جامعات ہمارے مستقبل کے معماروں کی اہم درسگاہیں ثابت ہوتی ہیں جہاں سے صرف تعلیم ہی نہیں زندگی کے تمام پہلوئوں سے نمٹنے کے طور طریقوں سے متعلق تربیتی ورکشاپس تک کروائی جاتی ہیں۔
یہی حال ملک کی سب سے بڑی جامعہ ''جامعہ کراچی'' کا بھی ہے جو اپنے قیام سے اب تک کروڑوں کی تعداد میں پاکستان کے طلبہ و طالبات کو تعلیم و آگہی فراہم کرنے میں پیش پیش رہا ہے۔
تعلیمی سرگرمیوں سے بالاتر ہو کر اگر ہم جامعہ کے سیکیورٹی انتظامات کے حوالے سے بات کی جائے تو کئی دہائیوں سے دیکھا یہ جارہا ہے یہاں سیکیورٹی کے خدشات ہر گزرتے دور میں بڑھتے جارہے ہیں۔
رواں سال جامعہ میں ہراسانی کے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں جن سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ابھی حال ہی میں جامعہ کراچی کے اندر موجود آئی بی اے ڈیپارٹمنٹ کی طلبہ و طالبہ کے ساتھ پیش آیا۔
۵ اکتوبر کو شب ساڑھے 11 بجے ایک طالب علم اور طالبہ اپنی گاڑی میں جامعہ سے واپس آرہے تھے جب انہیں نو عمر لڑکوں کے ایک گروپ نے جامعہ میں روک کر ہراساں کرنے کی کوشش کی۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ روکنے والے ۱۰ لڑکوں کے گروپ میں ۱۶ سے ۲۰ سال کی عمر کے لڑکے شامل تھے جو کہ جامعہ اسٹاف کے ہی بچے ہیں۔
جامعہ کراچی کے کیمپس سیکورٹی ایڈوائزر ڈاکٹر معیز خان کے مطابق:
جامعہ کی حدود میں پیش آنے والے واقعے پر افسوس ہے، یہ واقعہ 5 اکتوبر کو پیش آیا تھا اور 7 اکتوبر کو جامعہ کراچی انتظامیہ کو درخواست موصول ہوئی، واقعے میں ملوث لڑکوں کی کل رات ہی نشاندہی کرلی گئی تھی اور اب وہ پولیس کی حراست میں ہیں۔
واضح رہے کہ سوشل میڈیا پر واقعے سے متاثرہ طلبہ نے پوسٹ شیئر کیا جس کے بعد اس واقعے کی اطلاع موصول ہوئی۔
یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے جامعہ میں آج سے قبل بھی ہزاروں لڑکیوں کو حراساں کیا گیا ہے جن کے متاثرین تو ہیں مگر کاروائی کرنے والا کوئی نہیں اور اگر اس مسئلے پر بات بھی کی جاتی ہے تو بااثر افراد کی جانب سے کہیں نہ کہیں روک ٹوک کے معملات دیکھنے میں آتے ہیں کیونکہ کوئی عام انسان نہیں بلکہ اکثر و بیشتر خود جامعہ کے اساتذہ اس گھنائونے افعال میں ملوث پائے گئے ہیں۔
سیکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر جامعہ کے رکھوالوں کو چاہیئے کہ وہ کم ازکم بنیادی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں، جامعہ میں سٹریٹ لائٹس اور مکمل طور پر تربیت یافتہ سیکیورٹی اہلکاروں کو فائز کیا جائے تاکہ کسی حد تک لڑکیوں اور لڑکوں دونوں کو محفوظ بنانے کے لیئے بہتر اقدامات اٹھائے جاسکیں۔