انڈیا کی ریاست کرناٹک کی ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ اگر کسی شخص کی بیوی اس کی گہری رنگت کی وجہ سے اس کی تذلیل کرتی ہے تو یہ ظلم کے مترادف ہے اور یہ طلاق کی اپیل کے لیے ایک مضبوط بنیاد ہے۔
انڈیا کی ریاست کرناٹک کی ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ اگر کسی شخص کی بیوی اس کی گہری رنگت کی وجہ سے اس کی تذلیل کرتی ہے تو یہ ظلم کے مترادف ہے اور یہ طلاق کی اپیل کے لیے ایک مضبوط بنیاد ہے۔
جسٹس الوک آرادھے اور جسٹس آننت رام ناتھ ہیگڑے پر مشتمل ڈویژن بینچ نے یہ بات ایک 44 سالہ شخص کی جانب سے اپنی 41 سالہ بیوی سے طلاق لینے کی درخواست پر فیصلے میں کہی ہے۔
اس جوڑے کی شادی سنہ 2007 میں ہوئی تھی اور دونوں کی ایک بیٹی ہے۔ سنہ 2012 میں شوہر نے بنگلور کی فیملی کورٹ میں طلاق کے لیے درخواست دائر کی تھی۔
طلاق کی یہ درخواست فیملی کورٹ نے سنہ 2017 میں مسترد کر دی تھی جس کے بعد درخواست گزار نے ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ ریکارڈ پر موجود شواہد بھی ظاہر کرتے ہیں کہ بیوی اپنے شوہر کی سیاہ رنگت کی وجہ سے اس کی تذلیل کرتی تھی اور اسی وجہ سے وہ بغیر کسی وجہ کے اس سے الگ رہنے لگی تھی۔
ہائیکورٹ نے کہا ’اس پہلو کو چھپانے کے لیے اس (بیوی) نے شوہر کے خلاف غیر ازدواجی تعلقات رکھنے کے جھوٹے الزامات لگائے ہیں۔ یہ حقائق سراسر ظلم کی وجہ ہیں۔‘

خاتون نے الزام لگایا تھا کہ اس کے شوہر کے دوسری عورت کے ساتھ ناجائز تعلقات ہیں اور دونوں کا ایک بچہ بھی ہے۔
اس خاتون کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کے شوہر اور سسرال والے جہیز کا مطالبہ کرتے ہیں اور اسے بیٹی کے ساتھ گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں دیتے۔
ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’بیوی نے شوہر کے پاس واپس آنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی اور ریکارڈ پر موجود شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت اپنے شوہر کی سیاہ رنگت کی وجہ سے اس شادی کو جاری رکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتی تھی۔‘
عدالت کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں ’گہری رنگت‘ جذبات مجروح کرنے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کی گئی جو کہ ظلم کے مترادف ہے۔
ہندو میرج ایکٹ کی شق 13 اے کے تحت اگر کوئی فریق اپنے جارحانہ رویے سے دوسرے فریق کو ذہنی پریشانی میں مبتلا کرتا ہے تو یہ شادی ختم کرنے کے لیے کافی وجہ ہے۔