دکانیں بند، محلے اور سٹرکیں ویران: نوح کا مسلم اکثریتی علاقہ آسیب زدہ شہر کا منظر کیوں پیش کر رہا ہے؟

نوح آج بھی کرفیو کی گرفت میں ہے۔ فسادات کے بعد بڑی تعداد میں مسلم نوجوان گرفتاری کے خدشے سے یہاں سے دوسرے مقامات پر منتقل ہو چکے ہیں۔ دکانیں بند ہیں، محلے ویران ہیں جبکہ سڑکیں خالی ہیں۔ شہر ایک پُراسرار خاموشی میں لپٹا ہوا ہے اور ٹوٹی ہوئی عمارتوں کے درمیان جو لوگ یہاں ہیں وہ سہمے ہوئے کسی نئی مصیبت کے اندیشوں میں جی رہے ہیں۔
تصویر
BBC
’پولیس نے ہماری ایک نہ سُنی۔ انھوں نے ہمیں بھی کافی دھمکایا اور گولی مارنے کی دھمکی دی۔ ہم بے بس ہیں‘

انڈیا کی ریاست ہریانہ کے شہر نوح سے چھ کلو میٹر دور میولی گاؤں میں کرفیو کے دوران کئی خواتین صدمے کی حالت میں ایک گھر میں بیٹھی ہوئی ہیں۔

ایک ہی خاندان کی یہ خواتین اس لیے پریشان ہیں کیونکہ مقامی پولیس نوح میں ہونے والے فسادات کے دوسرے دن اُن کے گھر کے نو افراد کو گرفتار کر کے لے گئی تھی۔

ان میں بیشتر خواتین ان بچوں کی مائیں ہیں جنھیں گرفتار کیا گیا ہے۔ ہوری نامی ایک خاتون نے روتے ہوئے بتایا کہ ’وہ میرے بیٹوں کو میرے ہاتھوں سے لے گئے، انھیں جوتے چپل کے بغیر گھسیٹتے ہوئے لے گئے، وہ بے قصور ہیں۔ میری حکومت سے اپیل ہے کہ وہ جیسے میرے بچوں کو لے گئی ہے ویسے ہی انھیں لوٹا دے۔‘

ایک دوسری خاتون حمیدن نے بتایا کہ ’پولیس نے ہماری ایک نہ سُنی۔ انھوں نے ہمیں بھی کافی دھمکایا اور گولی مارنے کی دھمکی دی۔ ہم بے بس ہیں۔‘

ہندو
BBC
نوح میں ہندو مسلم فسادات کے بعد بہت سے مسلمانوں کی دکانوں اور گھروں کو مسمار کر دیا گیا ہے

گاؤں کے سرپنچ کی بیٹھک میں میولی کے بزرگ گزرے ہوئے دنوں کے فسادات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نوح مذہبی ہم آہنگی کی ایک مثال رہا ہے۔ سابق سرپنچ طیب حسین نے کہا ’یہاں کئی برس سے ہم آہنگی تباہ کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ چھلے کی یاترا کے دوران بھی ہنگامہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور ایک مزار کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔‘

میولی سے چھ کلومیٹر دور نوح شہر کے ایک اہم چوراہے پر ایک بڑی عمارت کا تازہ ملبہ یہاں کے حالات کی ترجمانی کرتا ہے۔ یہ ایک تین منزلہ عمارت تھی جس میں یہاں کا مشہور ’سہارا ہوٹل‘ واقع تھا۔ پولیس نے اس عمارت کو یہ کہہ کر منہدم کر دیا کہ اس عمارت کی چھت سے ہندو یاتریوں پر پتھراؤ کیا گیا تھا۔

بلڈنگ کے مالک عاقل حسین کا کہنا ہے کہ بعض ٹی وی چینلوں نے اُن کی عمارت سے ملتی جلتی کسی اور شہر کی ایک بلڈنگ کی تصویر دکھا دی جس کی بنیاد پر پولیس نے ان کی تین منزلہ بلڈنگ گرا دی۔ عاقل حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نے اپنی ساری زندگی کی کمائی سے یہ عمارت تعمیر کی تھی۔ انتظامیہ نے کسی نوٹس اور ہمارے علم میں لائے بغیر اسے منہدم کر دیا۔ اب ہم کہاں جائیں۔‘

