It was narrated that Ibn 'Abbas said:
The first instance of Qasamah during the Jahiliyyah involved a man from Banu Hashim who was employed by a man from Quraish, from another branch of the tribe. He went out with him, driving his camels and another man from Banu Hashim passed by them. The leather rope of that man's bag broke, so he said (to the hired worker): 'Help me by giving me a rope with which to tie the handle of my bag, lest the camels run away from me. 'So he gave him a rope and he tied his gab with it. When they halted, all the camels' legs were hobbled except one camel. The one who had hired him said: 'Why is his camel, out of all of them, not hobbled? He said: 'There is no rope for it. He said: 'Where is its rope? He said: A man from Banu Hashim passed by and the leather rope of his bag had broken, and he asked me to help him; he said: Help me by giving me a rope with which to tie the handle of my bag lest the camels run away from me, so I gave him a rope . He struck him with a stick, which led to his death.Then a man from Yemen passed by him (the man from Banu Hashim, (the man from Banu Hashim, just before he died) and he (the Hashimi man) said: 'Are you going to attend the Pilgrimage? He said: 'I do not think I will attend it, but perhaps I will attend it.' He said: 'Will you convey a message from me once in your lifetime? He said: 'Yes. 'He said: 'If you attend the pilgrimage, then call out, O family of Quraish! If they respond, then call out, O family of Hashim! If they respond, then ask for Abu Talib, and tell him that so and so killed me for a rope.' Then the hired worker died. When the one who had hired him cam, Abu Talib went to him and said: 'What happened to our companion? He said: 'He fell sick and I took good care of him, but he died, so I stopped and buried him.' He said: 'He deserved that from you. 'Some time passed, then the Yemeni man who had been asked to convey the message arrived at the time of the pilgrimage. He said: 'O family of Quraish! And they said: 'Here is Quraish.' He said: 'O family of Banu Hashim! They said: 'Here is Banu Hashim.' He said 'Where is Abu Talib? He said: 'Here is Abu Talib.' He said: 'so and so asked me to convey a message to you, that so and so killed him for a camel's rope.' Abu Talib went to him and said 'Choose one of three alternatives that we are offering you. If you wish, you may give us one hundred camels, because you killed our companion by mistake: or if you wish, fifty of your men may swear an oath that you did not kill him; or if you wish, we will kill you in retaliation. 'He went to his people and told them about that, and they said: 'We will swear the oath.' Then a woman from Banu Hashim, who was married to one of their men and had born him a child, came to Abu Talib and said:' O Abu Talib, I wish that my son, who is one of these fifty men, should be excused from having to take the oath., So the excused him. Then one of the men came to him and said: 'O Abu Talib, you want fifty men to take the oath in lieu of one hundred camels, which means that each man may give two camels instead, so here are two camels; take them from me, and do not make me take the oath.' So he accepted them, and did not make him take the oath. Then forty-eight men came and took the oath. Ibn 'Abbas said: By the One in Whose hand is my soul, by the time a year has passed, none of those forty-eight men remained alive.
