ملک بھر میں گرمیاں جتنی تیز ہو رہی ہیں اتنا ہی زیادہ لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ بے وقت کی لوڈ شیڈنگ عام لوگوں کے لئے وبالِ جان تو ہے ہی لیکن اکثر اسپتالوں میں یہ جان لیوا بھی ثابت ہوتی ہے۔ حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک ایسی تصویر وائرل ہوئی ہے جسے دیکھتے ہی دل دکھ سے بھر جاتا ہے۔
تصویر میں لیٹا پیارا سا بچہ دراصل انتقال کرچکا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی اس تصویر میں بھی لکھا ہوا ہے کہ یہ بچہ دوران پیدائش اسپتال میں لوڈشیڈنگ ہونے اور بروقت جنریٹر نہ چلائے جانے کی وجہ سے جان کی بازی ہار گیا ہے۔ زرا سوچیں کہ 9 مہینہ اس بچے کو اپنے جسم میں پالنے اور زچگی کی تکلیفیں سہنے والی ماں پر اپنے نومولود کے مردہ ہونے کی خبر سن کر کیا گزری ہوگی؟
ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم اپنے حقوق سے خود ہی واقف نہیں۔ اگر لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ ہے تو عوام نے اسے جوں کا توں قبول کرلیا ہے۔ بجلی فراہم کرنے والے ادارے اخلاقی ضابطوں کی وجہ سے اس بات کے پابند ہیں کہ اسپتالوں میں بجلی کی فراہمی معطل نہ کی جائے لیکن گلی گلی میں ایسی کئی کلینکس بھی کھلی ہوتی ہیں جنھیں صرف ایک کمرہ بنا کر میٹرنٹی ہوم کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔ یہاں سہولیات ناکافی ہوتی ہیں جن کی وجہ سے ایسی افسوسناک خبریں سامنے آتی ہیں۔ دوسری جانب حکومت کو عوام کا کوئی احساس نہیں۔ اخبارات میں عوام کی درد سے تڑپتی اور دم توڑتے لوگوں کی خبر ان کے لئے سوائے ایک اطلاع کے کچھ نہیں۔