’عورت کے بالائی برہنہ جسم کو ہمیشہ فحاشی نہیں قرار دیا جا سکتا‘: انڈین ہائی کورٹ

انڈیا کی ایک عدالت نے کہا ہے کہ عورت کے جسم کے برہنہ بالائی حصے کو ہمیشہ فحاشی کے زمرے میں نہیں دیکھا جا سکتا ہےکیرالہ ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ ریاست کی ایک خاتون ریحانہ فاطمہ کے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے سنایا ہے۔33 برس کی ریحانہ فاطمہ پر الزام تھا کہ انھوں نے تین برس قبل اپنے نیم برہنہ جسم پر اپنے دو بچوں سے پینٹنگ کرائی تھی اور اس کی ویڈیو انھوں نے اپنے فیس بک اکاؤنث پر پوسٹ کر دی تھی۔

انڈیا کی ریاست کیرالہ کی ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ عورت کے جسم کے برہنہ بالائی حصے کو ہمیشہ فحاشی کے زمرے میں نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔

عدالت نے ایک فیصلے میں کہا کہبرہنہ ہونے اور فحاشی میں کوئی مشابہت نہیں ہے۔ کیرالہ ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ ریاست کی ایک خاتون ریحانہ فاطمہ کے مقدمے کی سماعت کے دوران سنایا ہے۔

33 برس کی ریحانہ فاطمہ پر الزام تھا کہ انھوں نے تین برس قبل اپنے نیم برہنہ جسم پر اپنے دو بچوں سے پینٹنگ کرائی تھی اور اس کی ویڈیو انھوں نے اپنے فیس بک اکاؤنث پر پوسٹ کر دی تھی۔

ان کے خلاف فحاشی اور بچوں کے ساتھ ’شہوانی تسکین‘ حاصل کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ریحانہ کو سوشل میڈیا پر ’باڈی اینڈ پالیٹکس‘ کے عنوان سے یہ ویڈیو پوسٹ کرنے کے بعد پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔

انھوں نے ان الزامات کو چینلج کیا تھا لیکن ذیلی عدالت نے ان کی دلیل کو مسترد کر دیا تھا۔

انھوں نے اپنے خلاف اس مقدمے کو ختم کرنے کے لیے کیرالہ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی تھی۔

ریجانہ نے اپنے درخواست میں موقف اپناتے ہوئے دلیل دی تھی کہ اس کا مقصد یہ سیاسیپیغام دینا تھا کہ عورت کے برہنہ بالائی جسم کو ہر صورت میں جنسیت کا رنگ دیا جاتا ہے جبکہ اس کے برعکس مرد کے برہنہ جسم کو اس طرح نہیں دیکھا جاتا۔

کیرالہ ہائی کورٹ کے جسٹس کوثر ایدپاگتھ نے ریحانہ فا طمہ کو ان الزامات سے بری کرتے ہو ئے کہا ’ننگے جسم کو سیکس سے جوڑ کر نہیں دیکھا جا سکتا، ایک عورت کے جسم کے برہنہ بالائی حصے کا محض دکھائی دینا ہمیشہ جنسی نوعیت کا نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اسی طرح ایک عورت کے برہنہ جسم کو فحش، غیر مہذب اور جنس زدہ نہیں کہا جا سکتا۔‘

باڈی پینٹنگ کی جس ویڈیو کی بنیاد پر ریحانہ کے خلاف فحاشی کا مقدمہ درج کیا گیا تھا اس میں ان کے جسم کے اوپری برہنہ حصہ پر ان کے دو نابالغ بچے پینٹ کرتے ہوئے دکھائی دیے تھے۔

استغاثہ نے اس عمل کو ’فحش‘ اور ’غیر مہذب‘ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ اجتماعی اخلاقیات کے منافی ہے۔

کیرالہ ہائی کورٹ کے جسٹس کوثر نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’اخلاقیات اور جرائم متوازی نہیں ہیں۔ ایسی بہت سے باتیں ہیں جنھیں اخلاقی طور پرغلط مانا جاتا ہے لیکن وہ قانونی طور پرغلط نہیں ہیں۔‘

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’مثال کے طور پر دو بالغ لوگوں کے درمیان ان کی مرضی سے سیکس، ہم جنسی کے رشتے اور بغیر شادی کے ساتھ رہنے جیسے معاملات۔‘

عدالت کے مطابق ’یہ بہت تکلیف دہ ہے کہ اس طرح کے معصوم آرٹسٹک اظہار کو جنسی تسکین کے لیے بچوں کے استعمال سے تعبیر کیا جائے۔ یہ کسی طرح بھی بچوں کے ساتھ فحاشی کے زمرے میں نہیں آتا ۔ ننگے جسم کو لازمی طور پر فحش، غیر مہذب اور غیر اخلاقی کے زمرے میں رکھنا غلط ہے۔‘

جسٹس کوثر نے ریحانہ کے خلاف اس کیس کو مسترد کرتے ہوئے کہا،

’یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ عمل سیکس کے ارادے یا جنسی لذت کے لیے کیا گیا تھا ۔اس ویڈیو سے کہیں ایسا نہیں محسوس ہوتا کہ اس میں بچوں کو جنسی مقصد کے لیے استعمال کیا گیا ہو۔ اس ویڈیو میں کہیں بھی جنسی پہلو کا شائبہتک نہیں ملتا ۔ کسی عورت یا مرد کے برہنہ بالائی جسم پرمصوری کرنے کے عمل کوجنسی تسکین کاعمل نہیں کہا جا سکتا۔‘

ریحانہ فاطمہ نے بی بی سی بات کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا ۔

انھوں نے کہا’اس ویڈیو کا مقصد ہی یہی تھا معاشرے کو یہ پیغام دیا جائے کہ مسئلہ عورت کے جسم میں نہیں لوگوں کی پراگندہ سوچ میں ہے ۔ اسے بدلنے کی ضرورت ہے۔‘

ریحانہ نےمزید کہا’بچے اپنے گھر میں اپنی ماں کے جسم کو دیکھتے ہوئے بڑے ہوتے ہیں ۔ وہ ایک عورت کے جسم میںہونے والی تبدیلیوں کو دیکھتے ہیں ۔ انھیں ان پہلوؤں سے گھر میں آشنا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ عورت کو ‏عزت اور برابری کی نظر سے دیکھتے ہوئے بڑے ہوں۔ ‘

ریحانہ کے مطابق ملک میں جس طرح عورتوں کے خلاف جرائم کی لہر چل رہی ہے وہ اسی نا گہی کا نتیجہ ہے ۔ ’عورت کا جسم اس کا اپنا ہے ۔ اس پر کسی اورکا اختیار نہیں ہے ۔ اسے یہ نہ بتایا جائے کہ اسے کیا پہننا ہے ، کیا کھانا ہے کیا پینا ہے۔ اس ذہنیت سے باہر آنا ہو گا۔‘

ریحانہ خواتین کے حقوق کے لیے ایک عرصے سے بر سر پیکار رہی ہیں ۔ انھوں نےاپنی اس لڑائی میںاکثر معاشرے کے مسلمہ راستوں سے انحراف کیاہے۔

جنوبی انڈیا کے مشہور سبری مالا مندر میں بھیداخل ہونے کی کوشش کرنے والوں میں بھی وہ سب سے پہلی خواتین میں شامل تھیں ۔ اس مندر میں صرف کنواری لڑکیوں کے جانے کی اجازت ہے۔ ‏


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts Follow