It has been narrated by 'Abdullah b. Rabah from Abu Huraira, who said:
Many deputations came to Mu'awiya. This was in the month of Ramadan. We would prepare food for one another. Abu Huraira was one of those who frequently invited us to his house. I said: Should I not prepare food and invite them to my place? So I ordered meals to be prepared Then I met Abu Huraira in the evening and said: (You will have) your meals with me tonight. He said: You have forestalled me. I said: Yes, and invited them. (When they had finished with the meals) Abu Huraira said: Should I not tell yon a tradition from your traditions, O ye assembly of the Ansar? He then gave an account of the Conquest of Mecca and said: The Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) advanced until he reached Mecca. He deputed Zubair on his right flank and Khalid on the left, and he despatched Abu Ubaida with the force that had no armour. They advanced to the interior of the valley. The Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) was in the midst of a large contingent of fighters. He saw me and said: Abu Huraira. I said: I am here at your call, Messenger of Allah I He said: Let no one come to me except the Ansar, so call to me the Ansar (only). Abu Huraira continued: So they gathered round him. The Quraish also gathered their ruffians and their (lowly) followers, and said: We send these forward. If they get anything, we shall be with them (to share it), and if misfortune befalls them, we shall pay (as compensation) whatever we are asked for. The Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said (to the Ansar): You see the ruffians and the (lowly) followers of the Quraish. And he indicated by (striking) one of his hands over the other that they should be killed and said: Meet me at as-Safa. Then we went on (and) if any one of us wanted that a certain person should be killed, he was killed, and none could offer any resistance. Abu Huraira continued: Then came Abu Sufyan and said: Messenger of Allah, the blood of the Quraish has become very cheap. There will be no Quraish from this day on. Then he (the Holy Prophet) said: Who enters the house of Abu Sufyan, he will be safe. Some of the Ansar whispered among themselves: (After all), love for his city and tenderness towards his relations have overpowered him. Abu Huraira said: (At this moment) revelation came to the Prophet ( صلی اللہ علیہ وسلم ) and when he was going to receive the Revelation, we understood it, and when he was (actually) receiving it, none of us would dare raise his eyes to the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) until the revelation came to an end. When the revelation came to an end, the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: O ye Assembly of the Ansar! They said: Here we are at your disposal, Messenger of Allah. He said: You were saying that love for his city and tenderness towards his people have overpowered this man. They said: So it was. He said: No, never. I am a bondman of God and His Messenger. I migrated towards God and towards you. I will live with you and will die with you. So, they (the Ansar) turned towards him in tears and they were saying: By Allah, we said what we said because of our tenacious attachment to Allah and His Messenger. The Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: Surely, Allah and His Messenger testify to your assertions and accept your apology. The narrator continued: People turned to the house of Abu Sufyan and people locked their doors. The Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) proceeded until he approached the (Black) Stone. He kissed it and circumambulated the Ka'ba. He reached near an idol by the side of the Ka'ba which was worshipped by the people. The Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) had a bow in his hand, and he was holding it from a corner. When he came near the idol, he began to pierce its eyes with the bow and (while doing so) was saying: Truth has been established and falsehood has perished. When he had finished the circumambulation, he came to Safa', ascended it to a height from where he could see the Ka'ba, raised his hands (in prayer) and began to praise Allah and prayed what he wanted to pray.
حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: وَفَدَتْ وُفُودٌ إِلَى مُعَاوِيَةَ وَذَلِكَ فِي رَمَضَانَ، فَكَانَ يَصْنَعُ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ الطَّعَامَ، فَكَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ مِمَّا يُكْثِرُ أَنْ يَدْعُوَنَا إِلَى رَحْلِهِ، فَقُلْتُ: أَلَا أَصْنَعُ طَعَامًا فَأَدْعُوَهُمْ إِلَى رَحْلِي؟ فَأَمَرْتُ بِطَعَامٍ يُصْنَعُ، ثُمَّ لَقِيتُ أَبَا هُرَيْرَةَ مِنَ الْعَشِيِّ، فَقُلْتُ: الدَّعْوَةُ عِنْدِي اللَّيْلَةَ، فَقَالَ: سَبَقْتَنِي، قُلْتُ: نَعَمْ، فَدَعَوْتُهُمْ، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: أَلَا أُعْلِمُكُمْ بِحَدِيثٍ مِنْ حَدِيثِكُمْ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، ثُمَّ ذَكَرَ فَتْحَ مَكَّةَ، فَقَالَ: أَقْبَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ، فَبَعَثَ الزُّبَيْرَ عَلَى إِحْدَى الْمُجَنِّبَتَيْنِ، وَبَعَثَ خَالِدًا عَلَى الْمُجَنِّبَةِ الْأُخْرَى، وَبَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ عَلَى الْحُسَّرِ، فَأَخَذُوا بَطْنَ الْوَادِي، وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي كَتِيبَةٍ، قَالَ: فَنَظَرَ فَرَآنِي، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ، فَقَالَ: «لَا يَأْتِينِي إِلَّا أَنْصَارِيٌّ» - زَادَ غَيْرُ شَيْبَانَ -، فَقَالَ: «اهْتِفْ لِي بِالْأَنْصَارِ»، قَالَ: فَأَطَافُوا بِهِ، وَوَبَّشَتْ قُرَيْشٌ أَوْبَاشًا لَهَا، وَأَتْبَاعًا، فَقَالُوا: نُقَدِّمُ هَؤُلَاءِ، فَإِنْ كَانَ لَهُمْ شَيْءٌ كُنَّا مَعَهُمْ، وَإِنْ أُصِيبُوا أَعْطَيْنَا الَّذِي سُئِلْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَرَوْنَ إِلَى أَوْبَاشِ قُرَيْشٍ، وَأَتْبَاعِهِمْ»، ثُمَّ قَالَ بِيَدَيْهِ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى، ثُمَّ قَالَ: «حَتَّى تُوَافُونِي بِالصَّفَا»، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا فَمَا شَاءَ أَحَدٌ مِنَّا أَنْ يَقْتُلَ أَحَدًا إِلَّا قَتَلَهُ، وَمَا أَحَدٌ مِنْهُمْ [ص:1406] يُوَجِّهُ إِلَيْنَا شَيْئًا، قَالَ: فَجَاءَ أَبُو سُفْيَانَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أُبِيحَتْ خَضْرَاءُ قُرَيْشٍ، لَا قُرَيْشَ بَعْدَ الْيَوْمِ، ثُمَّ قَالَ: «مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ آمِنٌ»، فَقَالَتِ الْأَنْصَارُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: أَمَّا الرَّجُلُ فَأَدْرَكَتْهُ رَغْبَةٌ فِي قَرْيَتِهِ، وَرَأْفَةٌ بِعَشِيرَتِهِ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَجَاءَ الْوَحْيُ وَكَانَ إِذَا جَاءَ الْوَحْيُ لَا يَخْفَى عَلَيْنَا، فَإِذَا جَاءَ فَلَيْسَ أَحَدٌ يَرْفَعُ طَرْفَهُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَنْقَضِيَ الْوَحْيُ، فَلَمَّا انْقَضَى الْوَحْيُ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ» قَالُوا: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: قُلْتُمْ: أَمَّا الرَّجُلُ فَأَدْرَكَتْهُ رَغْبَةٌ فِي قَرْيَتِهِ؟ قَالُوا: قَدْ كَانَ ذَاكَ، قَالَ: «كَلَّا، إِنِّي عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ، هَاجَرْتُ إِلَى اللهِ وَإِلَيْكُمْ، وَالْمَحْيَا مَحْيَاكُمْ وَالْمَمَاتُ مَمَاتُكُمْ»، فَأَقْبَلُوا إِلَيْهِ يَبْكُونَ وَيَقُولُونَ: وَاللهِ، مَا قُلْنَا الَّذِي قُلْنَا إِلَّا الضِّنَّ بِاللهِ وَبِرَسُولِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللهَ وَرَسُولَهُ يُصَدِّقَانِكُمْ، وَيَعْذِرَانِكُمْ»، قَالَ: فَأَقْبَلَ النَّاسُ إِلَى دَارِ أَبِي سُفْيَانَ، وَأَغْلَقَ النَّاسُ أَبْوَابَهُمْ، قَالَ: وَأَقْبَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَقْبَلَ إِلَى الْحَجَرِ، فَاسْتَلَمَهُ ثُمَّ طَافَ بِالْبَيْتِ، قَالَ: فَأَتَى عَلَى صَنَمٍ إِلَى جَنْبِ الْبَيْتِ كَانُوا يَعْبُدُونَهُ، قَالَ: وَفِي يَدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْسٌ وَهُوَ آخِذٌ بِسِيَةِ الْقَوْسِ، فَلَمَّا أَتَى عَلَى الصَّنَمِ جَعَلَ يَطْعُنُهُ فِي عَيْنِهِ، وَيَقُولُ: {جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ} [الإسراء: 81]، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ طَوَافِهِ أَتَى الصَّفَا، فَعَلَا عَلَيْهِ حَتَّى نَظَرَ إِلَى الْبَيْتِ، وَرَفَعَ يَدَيْهِ فَجَعَلَ يَحْمَدُ اللهَ وَيَدْعُو بِمَا شَاءَ أَنْ يَدْعُوَ
شیبان بن فروخ نے حدیث بیان کی ، کہا : ہمیں سلیمان بن مغیرہ نے حدیث سنائی ، کہا : ہمیں ثابت بنانے نے عبداللہ بن رباح سے حدیث بیان کی ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : کئی وفود حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے ، یہ رمضان کا مہینہ تھا ۔ ( عبداللہ بن رباح نے کہا : ) ہم ایک دوسرے کے لیے کھانا تیار کرتے تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جو ہمیں اکثر اپنی قیام گاہ پر بلاتے تھے ۔ ایک ( دن ) میں نے کہا : میں بھی کیوں نہ کھانا تیار کروں اور سب کو اپنی قیام گاہ پر بلاؤں ۔ میں نے کھانا بنانے کا کہہ دیا ، پھر شام کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ملا اور کہا : آج کی رات میرے یہاں دعوت ہے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا : تو نے مجھ سے پہلے کہہ دیا ۔ ( یعنی آج میں دعوت کرنے والا تھا ) میں نے کہا : ہاں ، پھر میں نے ان سب کو بلایا ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا : اے انصار کی جماعت! کیا میں تمہیں تمہارے متعلق احادیث میں سے ایک حدیث نہ بتاؤں؟ پھر انہوں نے مکہ کے فتح ہونے کا ذکر کیا ۔ اس کے بعد کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے یہاں تک کہ مکہ میں داخل ہو گئے ، پھر دو میں سے ایک بازو پر زبیر رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور دوسرے بازو پر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ، ابوعبیدہ ( بن جراح ) رضی اللہ عنہ کو ان لوگوں کا سردار کیا جن کے پاس زرہیں نہ تھیں ۔ انہوں نے گھاٹی کے درمیان والا راستہ اختیار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دستے میں تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا : "" ابوہریرہ! "" میں نے کہا : حاضر ہوں ، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" میرے ساتھ انصاری کے سوا کوئی نہ آئے ۔ ""
