Narrated Aishah, Ummul Muminin: Ibn Awn said: I asked about the meaning of intisar (revenge) in the Quranic verse: But indeed if any do help and defend themselves (intasara) after a wrong (done) to them, against them there is no cause of blame. Then Ali ibn Zayd ibn Jad'an told me on the authority of Umm Muhammad, the wife of his father. Ibn Awn said: It was believed that she used to go to the Mother of the Faithful (i. e. Aishah). She said: The Mother of the Faithful said: The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وسلم came upon me while Zaynab, daughter of Jahsh, was with us. He began to do something with his hand. I signalled to him until I made him understand about her. So he stopped. Zaynab came on and began to abuse Aishah. She tried to prevent her but she did not stop. So he (the Prophet) said to Aishah: Abuse her. So she abused her and dominated her. Zaynab then went to Ali and said: Aishah abused you and did (such and such). Then Fatimah came (to the Prophet) and he said to her: She is the favourite of your father, by the Lord of the Kabah! She then returned and said to them: I said to him such and such, and he said to me such and such. Then Ali came to the Prophet صلی اللہ علیہ وسلم and spoke to him about that.
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي. ح وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، أخبرنا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، الْمَعْنَى وَاحِدٌ، أخبرنا ابْنُ عَوْنٍ، قَالَ: كُنْتُ أَسْأَلُ عَنِ الِانْتِصَارِ وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولَئِكَ مَا عَلَيْهِمْ مِنْ سَبِيلٍ سورة الشورى آية 41، فَحَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ أُمِّ مُحَمَّدٍ امْرَأَةِ أَبِيهِ، قَالَ ابْنُ عَوْنٍ: وَزَعَمُوا أَنَّهَا كَانَتْ تَدْخُلُ عَلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَتْ: قَالَتْ أُمُّ الْمُؤْمِنِينَ: دَخَلَ عَلَيَّ ّرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَنَا زَيْنَبُ بِنْتُ جَحْشٍ، فَجَعَلَ يَصْنَعُ شَيْئًا بِيَدِهِ، فَقُلْتُ: بِيَدِهِ حَتَّى فَطَّنْتُهُ لَهَا، فَأَمْسَكَ وَأَقْبَلَتْ زَيْنَبُ تَقَحَّمُ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَنَهَاهَا فَأَبَتْ أَنْ تَنْتَهِيَ، فَقَالَ لِعَائِشَةَ: سُبِّيهَا فَسَبَّتْهَا فَغَلَبَتْهَا، فَانْطَلَقَتْ زَيْنَبُ إِلَى عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَتْ: إِنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَقَعَتْ بِكُمْ وَفَعَلَتْ فَجَاءَتْ فَاطِمَةُ، فَقَالَ لَهَا: إِنَّهَا حِبَّةُ أَبِيكِ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ فَانْصَرَفَتْ، فَقَالَتْ لَهُمْ: أَنِّي قُلْتُ لَهُ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ لِي: كَذَا وَكَذَا، قَالَ: وَجَاءَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَلَّمَهُ فِي ذَلِكَ.
ابن عون کہتے ہیں آیت کریمہ «ولمن انتصر بعد ظلمه فأولئك ما عليهم من سبيل» اور جو لوگ اپنے مظلوم ہونے کے بعد ( برابر کا ) بدلہ لے لیں تو ایسے لوگوں پر الزام کا کوئی راستہ نہیں ( سورۃ الشوریٰ: ۴۱ ) میں بدلہ لینے کا جو ذکر ہے اس کے متعلق میں پوچھ رہا تھا تو مجھ سے علی بن زید بن جدعان نے بیان کیا، وہ اپنی سوتیلی ماں ام محمد سے روایت کر رہے تھے، ( ابن عون کہتے ہیں: لوگ کہتے ہیں کہ وہ ( ام محمد ) ام المؤمنین ۱؎ کے پاس جایا کرتی تھیں ) ام محمد کہتی ہیں: ام المؤمنین نے کہا: میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے، ہمارے پاس زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا تھیں آپ اپنے ہاتھ سے مجھے کچھ چھیڑنے لگے ( جیسے میاں بیوی میں ہوتا ہے ) تو میں نے ہاتھ کے اشارہ سے آپ کو بتا دیا کہ زینب بنت حجش بیٹھی ہوئی ہیں، تو آپ رک گئے اتنے میں زینب آ کر ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے الجھ گئیں اور انہیں برا بھلا کہنے لگیں، تو آپ نے انہیں اس سے منع فرمایا لیکن وہ نہ مانیں، تو آپ نے ام المؤمنین عائشہ سے فرمایا: تم بھی انہیں کہو ، تو انہوں نے بھی کہا اور وہ ان پر غالب آ گئیں، تو ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا، علی رضی اللہ عنہ کے پاس گئیں، اور ان سے کہا کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے تمہیں یعنی بنو ہاشم کو گالیاں دیں ہیں ( کیونکہ ام زینب ہاشمیہ تھیں ) پھر فاطمہ رضی اللہ عنہا ( نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی شکایت کرنے ) آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: قسم ہے کعبہ کے رب کی وہ ( یعنی عائشہ ) تمہارے والد کی چہیتی ہیں تو وہ لوٹ گئیں اور بنو ہاشم کے لوگوں سے جا کر انہوں نے کہا: میں نے آپ سے ایسا اور ایسا کہا تو آپ نے مجھے ایسا اور ایسا فرمایا، اور علی رضی اللہ عنہ بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ سے اس سلسلے میں گفتگو کی۔