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَطَنٌ أَبُو الْهَيْثَمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو يَزِيدَ الْمَدَنِيُّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَوَّلُ قَسَامَةٍ كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ كَانَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ اسْتَأْجَرَ رَجُلًا مِنْ قُرَيْشٍ مِنْ فَخِذِ أَحَدِهِمْ، قَالَ: فَانْطَلَقَ مَعَهُ فِي إِبِلِهِ فَمَرَّ بِهِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ قَدِ انْقَطَعَتْ عُرْوَةُ جُوَالِقِهِ، فَقَالَ: أَغِثْنِي بِعِقَالٍ أَشُدُّ بِهِ عُرْوَةَ جُوَالِقِي لَا تَنْفِرُ الْإِبِلُ، فَأَعْطَاهُ عِقَالًا يَشُدُّ بِهِ عُرْوَةَ جُوَالِقِهِ، فَلَمَّا نَزَلُوا وَعُقِلَتِ الْإِبِلُ إِلَّا بَعِيرًا وَاحِدًا، فَقَالَ الَّذِي اسْتَأْجَرَهُ: مَا شَأْنُ هَذَا الْبَعِيرِ لَمْ يُعْقَلْ مِنْ بَيْنِ الْإِبِلِ، قَالَ: لَيْسَ لَهُ عِقَالٌ، قَالَ: فَأَيْنَ عِقَالُهُ ؟ قَالَ: مَرَّ بِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ قَدِ انْقَطَعَتْ عُرْوَةُ جُوَالِقِهِ فَاسْتَغَاثَنِي، فَقَالَ: أَغِثْنِي بِعِقَالٍ أَشُدُّ بِهِ عُرْوَةَ جُوَالِقِي لَا تَنْفِرُ الْإِبِلُ فَأَعْطَيْتُهُ عِقَالًا فَحَذَفَهُ بِعَصًا كَانَ فِيهَا أَجَلُهُ فَمَرَّ بِهِ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ، فَقَالَ: أَتَشْهَدُ الْمَوْسِمَ، قَالَ: مَا أَشْهَدُ وَرُبَّمَا شَهِدْتُ، قَالَ: هَلْ أَنْتَ مُبَلِّغٌ عَنِّي رِسَالَةً مَرَّةً مِنَ الدَّهْرِ ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: إِذَا شَهِدْتَ الْمَوْسِمَ فَنَادِ يَا آلَ قُرَيْشٍ، فَإِذَا أَجَابُوكَ فَنَادِ يَا آلَ هَاشِمٍ، فَإِذَا أَجَابُوكَ فَسَلْ عَنْ أَبِي طَالِبٍ، فَأَخْبِرْهُ أَنَّ فُلَانًا قَتَلَنِي فِي عِقَالٍ وَمَاتَ الْمُسْتَأْجَرُ، فَلَمَّا قَدِمَ الَّذِي اسْتَأْجَرَهُ أَتَاهُ أَبُو طَالِبٍ، فَقَالَ: مَا فَعَلَ صَاحِبُنَا ؟ قَالَ: مَرِضَ فَأَحْسَنْتُ الْقِيَامَ عَلَيْهِ، ثُمَّ مَاتَ فَنَزَلْتُ فَدَفَنْتُهُ، فَقَالَ: كَانَ ذَا أَهْلَ ذَاكَ مِنْكَ فَمَكُثَ حِينًا، ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ الْيَمَانِيَّ الَّذِي كَانَ أَوْصَى إِلَيْهِ أَنْ يُبَلِّغَ عَنْهُ وَافَى الْمَوْسِمَ، قَالَ: يَا آلَ قُرَيْشٍ، قَالُوا: هَذِهِ قُرَيْشٌ، قَالَ: يَا آلَ بَنِي هَاشِمٍ، قَالُوا: هَذِهِ بَنُو هَاشِمٍ، قَالَ: أَيْنَ أَبُو طَالِبٍ ؟ قَالَ: هَذَا أَبُو طَالِبٍ، قَالَ: أَمَرَنِي فُلَانٌ أَنْ أُبَلِّغَكَ رِسَالَةً أَنَّ فُلَانًا قَتَلَهُ فِي عِقَالٍ فَأَتَاهُ أَبُو طَالِبٍ، فَقَالَ: اخْتَرْ مِنَّا إِحْدَى ثَلَاثٍ إِنْ شِئْتَ أَنْ تُؤَدِّيَ مِائَةً مِنَ الْإِبِلِ، فَإِنَّكَ قَتَلْتَ صَاحِبَنَا خَطَأً، وَإِنْ شِئْتَ يَحْلِفْ خَمْسُونَ مِنْ قَوْمِكَ أَنَّكَ لَمْ تَقْتُلْهُ، فَإِنْ أَبَيْتَ قَتَلْنَاكَ بِهِ، فَأَتَى قَوْمَهُ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُمْ، فَقَالُوا: نَحْلِفُ، فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ كَانَتْ تَحْتَ رَجُلٍ مِنْهُمْ قَدْ وَلَدَتْ لَهُ، فَقَالَتْ: يَا أَبَا طَالِبٍ أُحِبُّ أَنْ تُجِيزَ ابْنِي هَذَا بِرَجُلٍ مِنَ الْخَمْسِينَ، وَلَا تُصْبِرْ يَمِينَهُ فَفَعَلَ فَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْهُمْ، فَقَالَ: يَا أَبَا طَالِبٍ أَرَدْتَ خَمْسِينَ رَجُلًا أَنْ يَحْلِفُوا مَكَانَ مِائَةٍ مِنَ الْإِبِلِ يُصِيبُ كُلَّ رَجُلٍ بَعِيرَانِ فَهَذَانِ بَعِيرَانِ فَاقْبَلْهُمَا عَنِّي، وَلَا تُصْبِرْ يَمِينِي حَيْثُ تُصْبَرُ الْأَيْمَانُ فَقَبِلَهُمَا وَجَاءَ ثَمَانِيَةٌ وَأَرْبَعُونَ رَجُلًا حَلَفُوا، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا حَالَ الْحَوْلُ وَمِنَ الثَّمَانِيَةِ وَالْأَرْبَعِينَ عَيْنٌ تَطْرِفُ .
