کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر صرف اپنے نام اور رقبے کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ مسائل کے لحاظ سے بھی ہے۔ کراچی کو لاوارث کہنا بالکل غلط نہیں ہے۔ جو شہر پورے ملک کو کما کر دیتا ہے وہی بیچارہ بنیادی ضروریات سے محروم ہوکر رہ گیا ہے۔ کراچی کے کم و بیش ہر علاقے میں پانی کی قلت دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔ ٹینکر مافیا کا راج ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ لائنوں میں پانی آتا نہیں، ٹینکر ڈلوا ڈلوا کر جیبیں خالی ہوچکی ہیں۔
اگر ٹینکر بھی نہ ڈلوائیں تو وہ منرل واٹر کے نام پر عام سی لائن میں آنے والے پانی کی بوتلیں خریدتے رہیں۔ پانی کی بوتلیں بھی مہینے میں 12 سے 15 سو تک کا خرچہ بڑھا دیتی ہیں۔ لیکن کیا کریں مجبوری کا عالم ہی یہی ہے کہ جب لائن میں پانی نہیں ہوگا، ٹینکر خریدنے کے ہزاروں روپے نہیں ہوں گے تو ان بوتلوں پر ہی گزارہ کرنا پڑے گا۔

کراچی کا موازنہ اگر پانی کے معاملے میں پورے ملک سے کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ سمندر کنارے آباد ہونے والا شہر ہی پانی کی بوند بوند کو ترس گیا ہے۔ مکین مجبور ہیں۔ ٹینکر مافیا کو کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں ہے۔
اسی حوالے سے
سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس سید حسن اظہر رضوی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے ڈالمیا روڈ پر واقع مجاہد کالونی میں پینے کے پانی کی قلت سے متعلق درخواست پر واٹر بورڈ حکام کو ہائیڈرنٹس سے پانی کی سپلائی کا طریقہ کار عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔

عدالت نے یہ بھی استفسار کیا کہ ہمیں یہ بھی بتایا جائے ٹینکرز سے پانی کی سپلائی کو شفاف بنانے کے لیے کیا طریقہ کار ہے؟ کرپشن اور چوری روکنے کے لیے اب تک کیا کچھ آپ نے کیا ہے؟ ایس او پیز کیا ہیں؟ ایک ہائیڈرنٹس سے کتنے ٹینکرز جاتے ہیں؟ روز کتنے ٹینکرز کتنی جگہوں پر پانی سپلائی کرتے ہیں؟
جسٹس سید حسن اظہر نے یہ بھی ریمارکس دیئے کہ پانی ٹینکرز میں سے آرہا ہے تو لائنوں سے بھی تو آسکتا ہے۔
جس پر
درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف دیا کہ پانی کے ساتھ یہ ٹینکر مافیا بجلی بھی چوری کرتے ہیں۔ جس سے مجاہد کالونی کے مکین ہی نہیں کراچی میں زیادہ تر لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس چکے۔

گلشنِ اقبال کے ایک صارف نے اپنے ماہانہ اخراجات کے حوالے سے بتایا کہ:
''
میں ہر ماہ 12 ہزار سے زائد کا ٹینکر ڈلواتا ہوں، کیونکہ لائن میں پانی کبھی آتا ہے اور کبھی نہیں آتا۔ یا ایک دن پانی آتا ہے تو ایک دن نہیں آتا۔ ایسے میں گھر بھر کا استعمال زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ اگر ٹینکر نہ ڈلواؤں تو پانی کی بوتلیں خریدنی پڑتی ہیں۔ بسا اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان پانی کی شفاف دکھنے والی بوتلوں میں بھی کچرے والا پانی ہوتا ہے۔ منرل واٹر کے نام پر بھی یہ لوگ ہمیں لوٹ رہے ہیں۔
''
اگر یونہی کراچی کے مکین پانی کے لیے ترستے اور ٹینکرز مافیا کے ہاتھوں لُٹتے رہے تو ان کا کیا بنے گا اس حوالے سے یقیناً حکومتی سطح پر اداروں اور حکمرانوں کو سوچنا چاہیے۔