺ کے دست مبارک کی طرح اپنی انگلیاں اٹھا کر گنتی کی جائے کہ کن جانوروں کی قربانی جائز نہیں۔
Shahid Raza
About the Author: Shahid Raza Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.