حق مہر نکاح کے وقت طے کیا جاتا ہے جس کی مختلف اقسام ہوتی ہیں البتہ عام طور پر یہ ایک ایسی رقم ہوتی ہے جسے خدانخواستہ طلاق کی صورت میں مرد کو بیوی کو ادا کرنا لازمی ہوتا ہے۔ حال ہی میں وفاقی شرعی عدالت کا کہنا ہے کہ خلع لینے والی خواتین اپنے سابقہ شوہر کو حق مہر کی رقم واپس کردیں۔ خلع لینے والی عورتوں کو حق مہر کی رقم چھوڑ دینی چاہیے۔ یکم مئی سے باقاعدہ اس قانون کا باقاعدہ اطلاق ہوگا۔ البتہ شوہر اگر خود بیوی کو طلاق دیتا ہے تو اسے حق مہر دینا ہوگا۔
حق مہر کے معاملے پر عدالت کا نیا قانون
حق مہر کے بارے میں تفصیلاً عدالت کا کہنا تھا کہ جو حق مہر شوہر اپنی بیوی کو فوری ادا کرتا ہے وہ معجل کہلاتا ہے جبکہ ملتوی ہونے والا حق مہر غیر معجل کہلاتا ہے۔ ہفتے 17 فروری کے دن وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس محمد نور کنزئی۔ جسٹس ڈاکٹڑ سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین ایم شیخ نے اپنے فیصلے میں 1964 کے عائلی قانون کی دفعہ X اور ذیلی دفعہ V اور VI میں 2015 کی ترامیم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ خلع لینے والی خواتین حق مہر کی رقم سابقہ شوہروں کو واپس کریں۔
حق مہر کا مطالبہ کرنے والی خواتین
بزنس ریکورڈر کے مطابق شرعی عدالت کا یہ فیصلہ ایسے جوڑوں کو دیکھنے کے بعد کیا گیا جن میں خلع کی اپیل کرنے کے بعد بیویاں سابقہ شوہروں سے بار بار حق مہر کی رقم کا مطالبہ کررہی تھیں۔ شرعی عدالت نے مزید کہا کہ یکم مئی کے بعد سول فیملی کورٹ میں آنے والے تمام کیسز پر اس فیصلے کا اطلاق ہوگا۔
وفاقی شرعی عدالت
وفاقی شرعی عدالت اسلامی جموریا پاکستان میں شرعی اور ملکی آئین کے حوالے سے قوانین مرتب اور فیصلہ سازی کرتی ہے۔ اس عدالت کا قیام 1980 میں صدر جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں ہوا۔ وفاقی شرعی عدالت میں حدود آرڈیننس کے متعلق تمام کیسز سنے جاتے ہیں۔ وفاقی شرعی عدالت میں صدرِ پاکستان کی جانب سے اپوائنٹ کردہ 8 ججز متعین کیے جاتے ہیں جن میں سے 3 کو دینِ اسلام کا عالم ہونا لازمی ہے۔ اس عدالت کو پاکستان میں آئینی حیثیت حاصل ہے اور ملک کی دیگر عدالتوں کا کوئی فیصلہ اسلامی شریعت سے متصادم ہو تو وفاقی شرعی عدالت اس سلسلے میں آئینی خدمات پیش کرتی ہے۔

پاکستان میں اس وقت طلاق اور خلع لینے کی شرع بڑھتی جارہی ہے جس کی وجہ افسوس ناک طور پر عورت اور مرد دونوں جانب سے ہی غیر متوازن رویہ ہے۔ جہاں اکثر مردوں کا پرتشدد رویہ سامنے آتا ہے وہیں خواتین کی جانب سے بھی غیر ضروری فرمائشیں ہوتی ہیں جس کا نتیجہ طلاق یا خلع کی صورت میں نکلتا ہے۔ عدالت کے اس فیصلے سے اگرچہ اس ناپسندیدہ عمل کو روکنے میں تو مدد نہیں ہوگی البتہ اس سے صرف مالی فوائد حاصل کرنے کے لئے شادی کرنے والی خواتین کی حوصلہ شکنی ہوگی جبکہ خود طلاق دینے کی صورت میں مرد پر حق مہر ادا کرنا ہر حال میں لازمی ہوگا۔