Narrated `Abdur-Rahman bin Abu Bakr: Abu Bakr invited a group of people and told me, Look after your guests. Abu Bakr added, I am going to visit the Prophet and you should finish serving them before I return. `Abdur-Rahman said, So I went at once and served them with what was available at that time in the house and requested them to eat. They said, Where is the owner of the house (i.e., Abu Bakr)? `Abdur-Rahman said, Take your meal. They said, We will not eat till the owner of the house comes. `Abdur-Rahman said, Accept your meal from us, for if my father comes and finds you not having taken your meal yet, we will be blamed severely by him, but they refused to take their meals . So I was sure that my father would be angry with me. When he came, I went away (to hide myself) from him. He asked, What have you done (about the guests)? They informed him the whole story. Abu Bakr called, O `Abdur Rahman! I kept quiet. He then called again. O `Abdur-Rahman! I kept quiet and he called again, O ignorant (boy)! I beseech you by Allah, if you hear my voice, then come out! I came out and said, Please ask your guests (and do not be angry with me). They said, He has told the truth; he brought the meal to us. He said, As you have been waiting for me, by Allah, I will not eat of it tonight. They said, By Allah, we will not eat of it till you eat of it. He said, I have never seen a night like this night in evil. What is wrong with you? Why don't you accept your meals of hospitality from us? (He said to me), Bring your meal. I brought it to him, and he put his hand in it, saying, In the name of Allah. The first (state of fury) was because of Satan. So Abu Bakr ate and so did his guests.
حَدَّثَنَا عَيَّاشُ بْنُ الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ تَضَيَّفَ رَهْطًا ، فَقَالَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ : دُونَكَ أَضْيَافَكَ فَإِنِّي مُنْطَلِقٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَافْرُغْ مِنْ قِرَاهُمْ قَبْلَ أَنْ أَجِيءَ ، فَانْطَلَقَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَأَتَاهُمْ بِمَا عِنْدَهُ ، فَقَالَ : اطْعَمُوا ، فَقَالُوا : أَيْنَ رَبُّ مَنْزِلِنَا ؟ قَالَ : اطْعَمُوا ، قَالُوا : مَا نَحْنُ بِآكِلِينَ حَتَّى يَجِيءَ رَبُّ مَنْزِلِنَا ، قَالَ : اقْبَلُوا عَنَّا قِرَاكُمْ فَإِنَّهُ إِنْ جَاءَ وَلَمْ تَطْعَمُوا لَنَلْقَيَنَّ مِنْهُ فَأَبَوْا فَعَرَفْتُ أَنَّهُ يَجِدُ عَلَيَّ ، فَلَمَّا جَاءَ تَنَحَّيْتُ عَنْهُ ، فَقَالَ : مَا صَنَعْتُمْ ؟ فَأَخْبَرُوهُ ، فَقَالَ : يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ فَسَكَتُّ ، ثُمَّ قَالَ : يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ فَسَكَتُّ ، فَقَالَ : يَا غُنْثَرُ أَقْسَمْتُ عَلَيْكَ إِنْ كُنْتَ تَسْمَعُ صَوْتِي لَمَّا جِئْتَ فَخَرَجْتُ ، فَقُلْتُ : سَلْ أَضْيَافَكَ ، فَقَالُوا : صَدَقَ أَتَانَا بِهِ قَالَ : فَإِنَّمَا انْتَظَرْتُمُونِي ، وَاللَّهِ لَا أَطْعَمُهُ اللَّيْلَةَ ، فَقَالَ الْآخَرُونَ : وَاللَّهِ لَا نَطْعَمُهُ حَتَّى تَطْعَمَهُ ، قَالَ : لَمْ أَرَ فِي الشَّرِّ كَاللَّيْلَةِ ، وَيْلَكُمْ مَا أَنْتُمْ لِمَ لَا تَقْبَلُونَ عَنَّا قِرَاكُمْ ، هَاتِ طَعَامَكَ فَجَاءَهُ فَوَضَعَ يَدَهُ ، فَقَالَ : بِاسْمِ اللَّهِ الْأُولَى لِلشَّيْطَانِ فَأَكَلَ وَأَكَلُوا .
ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید الجریری نے بیان کیا، ان سے ابوعثمان نہدی نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگوں کی میزبانی کی اور عبدالرحمٰن سے کہا کہ مہمانوں کا پوری طرح خیال رکھنا کیونکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا، میرے آنے سے پہلے انہیں کھانا کھلا دینا۔ چنانچہ عبدالرحمٰن کھانا مہمانوں کے پاس لائے اور کہا کہ کھانا کھائیے۔ انہوں نے پوچھا کہ ہمارے گھر کے مالک کہاں ہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ آپ لوگ کھانا کھا لیں۔ مہمانوں نے کہا کہ جب تک ہمارے میزبان نہ آ جائیں ہم کھانا نہیں کھائیں گے۔ عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ ہماری درخواست قبول کر لیجئے کیونکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے آنے تک اگر آپ لوگ کھانے سے فارغ نہیں ہو گئے تو ہمیں ان کی خفگی کا سامنا ہو گا۔ انہوں نے اس پر بھی انکار کیا۔ میں جانتا تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھ پر ناراض ہوں گے۔ اس لیے جب وہ آئے میں ان سے بچنے لگا۔ انہوں نے پوچھا: تم لوگوں نے کیا کیا؟ گھر والوں نے انہیں بتایا تو انہوں نے عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کو پکارا! میں خاموش رہا۔ پھر انہوں نے پکارا! عبدالرحمٰن! میں اس مرتبہ بھی خاموش رہا۔ پھر انہوں نے کہا ارے پاجی میں تجھ کو قسم دیتا ہوں کہ اگر تو میری آواز سن رہا ہے تو باہر آ جا، میں باہر نکلا اور عرض کیا کہ آپ اپنے مہمانوں سے پوچھ لیں۔ مہمانوں نے بھی کہا عبدالرحمٰن سچ کہہ رہا ہے۔ وہ کھانا ہمارے پاس لائے تھے۔ آخر والد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم لوگوں نے میرا انتظار کیا، اللہ کی قسم! میں آج رات کھانا نہیں کھاؤں گا۔ مہمانوں نے بھی قسم کھا لی اللہ کی قسم جب تک آپ نہ کھائیں ہم بھی نہ کھائیں گے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا بھائی میں نے ایسی خراب بات کبھی نہیں دیکھی۔ مہمانو! تم لوگ ہماری میزبانی سے کیوں انکار کرتے ہو۔ خیر عبدالرحمٰن کھانا لا، وہ کھانا لائے تو آپ نے اس پر اپنا ہاتھ رکھ کر کہا، اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں، پہلی حالت ( کھانا نہ کھانے کی قسم ) شیطان کی طرف سے تھی۔ چنانچہ انہوں نے کھانا کھایا اور ان کے ساتھ مہمانوں نے بھی کھایا۔