تصویر
BBC
’میں نے اپنی ساری زندگی کی کمائی سے یہ عمارت تعمیر کی تھی۔ انتظامیہ نے کسی نوٹس اور ہمارے علم میں لائے بغیر اسے منہدم کر دیا۔ اب ہم کہاں جائیں‘

اُن کی اہلیہ شمع ناظرین نے روتے ہوئے کہا ’ہم انصاف کے لیے کہاں جائیں۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے سہمے ہوئے ہیں۔ کیا ہمیں انصاف ملے گا؟ یہاں بے بسی کے سوا کچھ نہیں بچا ہے۔‘

نوح میں 31 جولائی کو ہندو یاتریوں کے ایک جلوس کے دوران پتھراؤ کے بعد ہندو مسلم فساد پھوٹ پڑے تھے۔ یاترا پر حملے کے دوران پانچ ہندو مارے گئے جبکہ درجنوں گاڑیوں کو آگ لگائی گئی۔ یاترا سے پہلے سخت گیر ہندو تنظیم بجرنگ دل کے بعض رہنماؤں نے اس یاترا میں شامل ہونے کا اعلان کیا تھا۔

مبینہ طور پر اُن کی بعض اشتعال انگیز ویڈیوز میں نوح کے مسلمانوں کو للکارا گیا تھا کہ اگر وہ انھیں روک سکتے ہیں تو روک لیں۔

یاترا میں شامل بہت سے لوگ تلواروں اور بندوقوں کے ساتھ آئے تھے۔ بجرنگ دل کے جن رہنماؤں نے یاترا میں شامل ہونے کا اعلان کیا تھا ان میں سے ایک مونو مانیسر پر میوات خطے کے دو نوجوانوں کو گائے ذبح کرنے کے شبے میں زندہ جلا کر مارنے کا مقدمہ درج ہے۔ لیکن واقعے کے کئی مہینے گزرنے کے بعد بھی اب تک انھیں گرفتار نہیں کیا جا سکا ہے۔

نوح کے ایک مقامی باشندے نے کہا کہ ’ہم ہر طرح کا اشتعال سہتے چلے آئے ہیں۔ ہمیں یاترا سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہم تو اس میں شریک بھی ہوتے ہیں۔ مگر ہمیں مسلسل مشتعل کیا جا رہا ہے۔ ہم برداشت کرتے رہے ہیں، اب صرف یہی بچا ہے کہ ہم میوات چھوڑ کر چلے جائیں یا حالات کا سامنا کریں۔‘

ہریانہ کا نوح شہر میوات خطے کا ایک حصہ ہے۔ میوات راجستھان، ہریانہ اور یوپی کے متھرا اور آگرہ کے کچھ علاقے تک پھیلا ہوا ہے۔ ہریانہ میں میوات کا خطہ ریاست کا واحد مسلم اکثریتی علاقہ ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی 70 سے 80 فیصد کے درمیان ہے۔ یہاں کے بیشتر مسلمان کاشتکار ہیں اور بہت سے میواتی مویشی پروری کا کام کرتے ہیں۔ انھیں کئی برس سے گائے کے تحفظ کے نام پر حکومت کی حمایت یافتہ ’گاؤ رکشک‘ تنظیموں کی جانب سے شدید مشکلات اور ہراسانی کا سامنا رہا ہے۔

گائے کی سمگلنگ کے الزام میں مویشی لانے اور لے جانے والوں کو کئی بار لوٹا جا چکا ہے۔ میوات کے کئی لوگوں کو ہجوم کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔

عمومی طور پر ان جرائم میں ملوث ملزموں کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہونے کے سبب نوح اور پورے میوات کے لوگ کافی ناراض ہیں۔ اشتعال انگیز بیانات اور ویڈیوز نے انھیں مزید برہم کر دیا ہے۔ 31 اگست کی ہندوؤں کی مذہبی یاترا سے پہلے فضا کافی کشیدہ تھی۔ مقامی سکیورٹی اہلکاروں نے اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے انتظامیہ کو حالات خراب ہونے کے بارے میں خبردار کیا تھا۔

کسان رہنما اور سرکردہ دانشور یوگیندر یادو نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’خفیہ رپورٹ کے باوجود پولیس نے احتیاطی اقدامات نہیں کیے۔ بجرنگ دل اور وشوا ہندو پریشد کو جلوس میں سو گاڑیاں لانے کی اجازت دی گئی۔ مذہبی یاترا ہونا تو اچھی بات ہے لیکن کسی مذہبی جلوس میں تلواروں اور بندوقوں کا کیا کام؟ یہ فساد برپا کرنے کی ایک منظم سازش تھی۔‘

