ماضی میں سلطان عزیز کے ساتھ کام کرنے والے افغان صحافی نے بی بی سی اُردو کو بتایا کہ ماضی میں افغانستان میں ریڈیو سٹیشنز پر رات کے اوقات میں ناول پڑھ کر سنائے جاتے تھے اور سلطان عزیز عزام کی آواز اس کام کے لیے پسند کی جاتی تھی۔
پاکستان کے سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ ملک کی سکیورٹی فورسز نے داعش خراسان ( آئی ایس کے پی) کے میڈیا کے سربراہ سلطان عزیز عزام کو مئی 2025 میں اُس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے مطابق سلطان عزیز عزام سنہ 2015 میں افغانستان میں داعش خراسان کے قیام کے وقت سے اِس کالعدم جماعت کے ترجمان کے طور پر کام کر رہے تھے۔
افغانستان کی ننگرہار یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے والے سلطان عزیز عزام داعش خراسان کے ’العزائم‘ میڈیا چینل کے سربراہ رہے ہیں اور امریکہ نے انھیں نومبر 2021 میں ’عالمی دہشت گرد‘ قرار دیا تھا۔
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے مطابق ’داعش خراسان کے ترجمان کی حیثیت سے سلطان عزیز عزام نے داعش کی پرتشدد جہادی سوچ کو پھیلانے، دہشت گردانہ کارروائیوں کو جواز فراہم کرنے اور اُن کی تشہیر میں اہم کردار ادا کیا۔‘
سکیورٹی کونسل کے مطابق ’افغان صحافی کے طور پر اپنے سابقہ تجربے کی بنیاد پر سلطان عزام کی سرگرمیوں نے داعش خراسان کی مرئیّت اور اثر و رسوخ کو بڑھایا۔ ان کے متعدد بیانات اور پروپیگنڈا سرگرمیوں نے نئے افراد کی بھرتی اور تنظیم کی جانب سے حملوں میں اضافے کا باعث بنی۔‘
داعش خراسان کے میڈیا انچارج کے طور پر سلطان عزیز عزام کی شناخت سے تو بہت سے لوگ واقف ہیں لیکن یہ بات کم لوگ ہی جانتے ہوں گے کہ سلطان عزیز عزام ایک زمانے میں افغانستان کے مقبول ریڈیو براڈکاسٹر بھی رہ چکے ہیں۔
بی بی سی اُردو نے چند ایسے افراد سے بات کی ہے جو ماضی میں عزام کے ساتھ کام کر چکے ہیں یا ان سے ملاقات کر چکے ہیں۔
’معروف‘ براڈ کاسٹر
سنہ 1978 میں صوبہ ننگرہار میں پیدا ہونے والے عزام کا تعلق جلال آباد کے چھوٹے سے علاقے بٹی کوٹ سے ہے۔
ننگرہار کی یونیورسٹی سے گریجوئیشن کے بعد سلطان عزام نے افغانستان میں موجود امریکہ اور اتحادی افواج کی فنڈنگ پر چلنے والے پراجیکٹ ’بیس ریڈیو سٹیشنز‘ میں کام کیا۔
جلال آباد سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ سلطان عزیز عزام کو پشتو اور دری زبانوں پر عبور حاصل تھا اور وہ اپنے دور کے مقبول براڈ کاسٹرز میں شامل تھے۔ صحافیوں کے مطابق ان کے ریڈیو پروگرامز کو نہ صرف ملک کے جنوبی اضلاع اور کابل میں پسند کیا جاتا بلکہ افغانستان کے شمالی علاقوں میں بھی اُن کے مداح موجود تھے۔
افغان صحافی انیس الرحمان نے سلطان عزیز عزام کے ساتھ اُس زمانے میں ایک ریڈیو سٹیشن پر کام کیا تھا۔
بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب افغانستان میں ریڈیو سٹیشنز پر رات کے اوقات میں خوابیدہ آواز میں ناول پڑھ کر سنائے جاتے تھے اور سلطان عزیز عزام کی آواز اس کام کے لیے پسند کی جاتی تھی۔
انیس الرحمان کے مطابق وہ اُس دور میں کئی ریڈیو سٹیشنز پر کام کرتے رہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’سلطان بنیادی طور پر جہادی یا سیاسی نظریہ نہیں رکھتے تھے بلکہ بطورِ صحافی اُن کی دلچسپی سماجی و ثقافتی اُمور پر ہوتی تھی۔'
