صدرمملکت آصف علی زرداری نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ کا خیرمقدم کیا ہے جس میں رواں سال مئی میں پاکستان کے خلاف بھارت کی فوجی کارروائیوں اور علاقائی و عالمی امن و استحکام کو متاثر کرنے والے اس کے وسیع تر طرزِ عمل پر سنگین تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
جمعہ کو ایوان صدر کے پریس ونگ سے جاری بیان کے مطابق صدر مملکت نے کہا کہ یہ رپورٹ پاکستان کے اس دیرینہ مقف کی توثیق کرتی ہے کہ بین الاقوامی سرحدوں کے پار طاقت کا یکطرفہ استعمال اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی اور پاکستان کی خودمختاری کی سنگین پامالی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سال مئی میں پاکستان میں شہری ہلاکتوں، آبادی والے علاقوں اور مذہبی مقامات کو پہنچنے والے نقصان سے متعلق رپورٹ کے نتائج اور بھارت کی جانب سے کشیدگی میں اضافے کے خطرات نہایت تشویشناک ہیں۔
انہوں نے سندھ طاس معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو یکطرفہ طور پر معطل رکھنے کے بھارتی اعلان، جارحانہ رویے اور بیانات سمیت بھارتی جارحیت کے نتیجے میں ہونے والے سنگین شہری نقصانات پر رپورٹ کے مشاہدات کو سراہا۔
صدر مملکت نے کہا کہ یہ معاہدہ ایک لازمی بین الاقوامی معاہدہ اور علاقائی استحکام کی بنیاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ طے شدہ تنازعات کے حل کے طریقہ کار کو نظرانداز کرنا اور پانی کے بہاؤ کو متاثر کرنے والے اقدامات پاکستان کے حقوق کی خلاف ورزی اور انسانی حقوق کے حوالہ سے سنگین نتائج کا باعث بن سکتے ہیں۔
صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ رپورٹ بھارت کے اس طرزِ عمل پر بڑھتی ہوئی عالمی تشویش کی عکاس ہے جو ایک سرکش ریاست کے طور پر قانون اور مکالمے کے بجائے جبر، دھمکی اور طاقت و تشدد کو معمول بنانے پر انحصار کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مختلف ممالک میں بھارت کی جانب سے سرحد پار تشدد اور ٹارگٹ کلنگز سے متعلق سنگین رپورٹس ایک خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتی ہیں جو نہ صرف خطے بلکہ عالمی اصولوں کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے۔
صدر مملکت نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ رپورٹ بھارت کے غیر ذمہ دارانہ ریاستی رویے کو واضح طور پر ظاہر کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت طویل عرصے سے اپنی اقلیتوں کو نظرانداز کرتا آ رہا ہے اور اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی فورمز میں اپنے وعدوں کی پاسداری نہیں کررہا تاہم اس قسم کا سرکش رویہ ہمیشہ جاری نہیں رہ سکتا۔
صدر مملکت نے اس بات پر زور دیا کہ ایسے طرزِ عمل کو جاری رہنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ صدر مملکت نے رپورٹ کے اس واضح نتیجے کا حوالہ دیا کہ بین الاقوامی قانون دہشت گردی کے نام پر یکطرفہ فوجی کارروائی کے کسی علیحدہ حق کو تسلیم نہیں کرتا ۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی قانون کے تحت پاکستان کے فطری حقِ دفاع کی توثیق ان خلاف ورزیوں کی سنگینی کو اجاگر کرتی ہے۔
صدر مملکت نے بھارت کے علاقائی طرزِ عمل پر اقوام متحدہ کے ماہرین کی جانب سے کی جانے والی جانچ پڑتال کا بھی خیرمقدم کیا جس میں دہشت گرد تنظیموں کی حمایت اور ایک غیر قانونی افغان حکومت کو معاندانہ مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے متعلق خدشات شامل ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے شفافیت اور جوابدہی کا مطالبہ کیا۔
صدر مملکت نے اقوام متحدہ کے خصوصی رپوتاژ کی جانب سے قابلِ اعتبار شواہد، شہری نقصانات کے ازالے، معاہداتی ذمہ داریوں کی پاسداری اور جموں و کشمیر سمیت تمام تنازعات پر پرامن مذاکرات کے مطالبے کا بھی خیرمقدم کیا۔ عالمی قانون کے احترام، امن اور تحمل کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان اپنی خودمختاری کے تحفظ، عوام کے حقوق کے دفاع اور خطے میں استحکام کے فروغ کے لیے سفارتی اور قانونی ذرائع استعمال کرتا رہے گا۔