’مجھے یہاں کام نہیں کرنا۔۔۔‘ ملازمت میں ’ریڈ فیلگ‘ نظر آئے تو کیا فوراً استعفیٰ دے دینا ہی درست فیصلہ ہے؟

ہفتوں یا دنوں کے بعد نئی ملازمت چھوڑ دینا؟ کچھ ملازمین کے نزدیک استعفیٰ دینا ہی درست فیصلہ ہے۔
دفتر
Getty Images

ہفتوں یا دنوں کے بعد نئی ملازمت چھوڑ دینا؟ کچھ ملازمین کے نزدیک استعفیٰ دینا ایک درست فیصلہ ہے۔

نیکول نے 2022 میں میامی میں قائم بوتیک پی آر فرم میں اپنی نئی نوکری شروع کرنے کے چند گھنٹوں کے اندر پریشان کن صورتحال دیکھی۔

فرم کے سربراہ نے اپنی کمپنی کی زوم کال پر، جو نیکول کی پہلی میٹنگ تھی، انھیں کلائنٹس سے متعارف کرانے کی زحمت نہیں کی۔ کال پر سربراہ خود ہی زیادہ گفتگو کرتے رہے جبکہ انھوں نے اس دوران دوسرے ملازمین کے لیے بولنے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی۔

نکول نے اس واقعے کو بھول کر آگے بڑھنے کی کوشش کی لیکن وہ نوکری کے دوسرے دن اس وقت حیران رہ گئیں جب سربراہ نے ٹیم میٹنگ کے دوران ایک ساتھی ملازم کو گالی دی۔

تیسرے دن، نکول نے اس ساتھی سے یہ پوچھنے کی ہمت پیدا کی کہ کیا اس طرح کا غصہ معمول کی بات تھی۔ انھوں نے کہا ’وہ ایسے ہی ہیں۔‘

نکول کی عمر 20 کے پیٹے میں ہے۔ وہ اس سربراہ کے بارے میں کہتی ہیں کہ ’سب ان سے ڈرتے تھے۔‘

اپنے چوتھے دن نکول نے اپنا استعفیٰ لکھ کر جمع کرا دیا۔ انھوں نے ہفتے کے اختتام تک نوکری چھوڑ دی تھی اور انھوں نے اس کے بعد کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

اس وقت بہت سے لوگ اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ ترجیحات کا از سر نو جائزہ لے رہے ہیں اور محنت کش افراد کی ایک بڑی تعداد اب بھی لیبر مارکیٹ میں طاقت رکھتی ہے۔

ایسے میں کچھ لوگ نوکری چھوڑ کر فوراً نکلنے کا انتخاب کر رہے ہیں۔ وہ ایسی ملازمتیں چھوڑ رہے ہیں جس سے وہ ناخوش ہیں اور وہ بھی محض ہفتوں یا چند دنوں کے بعد۔

اتنے قلیل عرصے کے بعد لوگوں کی نوکریوں سے دستبردار ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ جیسے کہ آسامی کے بارے میں کیے گئے دعوے سچ نہیں تھے، مینیجرز ہر چھوٹی چیز میں مداخلت کرتے ہیں، کام کا ماحول زہریلا ہونا یا کمپنی کے اقدار اور اصول مشکوک ہونا شامل ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے بعض اوقات یہ فیصلہ جلدی میں کیا گیا ہوتا ہے اور لاپرواہی کا نتیجہ ہوتا ہے لیکن کئی دفعہ ملازمین یہ فیصلہ ان کے پاس موجود مختلف آپشنز اور راستوں کے بارے میں احتیاط اور غور سے چھونے کے بعد کیا جاتا ہے۔

ایک شخص سائیکل پر کام چھوڑ کر جا رہا ہے
Getty Images

ملازمین کی اکثریت برسوں تک اپنی ملازمتوں پر رہتی ہے۔ یو ایس بیورو آف لیبر سٹیٹسٹکس (BLS) کے مطابق امریکہ میں ملازمت کی اوسط مدت چار سال ہے لیکن ملازمتوں کے لیے استعمال کی جانے والی سماجی رابطوں کی ویب سائٹ لینکڈان کے ستمبر 2022 کے ایک تحقیقی نوٹ سے پتا چلتا ہے کہ ایک سال سے بھی کم عرصے کے بعد ملازمت چھوڑنے والے کارکنوں کی تعداد اگست 2021 میں بڑھنا شروع ہوئی اور مارچ میں عروج پر پہنچ گئی جب یہ شرح تقریباً 10 فیصد بڑھ گئی۔

دوسرے لفظوں میں ایک ملازمیت میں برسوں کے عدم اطمینان سے گزرنے کے بجائے کارکن تیزی سےملازمت چھوڑ کر آگے بڑھنے کے لیے زیادہ تیار دکھائی دیتے ہیں۔

