بالو شاہی مٹھائی کہاں سے آئی؟ جانیں اس سے متعلق دلچسپ معلومات
مٹھائی کا دیوانہ ہر پاکستانی ہے چاہے وہ گلاب جامن ہو یا برفی، بالوشاہی ہو یا پیڑے پتیسہ۔ کوئی بھی تقریب ان میٹھی میٹھی مٹھائیوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتی ہے۔ مگر آپ کو یہ جان کر حیرانگی ہوگی کہ ہر مٹھائی اپنے اندر ایک دور سمیٹے ہوئے ہے۔ ہر کھانا کسی نہ کسی پرانے وقت کی خاص یاد دلاتا ہے لیکن اب اس کا علم کھانے والوں کو بلکل بھی نہیں ہے۔
بالوشاہی جس کو ہندی میں بدوشہ کہتے ہیں یہ دراصل سنسکرت اور فارسی زبان کے ملاپ سے بنا ایک لفظ ہے۔
یہ مٹھائی دراصل اپنے نام سے ہی شاہی دسترخوان کو ظاہر کرتی ہے۔ بالوشاہی جوکہ برصغیر انڈیا/پاکستان کی تاریخ سے جڑی ایک مٹھائی ہے۔ اس مٹھائی کو مغل شہنشاہ اور بادشاہوں کے محل میں بطورِ خاص منہ میٹھا کرنے کے لئے خاص مواقعوں پر یا مہمانوں کی آؤ بھگت کے لئے پیش کی جاتی تھی۔
بالو سے مہمان کو مخاطب کیا جاتا تھا اور شاہی یعنی بادشاہ کا رفیق/دوست۔ ان دونوں لفظوں کے ملاپ سے یہ ''بالوشاہی'' وجود میں آئی۔ مغل باشاہ بہادر شاہ ظفر کے دور میں اس مٹھائی کو سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا تھا۔
اب یہ مختلف طریقوں اور ذائقوں میں دستیاب ہے، انڈیا میں راجستھانی بدوشہ یا بالوشاہی کا ذائقہ اور بنانے کا طریقہ مختلف اور حیدرآباد دکن کا مختلف ہے۔ پاکستان میں بھی دو طرح کی بالوشاہی ملتی ہے جس کا ذائقہ تو ایک جیسا ہی ہوتا ہے مگر رنگ میں ہلکا اور گہرا براؤن اور لال یا سرخ رنگ میں ملتی ہے۔