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانے کا پہلا قسامہ یہ تھا کہ بنی ہاشم کا ایک شخص تھا، قریش یعنی اس کی شاخ میں سے کسی قبیلے کے ایک شخص نے اسے نوکری پر رکھا، وہ اس کے ساتھ اس کے اونٹوں میں گیا، اس کے پاس سے بنی ہاشم کے ایک شخص کا گزر ہوا جس کے توش دان کی رسی ٹوٹ گئی تھی، وہ بولا: میری مدد کرو ایک رسی سے جس سے میں اپنے توش دان کا منہ باندھ سکوں تاکہ ( اس میں سے سامان گرنے سے ) اونٹ نہ بدکے، چنانچہ اس نے اسے توش دان کا منہ باندھنے کے لیے رسی دی، جب انہوں نے قیام کیا اور ایک اونٹ کے علاوہ سبھی اونٹ باندھ دیے گئے تو جس نے نوکر رکھا تھا، اس نے کہا: اس اونٹ کا کیا معاملہ ہے، تمام اونٹوں میں اسے کیوں نہیں باندھا گیا؟ اس نے کہا: اس کے لیے کوئی رسی نہیں ہے، اس نے کہا: اس کی رسی کہاں گئی؟ وہ بولا: میرے پاس سے بنی ہاشم کا ایک شخص گزرا جس کے توش دان کا منہ باندھنے کی رسی ٹوٹ گئی تھی، اس نے مجھ سے مدد چاہی اور کہا: مجھے توش دان کا منہ باندھنے کے لیے ایک رسی دے دو تاکہ اونٹ نہ بدکے، میں نے اسے رسی دے دی، یہ سن کر اس نے ایک لاٹھی نوکر کو ماری، اسی میں اس کی موت تھی ( یعنی یہی چیز بعد میں اس کے مرنے کا سبب بنی ) اس کے پاس سے یمن والوں میں سے ایک شخص کا گزر ہوا، اس نے کہا: کیا تم حج کو جا رہے ہو؟ اس نے کہا: جا نہیں رہا ہوں لیکن شاید جاؤں، اس نے کہا: کیا تم ( اس موقع سے ) کسی بھی وقت میرا یہ پیغام پہنچا دو گے؟ اس نے کہا: ہاں، کہا: جب تم حج کو جاؤ تو پکار کر کہنا: اے قریش کے لوگو! جب وہ آ جائیں تو پکارنا! اے ہاشم کے لوگو! جب وہ آ جائیں تو ابوطالب کے بارے میں پوچھنا پھر انہیں بتانا کہ فلاں شخص نے مجھے ایک رسی کے سلسلے میں مار ڈالا ہے اور ( یہ کہہ کر ) نوکر مر گیا، پھر جب وہ شخص آیا جس نے نوکری پر اسے رکھا تھا تو اس کے پاس ابوطالب گئے اور بولے: ہمارے آدمی کا کیا ہوا؟ وہ بولا: وہ بیمار ہو گیا، میں نے اس کی اچھی طرح خدمت کی پھر وہ مر گیا، میں راستے میں اترا اور اسے دفن کر دیا۔ ابوطالب بولے: تمہاری طرف سے وہ اس چیز کا حقدار تھا، وہ کچھ عرصے تک رکے رہے پھر وہ یمنی آیا جسے اس نے وصیت کی تھی کہ جب موسم حج آیا تو وہ اس کا پیغام پہنچا دے۔ اس نے کہا: اے قریش کے لوگو! لوگوں نے کہا: یہ قریش ہیں، اس نے کہا: اے بنی ہاشم کے لوگو! لوگوں نے کہا: یہ بنی ہاشم ہیں، اس نے کہا: ابوطالب کہاں ہیں؟ کسی نے کہا: ابوطالب یہ ہیں۔ وہ بولا: مجھ سے فلاں نے کہا ہے کہ میں آپ تک یہ پیغام پہنچا دوں کہ فلاں نے اسے ایک رسی کی وجہ سے مار ڈالا، چنانچہ ابوطالب اس کے پاس آئے اور بولے: تم تین میں سے کوئی ایک کام کرو، اگر تم چاہو تو سو اونٹ دے دو، اس لیے کہ تم نے ہمارے آدمی کو غلطی سے مار ڈالا ہے ۱؎ اور اگر چاہو تو تمہاری قوم کے پچاس آدمی قسم کھائیں کہ تم نے اسے نہیں مارا، اگر تم ان دونوں باتوں سے انکار کرتے ہو تو ہم تمہیں اس کے بدلے قتل کریں گے، وہ اپنی قوم کے پاس آیا اور ان سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: ہم قسم کھائیں گے، پھر بنی ہاشم کی ایک عورت ابوطالب کے پاس آئی جو اس قبیلے کے ایک شخص کی زوجیت میں تھی، اس شخص سے اس کا ایک لڑکا تھا، وہ بولی: ابوطالب! میں چاہتی ہوں کہ آپ ان پچاس میں سے میرے اس بیٹے کو بخش دیں اور اس سے قسم نہ لیں، ابوطالب نے ایسا ہی کیا، پھر ان کے پاس ان میں کا ایک شخص آیا اور بولا: ابوطالب! آپ سو اونٹوں کی جگہ پچاس آدمیوں سے قسم لینا چاہتے ہو؟ ہر شخص کے حصے میں دو اونٹ پڑیں گے، تو لیجئیے دو اونٹ اور مجھ سے قسم مت لیجئیے جیسا کہ آپ اوروں سے قسم لیں گے، ابوطالب نے دونوں اونٹ قبول کر لیے، پھر اڑتالیس آدمی آئے اور انہوں نے قسم کھائی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے! ابھی سال بھی نہ گزرا تھا کہ ان اڑتالیس میں سے ایک بھی آنکھ جھپکنے والی نہیں رہی ( یعنی سب مر گئے ) ۲؎۔