بوسٹن یونیورسٹی کوئسٹروم سکول آف بزنس میں مینجمینٹ اور آرگنائزیشن کے ایک سینیئر لیکچرار موشے کوہن کا کہنا ہے کہ اس رجحان کا باعث بننے والا ایک عنصر مالکان اور ملازمین کے درمیان ’سوشل کنٹریکٹ‘ کا ٹوٹ جانا ہے۔

موشے جوہن کہتے ہیں کہ ’کارپوریشنز اب اپنے لوگوں کا دھیان نہیں رکھ رہیں۔ ملازمین اپنے آپ کو عارضی اور کسی بھی وقت فارغ کیے جانے والے وسائل محسوس کرتے ہیں۔ اس لیے وہ کسی ملازمت دینے والے سے وابستگی کی کوئی ضرورت نہیں سمجھتے۔‘

وہ لیبر مارکیٹ میں ہونے والی تبدیلیوں کی طرف روشنی ڈالتے ہیں جس میں کمپنیوں نے ملازمت کی پیشکشوں کو منسوخ یا موخر کر دیا۔ برطرفیاں کافی عام ہیں اور کمپنیاں ہمیشہ اپنے ملازمین سے کیے گئے وعدوں پر عمل نہیں کرتیں۔

گھر بیٹھ کر کام کرنے والے ملازمین (ریموٹ ورک) کی پیداواری صلاحیت کے بارے میں انتظامی خدشات نے کارکنوں کی نگرانی کو فروغ دیا، جس نے مینیجرز اور ان کی ٹیموں کے درمیان اعتماد کو ختم کر دیا ہے۔

ملازمت
Getty Images

کچھ ملازمین نے ان حالات کے خلاف مزاحمت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ یہ فیصلہ کر رہے ہیں کہ اگر ان کی ملازمت ان کی اپنی مدد نہیں کر رہی، یا ویسی نہیں جیسا وہ توقع کر رہے تھے یا وہاں کے ماحول سے انھیں اچھا محسوس نہیں ہو رہا تو وہ اسے جلدی چھوڑنے کا فیصلہ کر رہے ہیں۔

صحافی جیمز کی عمر 30 کے پیٹے میں ہے اور ان کا تجربہ اس کی ایک مثال ہے۔ سنہ 2023 سے شروع میں انھوں نے نیویارک شہر میں ایک میڈیا سٹارٹ اپ میں ملازمت کی۔ اگرچہ اس آسامی کے وہ پورے اہل تھے لیکن ملازمت کے پہلے ہفتے کے اختتام پر انھیں سمجھ آ گیا تھا کہ یہ جگہ ان کے لیے مناسب نہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’وہ مجھے میری نیوز روم کی قائدانہ صلاحیتوں کے لیے لے آئے لیکن پھر وہ میرے روزانہ کےچھوٹے کاموں میں دخل اندازی کر رہے تھے اور ہر چھوٹی غلطی کی نشاندہی کر رہے تھے،‘

ایک مہینہ گزر گیا تھا اور حیمز سخت غمزدہ تھے۔ انھوں نے استعفیٰ دینے کا ارادہ کیا لیکن اتفاق سے انھیں فارغ بھی کر دیا گیا۔

وہ کہتے ہیں ’میں پوری طرح تسلیم کرتا ہوں، میں اس کام کو کرنے کے لیے صحیح شخص نہیں تھا۔‘

’چھٹی حس‘ پر یقین

خاتوں اپنے کام سے نا خوش ہیں
Getty Images

ماہرین کا کہنا ہے کہ بعد میں ملازمت چھوڑنے کے بجائے جلدی چھوڑنا بعض اوقات ملازمین کے لیے صحیح فیصلہ ہو سکتا ہے۔

کیلی فورنیا میں پیپرڈائن گریزیاڈیو بزنس سکول میں اپلائیڈ بیہیویرل سائنس کے اسسٹنٹ پروفیسر بوبی تھامسن کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے ایسی نوکری میں رہنا نقصان ہے جو درست نہیں۔

ملازمین غیر مطمئن بخش آسامیوں میں رہتے ہیں اور کسی دوسری جگہ پر ممکنہ ترقی کے مواقعوں سے محروم رہتے ہیں۔

یہ خاص طور پر سچ ہے جب کئی صنعتوں میں خالی آسامیاں امیدواروں کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔

اگرچہ غیر یقینی معاشی صورتحال کی وجہ سے کچھ شعبوں میں ملازمت کے مواقع کم ہونا شروع ہو گئے ہیں، کچھ کمپنیاں اب بھی ملازمین کی کمی سے دوچار ہیں اور بہت سے ملازمین کا پلڑا بھاری ہے۔