شیبان کے علاوہ دوسرے راویوں نے اضافہ کیا : آپ نے فرمایا : "" میرے لیے انصار کو آواز دو ۔ "" انصار آپ کے اردگرد آ گئے ۔ اور قریش نے بھی اپنے اوباش لوگوں اور تابعداروں کو اکٹھا کیا اور کہا : ہم ان کو آگے کرتے ہیں ، اگر کوئی چیز ( کامیابی ) ملی تو ہم بھی ان کے ساتھ ہیں اور اگر ان پر آفت آئی تو ہم سے جو مانگا جائے گا دے دیں گے ۔ ( دیت ، جرمانہ وغیرہ ۔ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" تم قریش کے اوباشوں اور تابعداروں ( ہر کام میں پیروی کرنے والوں ) کو دیکھ رہے ہو؟ "" پھر آپ نے دونوں ہاتھوں سے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر ( مارتے ہوئے ) اشارہ فرمایا : "" ( ان کا صفایا کر دو ، ان کا فتنہ دبا دو ) ، پھر فرمایا : "" یہاں تک کہ تم مجھ سے صفا پر آ ملو ۔ "" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا : پھر ہم چلے ، ہم میں سے جو کوئی ( کافروں میں سے ) جس کسی کو مارنا چاہتا ، مار ڈالتا اور کوئی ہماری طرف کسی چیز ( ہتھیار ) کو آگے تک نہ کرتا ، یہاں تک کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ آئے اور کہنے لگے : اللہ کے رسول! قریش کی جماعت ( کے خون ) مباح کر دیے گئے اور آج کے بعد قریش نہ رہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اپنا سابقہ بیان دہراتے ہوئے ) فرمایا : "" جو شخص ابوسفیان کے گھر کے اندر چلا جائے اس کو امن ہے ۔ "" انصار ایک دوسرے سے کہنے لگے : ان کو ( یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ) اپنے وطن کی الفت اور اپنے کنبے والوں پر شفقت آ گئی ہے ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا : اور وحی آنے لگی اور جب وحی آنے لگتی تھی تو ہم سے مخفی نہ رہتی ۔ جب وحی آتی تو وحی ( کا نزول ) ختم ہونے تک کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اپنی آنکھ نہ اٹھاتا تھا ، غرض جب وحی ختم ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" اے انصار کے لوگو! انہوں نے کہا : اللہ کے رسول! ہم حاضر ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" تم نے یہ کہا : اس شخص ( کے دل میں ) اپنے گاؤں کی الفت آ گئی ہے ۔ "" انہوں نے کہا : یقینا ایسا تو ہوا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بفرمایا : "" ہرگز نہیں ، میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ۔ میں نے اللہ تعالیٰ کی طرف ہجرت کی اور تمہاری طرف ( آیا ) اب میری زندگی بھی تمہاری زندگی ( کے ساتھ ) ہے اور موت بھی تمہارے ساتھ ہے ۔ "" یہ سن کر انصار روتے ہوئے آگے بڑھے ، وہ کہہ رہے تھے : اللہ تعالیٰ کی قسم! ہم نے کہا جو کہا محض اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شدید چاہت ( اور ان کی معیت سے محرومی کے خوف ) کی وجہ سے کہا تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "" بے شک اللہ اور اس کا رسول تمہاری تصدیق کرتے ہیں اور تمہارا عذر قبول کرتے ہیں ۔ "" پھر لوگ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے گھر کی طرف آ گئے اور لوگوں نے اپنے دروازے بند کر لیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجراسود کے پاس تشریف لے آئے اور اس کو چوما ، پھر بیت اللہ کا طواف کیا ، پھر آپ بیت اللہ کے پہلو میں ایک بت کے پاس آئے ، لوگ اس کی پوجا کیا کرتے تھے ، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کمان تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ایک طرف سے پکڑا ہوا تھا ، جب آپ بت کے پاس آئے تو اس کی آنکھ میں چبھونے لگے اور فرمانے لگے : "" حق آ گیا اور باطل مٹ گیا ۔ "" جب اپنے طواف سے فارغ ہوئے تو کوہِ صفا پر آئے ، اس پر چڑھے یہاں تک کہ بیت اللہ کی طرف نظر اٹھائی اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ، پھر اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے لگے اور اللہ سے جو مانگنا چاہا وہ مانگنے لگے