اکثر گھروں میں بیٹے کو اہمیت، اچھا کھانا پینا، بہتر تعلیم، اچھا لباس، آرام دہ بستر، دادا دادی، نانا نانی کا چہیتا، ماں باپ کا لاڈلا، مستقبل کا سہارا، سمجھا جاتا ہے جبکہ لڑکیوں کے حوالے سے گھر کے ہر فرد کی سوچ کافی مختلف ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر جب والدین کی بیٹیاں اپنی تعلیم مکمل کرلیتی ہیں تو انہیں فوراً ان کی شادی کی فکر لاحق ہونے لگ جاتی ہے اور انہیں بوجھ سمجھا جانے لگتا ہے آخر ہمارے معاشرے میں ایسا کیوں ہوتا ہے؟
یقیناً اس کے لئے ہمیں اپنی سوچ بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ بیٹیوں کے تعلیمی مستقبل کی اس طرح منصوبہ بندی کریں کہ اس کا مقصد محض اچھے رشتے کا حصول نہ ہو بلکہ اپنی بیٹی کو اس قابل بنانا ہونا چاہئیے کہ آگے چل کر معاشی طور پر مستحکم ہوسکیں اور گھریلو معاملات میں اپنے آپ کو آگے پیش کرسکیں کہ وہ اچھا کما سکے اپنے پیروں پہ خود کھڑا ہوسکیں۔
خوش قسمتی سے آج بھی بہت سے گھرانے ایسے ہیں جہاں بیٹیوں اور بیٹوں دونوں کے لئے مساوی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ بلاشبہ جن کے گھر بیٹے نہیں وہ اپنی بیٹیوں کی بہترین پرورش کرتے ہیں اور ان کے والدین انہیں باہمت اور بااختیار بناتے ہیں اور ایسا دیکھا بھی گیا ہے۔
آج پاکستان کے کئی شہروں میں خواتین اور لڑکیاں موٹر سائیکلنگ کررہی ہیں، وہ موٹر سائیکل پر سوار کر کے اپنے گھر والوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر بھی جاتی ہیں کیوںکہ انہیں بااختیار بنایا گیا ہے انہیں آگاہی فراہم کی گئی ہے۔ والدین اگر بیٹیوں پر توجہ دیں اور انہیں اپنی قسمت بنائیں وہ والدین کی مالی طور پر مدد کر سکتی ہیں، بڑھاپے میں ان کی دیکھ بھال کر سکتی ہے، خاندانی کاروبار بھی سنبھال سکتی ہیں اور خاندان کی رہنمائی کر سکتی ہے۔