اُن کا کہنا تھا کہ’پیار و محبت کی بات کرنے والے شخص کی داعش میں شمولیت جلال آباد کے صحافیوں کے لیے حیرت انگیز تھی۔‘
داعش میں شمولیت
’عزام کی داعش میں شمولیت کی بظاہر وجہ یہ تھی کہ وہ ذاتی تحفظ حاصل کرنا چاہتے تھے‘افغانستان میں جلال آباد کے قریب اچن کے علاقے داعش الخراسان کی سرگرمیوں کا آغاز سنہ 15-2104 میں ہوا تھا۔
داعش الخراسان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے صحافی اور محقق فخر کاکا خیل کا کہنا ہے کہ بظاہر افغان طالبان کا سلطان عزیز عزام کے خاندان سے جھگڑا، اُن کے داعش کی جانب جھکاؤ کی وجہ بنا۔
بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے فخر کاکا خیل کا کہنا تھا کہ طالبان کی جانب سے سلطان عزیز عزام کو دھمکیاں بھی دی گئی تھیں اور انھوں نے اُس وقت سابق صدر حامد کرزئی اور افغان حکومت سے حفاظت کے لیے مدد بھی طلب کی تھی۔
انیس الرحمان نے بھی بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ سلطان عزیز عزام کے دو بڑے بھائیوں کے طالبان کے ساتھ اختلافات اور لڑائیاں، اُن کی داعش میں شمولیت کی وجہ بنے۔
فخر کاکاخیل کا کہنا ہے کہ سلطان عزیز عزام کی ’داعش میں شمولیت کی بظاہر وجہ یہ تھی کہ وہ ذاتی تحفظ حاصل کرنا چاہتے تھے اور الخراسان نامی نئے پراجیکٹ میں شامل ہو کر انھیں نہ صرف حفاظت ملی بلکہ اختیار بھی ملا۔‘
داعش خراسان میں سلطان عزیز عزام کی اہمیت کیا تھی؟
کابل ایئرپورٹ خودکش حملے میں امریکی فوجیوں سمیت درجنوں افراد ہلاک ہوئے تھے اور اس حملے کی ذمہ داری عزام نے داعش کی جانب سے قبول کی تھیافغانستان کے صحافی، افغان اُمور اور داعش پر تحقیق کرنے والے مصنفین کا کہنا ہے کہ سلطان عزیز عزام کی میڈیا میں مہارت نے انھیں داعش میں نمایاں حیثیت دی۔
فخر کاکاخیل کہتے ہیں کہ ریڈیو کی تربیت اور کہانی کی ادائیگی میں مہارت نے سلطان عزیز عزم کی داعش میں جگہ مضبوط کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
اُن کے مطابق داعش میں شمولیت کے بعد سلطان عزیز عزام نے دو، تین زبانوں میں صدائے خراسان کے نام سے ٹرانسمیشن کا آغاز کیا جو سرحد پار پاکستان کے ضلع خیبر تک سنائی دیتی تھی۔
اُن کے مطابق کہانی کی ادائیگی اور بیان کے طریقے سے داعش کا ریڈیو ایف ایم بہت مقبول ہونے لگا اور داعش اُسے اپنے نظریات اور پروپیگنڈے کی تشہیر کے لیے بھرپور طریقے سے استعمال کرتی تھی۔
انیس الرحمان کا کہنا ہے کہ داعش میں شمولیت کے بعد عزام نے جلال آباد کے دیگر صحافیوں کو بھی اپنے ساتھ شامل ہونے کی دعوت دی اور اُن کی کالعدم تنظیم نے صحافیوں کو اس کے لیے ہراساں بھی کیا۔
انیس الرحمان کے بقول داعش خراسان کی جانب سے افغان صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ ریڈیو سٹیشنز پر بم حملوں تک بھی جا پہنچا اور مارچ 2021 میں داعش خراسان نے ایک ریڈیو سٹیشن پر کام کرنے والی تین خواتین صحافیوں کے قتل کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے مطابق صحافیوں کے قتل کے اگلے روز داعش خراسان کے نیوز چینل ’اخبار ولایت خراسان‘ نے سلطان عزیز عزام کا پیغام بھی نشر کیا جس کا عنوان تھا: ’ہم عمل پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں۔‘
سکیورٹی کونسل کے مطابق ’اس پیغام میں انھوں (عزام) نے کہا کہ یہ قتل افغان حکومت کی جانب سے داعش خراسان کے زیرِ اثر دیہات کی تباہی کے جواب میں کیا گیا، جس میں خواتین اور بچے مارے گئے تھے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ان خواتین کو اس لیے نشانہ بنایا گیا کیونکہ افغان حکومت گرفتار غیر ملکی داعش خراسان کے ارکان کو ان کے ممالک واپس بھیجنے کا ارادہ رکھتی تھی۔‘