بوبی تھامسن کے بقول جب کسی نوکری کا ماحول زہریلا یا غیر صحت بخش ہو تو اسے چھوڑنا بھی عزت نفس کو بااختیار بنانے والا عمل ہو سکتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جب آپ کو احساس ہوتا ہے کہ چیزیں کام نہیں کر رہی ہیں تو نوکری چھوڑنے میں بہت ساری طاقت اور اثر ہوتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ریڈ فلیگ (پریشان کن عندیے) واضح یا باریک ہو سکتے ہیں۔ کئی بار یہ واضح ہوتے ہیں جیسے کسی غیر فعال ٹیم کی وجہ سے پروجیکٹ کا ناکام ہو جانا لیکن دوسری صورتحال میں یہ بہت زیادہ واضح نہیں ہوتے جیسے کسی شخص کی اقدار اور کمپنی کے کاروبار کرنے کے طریقے کے درمیان تضاد ہونا۔

بوبی تھامسن کا کہنا ہے کہ اگر ملازمین دیکھتے ہیں کہ کمپنی کا منفی کلچر بہت گہرا ہے اور ان کے پاس سٹیٹس کو کو چیلنج کرنے کی طاقت، توانائی یا خواہش کی کمی ہے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ جتنی جلدی ہو سکے ملازمت چھوڑنے کا فیصلہ کیوں کرتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں ’جب لوگ دیکھیں گے کہ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا تو وہ ملازمتیں چھوڑیں گے۔‘

اور یہ فیصلہ اکثر فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ نوکری چھوڑنے کے ایک مہینے بعد نیکول کو ایک نئی پی آر فرم میں ملازمت مل گئی۔

وہ کہتی ہیں ’میں اس بارے میں گھبراتی تھی کہ آیا میں کچھ تلاش کر سکوں گی لیکن میں یہ بھی جانتی تھی کہ میں مزید ایک اور دن اپنی پرانی کمپنی میں نہیں رہ سکتی،‘

وہ کہتی ہیں ’میرا کام اب بہت بہتر ہے۔ یہ کمپنی کیریئر میں ترقی کی پرواہ کرتی ہے اور سربراہ ایک اچھا شخص ہے جو کبھی اپنی آواز نہیں اٹھاتا۔‘

نوکری
Getty Images

وہ کہتی ہیں کہ وہ اس پی آر فرم میں گزارے ہوئے خوفناک ہفتے کے بارے میں شاذ و نادر ہی سوچتی ہیں لیکن وہ شکر گزار ہیں کہ وہ اتنی جلدی اپنے آپ کو وہاں سے نکالنے میں کامیاب ہو گئیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’اس تجربے نے مجھے اپنے لیے کھڑا ہونا سکھایا۔ میں نے یہ دیکھا کہ کمپنی میں بے عزتی کا کلچر کیسا لگتا ہے اور مجھ میں یہ جاننے کے لیے کافی عزت نفس ہے کہ میں اس کا کوئی حصہ نہیں چاہتی تھی۔‘

تاہم موشے کوہن کا خیال ہے کہ کچھ ملازمین کا فوراً ملازمت چھوڑنا کمپنیوں کو زیادہ ہلا نہیں رہا۔

مالی انعامات کے علاوہ، بہت سے کارکن سیکھنے کے مواقع، کام کے لچ کدار اوقات اور مثبت کام کے کلچر کی تلاش میں ہیں لیکن ان توقعات کا پہلے دن پورے ہونے کا امکان نہیں۔

موشے کوہن کہتے ہیں کہ ’وہ سوچتے ہیں کہ وہ فوراً آتے ساتھ ہی معنی خیز کام کر سکتے ہیں یا یہ کہ کوئی خامیوں والا باس ایک زہریلا باس ہے لیکن یہ باتیں حقیقت پسندانہ نہیں۔‘

وہ کہتے ہیں ’میرا اپنے طالب علموں کو مشورہ ہے کہ چھوڑنے سے نہ گھبرائیں لیکن صبر کریں کچھ بھی جلدی مت کریں۔‘

بوبی تھامسن اس بات سے اتفاق کرتی ہیں۔ وہ ملازمین کو مشورہ دیتی ہے کہ وہ اپنے عہدوں کی نوعیت کو تبدیل کرنے اور تنظیم میں لوگوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے اعلیٰ افسران کے ساتھ کام کرنے کی کوشش کر کے اپنے حالات کو بدلنے کے ممکنہ طریقوں پر غور کریں۔

وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ سابق ساتھیوں، سرپرستوں اور کیریئر کوچز کے مشورے سے ملازمین کو اپنے نقطہ نظر کو دوبارہ ترتیب دینے میں مدد مل سکتی ہے۔

اس کے باوجود بوبی تھامسن یہ بھی کہتی ہیں کہ وہ لوگوں کی ’چھٹی حس‘ پر بھروسہ کرنے میں بہت زیادہ یقین رکھتی ہیں، خاص طور پر جب انھوں نے نوکری چھوڑنے کے ممکنہ نتائج کے بارے میں سوچ لیا ہو۔

وہ کہتی ہیں ’ایک خوفناک ملازمت کے تجربے سے گزرنا ہی سیکھنے کا واحد راستہ نہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US