Salim narrated that:
His father divorced his wife during her menses, so Umar asked the Prophet about that and he said: Tell him to take her back, then let him divorce her while she is pure or pregnant.
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَوْلَى آلِ طَلْحَةَ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ فِي الْحَيْضِ، فَسَأَلَ عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا ثُمَّ لِيُطَلِّقْهَا طَاهِرًا أَوْ حَامِلًا . قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَكَذَلِكَ حَدِيثُ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا، عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنَّ طَلَاقَ السُّنَّةِ أَنْ يُطَلِّقَهَا طَاهِرًا مِنْ غَيْرِ جِمَاعٍ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنْ طَلَّقَهَا ثَلَاثًا، وَهِيَ طَاهِرٌ فَإِنَّهُ يَكُونُ لِلسُّنَّةِ أَيْضًا، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا تَكُونُ ثَلَاثًا لِلسُّنَّةِ، إِلَّا أَنْ يُطَلِّقَهَا وَاحِدَةً وَاحِدَةً، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَإِسْحَاق، وَقَالُوا فِي طَلَاقِ الْحَامِلِ: يُطَلِّقُهَا مَتَى شَاءَ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُهُمْ: يُطَلِّقُهَا عِنْدَ كُلِّ شَهْرٍ تَطْلِيقَةً.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، ان کے والد عمر رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”اسے حکم دو کہ وہ اس سے رجوع کر لے، پھر طہر یا حمل کی حالت میں طلاق دے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یونس بن جبیر کی حدیث جسے وہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں، حسن صحیح ہے۔ اور اسی طرح سالم بن عبداللہ کی بھی جسے وہ ابن عمر رضی الله عنہما سے روایت کرتے ہیں، ۲- یہ حدیث کئی اور طرق سے بھی ابن عمر رضی الله عنہما سے مروی ہے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ طلاق سنّی یہ ہے کہ آدمی طہر کی حالت میں جماع کیے بغیر طلاق دے، ۴- بعض کہتے ہیں کہ اگر اس نے طہر کی حالت میں تین طلاقیں دیں، تو یہ بھی طلاق سنّی ہو گی۔ یہ شافعی اور احمد بن حنبل کا قول ہے، ۵- اور بعض کہتے ہیں کہ تین طلاق طلاق سنی نہیں ہو گی، سوائے اس کے کہ وہ ایک ایک طلاق الگ الگ کر کے دے۔ یہ سفیان ثوری اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، ۶- اور یہ لوگ حاملہ کے طلاق کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ اسے جب چاہے طلاق دے سکتا ہے، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ۷- اور بعض کہتے ہیں: اسے بھی وہ ہر ماہ ایک طلاق دے گا۔