سکیورٹی کونسل کے مطابق 26 اگست 2021 کو سلطان عزیز عزام نے کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب خودکش حملے کی ذمہ داری بھی داعش خراسان کی جانب سے قبول کی تھی۔ اس خودکش حملے میں کم از کم 170 افغان شہری اور 13 امریکی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
سکیورٹی کونسل کے مطابق ’اپنے بیان میں انھوں نے بتایا کہ اس حملے کی نگرانی داعش خراسان کے سربراہ ثنا اللہ غفاری نے کی تھی۔‘
اقوام متحدہ کے مطابق ’سلطان عزیز عزام کی پروپیگنڈا سرگرمیوں نے داعش خراسان کو افغانستان میں بڑے حملے کرنے کے لیے اپنے ارکان کو بھرتی اور متاثر کرنے میں مدد دی۔ انھوں نے کئی کتابیں اور مضامین لکھے جن میں جہادیوں کے قصے بیان کیے گئے تاکہ لوگوں کو تنظیم میں شامل ہونے کی ترغیب دی جا سکے۔ ان کتابوں کے اقتباسات اور واقعات اکثر حامیوں کی جانب سے ٹیلی گرام پر شیئر کیے جاتے ہیں۔‘
ریڈیو سے ڈیجیٹل پر منتقلی اور محدود کردار

سنہ 2017 کے بعد افغان طالبان کے بدری بریگیڈ نے داعش الخراسان کے خلاف لڑائی کا آغاز کیا اور طالبان نے ننگرہار میں داعش خراسان کا زور توڑنے کے لیے کارروائیاں شروع کیں۔فخر کاکا خیل کے مطابق اُس وقت سلطان عزیز عزام نے اپنا آبائی علاقہ چھوڑ دیا تھا۔
انیس الرحمان کے مطابق سلطان عزام سے اُن کا آخری رابطہ سنہ 2018 میں ہوا تھا اور اُس کے بعد وہ اُن سے رابطے میں نہیں رہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ سنہ 2019 کے بعد سے داعش میں سلطان عزیز عزام کا کردار محدود ہو گیا تھا اور یہ وہ وقت تھا جب شام سے داعش کے اہم جنگجوؤں نے افغانستان کا رُخ کیا۔
فخر کاکا خیل کا کہنا ہے کہ سنہ 2019 کے بعد داعش نے ایف ایم کے بجائے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر اپنی موجودگی بڑھائی تو اُس کا اثر بھی سلطان عزیز عزام کے کردار پر پڑا۔
اُن کا کہنا ہے کہ داعش خراسان کے پرانے کمانڈر ہونے کی وجہ سے کابل پر افغان طالبان کے قبضے تک اُن کی نیٹ ورکنگ اچھی تھی، لیکن اس کے بعد سے وہ بہت فعال کردار ادا نہیں کر رہے تھے۔
فخر کاکاخیل کے مطابق سنہ 2019 کے بعد داعش خراسان کی قیادت پشتونوں کے بجائے شمالی افغانستان کے افراد کے ہاتھ میں رہی ہے۔
کابل میں افغان طالبان کی حکومت آنے کے بعد داعش نے کابل ایئر پورٹ پر حملے جیسی بڑی کارروائیاں ضرور کیں لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان حملوں کی منصوبہ بندی افغانستان میں داعش کی مقامی قیادت کے بجائے علاقائی سطح پر ہوئی تھی۔
فخر کاکا خیل کے بقول سنہ 2021 کے بعد سے سلطان عزیز عزام حالتِ سفر میں رہے۔
خیال رہے کہ سلطان عزیز عزام پاکستان سے رواں برس گرفتار کیے جانے والے داعش کے پہلے رہنما نہیں ہیں۔ ترکی کے سرکاری خبر رساں ادارے ’اناطولو‘ کے مطابق رواں سال جون میں ترکی کے ساتھ مشترکہ آپریشن میں داعش کے سینیئر کمانڈر ابو یاسر الترکی کو بھی پاکستان افغان سرحد سے گرفتار کیا گیا تھا۔
ترکی سے تعلق رکھنے والے ابو یاسر داعش کے انتہائی مطلوب دہشت گرد تھے۔ اُن پر الزام تھا کہ وہ روس میں کنسرٹ میں حملے اور یورپ میں شہریوں کو نشانہ بنانے میں ملوث تھے۔