It was narrated that Muhammad said:
I was sitting with some people in Al-Kufah in a large gathering of the Ansar, among whom was 'Abdur-Rahman bin Abi Laila. They spoke about the story of Subai'ah and I mentioned what 'Abdullah bin 'Utbah bin Mas'ud had said in meaning. (One of the narrators) Ibn 'Awn's saying was: when she gives birth. Ibn Abi Layla said: 'But his (paternal) uncle did not say that.' I raised my voice and said: 'Would I dare to tell lies about 'Abdullah bin 'Utbah when he is in the vicinity of Al-Kufah?' He said: Then I met Malik and said: 'What did Ibn Mas'ud say about the story of Subai'ah?' He said: 'He said: Are you going to be too strict with her and not allow her the concession (with regard to the 'Iddah)? The shorter Surah about women (At-Talaq) was revealed after the longer one (Al-Baqarah). '
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا فِي نَاسٍ بِالْكُوفَةِ فِي مَجْلِسٍ لِلْأَنْصَارِ عَظِيمٍ، فِيهِمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَى، فَذَكَرُوا شَأْنَ سُبَيْعَة فَذَكَرْتُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، فِي مَعْنَى قَوْلِ ابْنِ عَوْنٍ: حَتَّى تَضَعَ، قَالَ: ابْنُ أَبِي لَيْلَى: لَكِنَّ عَمَّهُ لَا يَقُولُ ذَلِكَ، فَرَفَعْتُ صَوْتِي، وَقُلْتُ: إِنِّي لَجَرِيءٌ أَنْ أَكْذِبَ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ وَهُوَ فِي نَاحِيَةِ الْكُوفَةِ، قَالَ: فَلَقِيتُ مَالِكًا، قُلْتُ: كَيْفَ كَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ يَقُولُ فِي شَأْنِ سُبَيْعَةَ ؟ قَالَ: قَالَ: أَتَجْعَلُونَ عَلَيْهَا التَّغْلِيظَ، وَلَا تَجْعَلُونَ لَهَا الرُّخْصَةَ ؟ لَأُنْزِلَتْ: سُورَةُ النِّسَاءِ الْقُصْرَى بَعْدَ الطُّولَى .
محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ میں کوفہ میں انصار کی ایک بڑی مجلس میں لوگوں کے درمیان بیٹھا ہوا تھا، اس مجلس میں عبدالرحمٰن بن ابی لیلی بھی موجود تھے، ان لوگوں نے سبیعہ رضی اللہ عنہا کا تذکرہ چھیڑا تو میں نے عبداللہ بن عتبہ بن مسعود کی روایت کا ذکر کیا جو ( روایت ) ابن عون کے قول «حتیٰ تضع» کے معنی اور حق میں تھی ( یعنی حمل والی عورت کی عدت وضع حمل ہے ) ، ( اس بات پر ) ابن ابی لیلیٰ نے کہا: لیکن ان کے ( یعنی عبداللہ بن عتبہ کے ) چچا ( ابن مسعود رضی اللہ عنہ ) اس کے قائل نہ تھے ( کہ حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے بلکہ وہ زیادہ مدت والی عدت کے قائل تھے ) تب میں نے اپنی آواز بلند کی اور ( زور سے ) کہا: کیا میں جرات کر سکتا ہوں کہ عبداللہ بن عتبہ پر جھوٹا الزام لگاؤں ( یہ نہیں ہو سکتا ) وہ ( عبداللہ بن عتبہ ) کوفہ کے علاقے میں موجود ہیں ( جس کو ذرا بھی شک و شبہ ہو وہ ان سے پوچھ سکتا ہے ) پھر میں مالک ( بن عامر ابن عود ) سے ملا اور ان سے پوچھا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سبیعہ رضی اللہ عنہا کے معاملے میں کیا کہتے تھے؟ مالک نے کہا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم لوگ اس پر سختی اور تنگی ڈالتے ہو ( اس سے زیادہ مدت والی عدت پر عمل کرانا چاہتے ہو ) اور اسے رخصت سے فائدہ نہیں اٹھانے دینا چاہتے۔ جب کہ چھوٹی سورۃ النساء ( یعنی سورۃ الطلاق، جس میں حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل بتائی گئی ہے ) بڑی سورۃ ( بقرہ ) کے بعد اتری ہے ۱؎۔