پنجاب اور خیبرپختونخوا الیکشن التوا کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے کہ وفاقی حکومت نے ایسا کوئی مواد نہیں دیا جس پر الیکشن ملتوی ہوسکیں، کچھ لوگ من پسند ججز سے فیصلہ کرانا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے پنجاب اور کے پی انتخابات ملتوی کرنے کیخلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کی۔ حکمران اتحاد کے وکلا نے کیس میں سننے کی استدعا کی تو عدالت نے انکار کردیا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ حکمران اتحاد ایک طرف بنچ پر اعتراض کرتے ہیں، دوسری طرف کاروائی کا حصہ بھی بنتے ہیں۔ ہم پر اعتماد نہیں تو دلائل کیسے دے سکتے ہیں؟
چیف جسٹس کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت آئین کے مطابق چلتی ہے، اس لیے بائیکاٹ نہیں کرسکتی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکمران اتحاد نے تو عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔ قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا، صرف عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا اصل مسئلہ سیکیورٹی کا ہے، الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ 50 فیصد پولنگ اسٹیشنز محفوظ ہیں۔ فورسز کا معاملہ صرف آرمی کا نہیں بلکہ نیوی اور ایئر فورس کا بھی ہے۔ عدالت نے وہ کام کرنا ہے جو کھلی عدالت میں ہو، کوئی حساس معاملہ آیا تو چیمبر میں سن لیں گے۔
اس موقع پر سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ محمود الزمان عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ پنجاب میں سیکیورٹی حالات سنگین ہیں، کُھلی عدالت میں نہیں بتا سکتا، نہیں چاہتے معلومات دشمن تک پہنچیں۔ عدالت نے کل تک سیکرٹری دفاع سے تحریری رپورٹ طلب کرلی.
وکیل الیکشن کمیشن عرفان قادر کا کہنا تھا کہ اگر عدالت نے ذہن بنا لیا ہے تو بتا دیں، پی ڈی ایم نے فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کیا ہے پورا نہیں کیا گیا۔ انصاف نا صرف ہونا چاہیے پر ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔ مجھے انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں ارہا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین اور قانون واضح ہے کہ انتخابات کی تاریخ کون دے گا۔ عدالت آئین اور قانون کے مطابق انصاف کے لیے بیٹھی ہے۔ سیاسی مقدمات میں سیاسی ایجنڈا سامنے آتا ہے، وفاقی حکومت نے ایسا کوئی مواد نہیں دیا جس پر الیکشن ملتوی ہوسکیں۔
عدالت کی طرف سے دلائل مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا گیا، چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلہ سنانے کے وقت کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