تصویر
BBC
فسادات کے بعد بڑی تعداد میں نوجوان گرفتاری کے خدشے سے نوح سے دوسرے مقامات پر منتقل ہو چکے ہیں۔ دکانیں بند ہیں، محلے ویران ہیں جبکہ سڑکیں خالی ہیں۔

حکومت سے قریب سمجھے جانے والے دائیں بازو کے دانشور ڈاکٹر شبھرو کمل دتا کا خیال ہے کہ ’نوح میں ہندو یاتریوں پر جس طرح حملہ ہوا اس سے یہ واضح ہے یہ ایک سازش کے تحت کیا گیا۔ یہ بہت منظم حملہ تھا۔ اس میں پاکستان کی خفیہ سروس کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ اس میں شدت پسندوں کا بھی ہاتھ ہو سکتا ہے۔ اس کی مفصل جانچ ہونی چاہیے۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ رواداری اور اعتدال پسندی یک طرفہ نہیں ہو سکتی، یہ جب تک دونوں جانب سے نہیں ہو گی اس طرح کے مسائل پیدا ہوں گے۔

یوگیندر یادو کا الزام ہے کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ نوح میں ہندو یاتریوں پر مسلمانوں نے حملہ کیا۔ لیکن انھیں اس حملے کے لیے مسلسل اشتعال دلایا گیا تھا۔ یاتریوں کی ہی طرح فساد میں حصہ لینے والے بیشتر میواتی نوح کے باہر سے آئے تھے جو مسلسل اشتعال انگیزیوں اور ہراسانی سے تنگ آئے ہوئے تھے۔

’تشدد کو کسی بھی شکل میں جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا لیکن آپ دیکھیے پولیس نوح میں تو مسلمانوں کے گھر گرا رہی ہے لیکن جن فسادیوں نے گڑگاؤں اور سوہنا میں مسلمانوں کے گھر اور گاڑیاں جلائیں اور امام کا قتل کیا، لوگوں کو گھروں سے بھگایا انھیں ںہیں گرفتار کیا جا رہا ہے۔ مونو مانیسر اور بیٹو بجرنگی اب بھی آزاد ہیں۔‘

نوح
BBC

یادو کا کہنا ہے کہ ہریانہ میں چند مہینوں میں انتخات ہونے والے ہیں۔ کسانوں کی تحریک کے بعد ہریانہ میں بی جے پی کی حکومت کسانوں کی حمایت کھو چکی ہے، وہ اب مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر کر ہندوؤں کو لام بند کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

نوح سے دور ہریانہ کے کئی اضلاع میں مقامی پنچایتیں مسلمانوں کا سماجی اور اقتصادی بائیکاٹ کرنے کی قراردادیں منظور کر رہی ہیں۔ ان قراردادوں میں لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے مکانات مسلمانوں کو کرائے پر نہ دیں، مسلمانوں سے کوئی کاروبار نہ کریں، انھیں اپنے گاؤں میں داخل نہ ہونے دیں۔

اسی طرح کی قراردادیں مدھیہ پردیش میں بھی کئی علاقوں میں منظور کی گئی ہیں۔ دلی کے نواحی شہر غازی آباد میں بھی مسلمانوں کے بائیکاٹ کے پوسٹرچسپاں کیے گئے ہیں۔ سرکردہ وکیل کپل سیبل نے ان پنچایتوں کو غیر آئینیاور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان کی طرف سپریم کورٹ کی توجہ دلائی ہے۔

تصویر
BBC
نوح اب بھی کرفیو کی گرفت میں ہے

اس کے بعد ہریانہ کی انتظامیہ نے کئی پنچایتوں سے یہ قراردادیں واپس کرائی ہیں۔ جمعرات کو ہریانہ کی ہی ایک دوسری مہا پنجایت نے ان قراردادوں کی مذمت کی ہے، اس میں مونو مانیسر اور بیٹو بجرنگی سمیت مسلمانوں پر حملے کرنے والوں کو بھی فوراً گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

انڈیا کی پارلیمنٹ میں اپوزیشن کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے کہا حکومت پورے ملک میں نفرت کی آگ بھڑکا رہی ہے۔ ’پہلے منی پور میں آگ لگائی گئی، اب ہریانہ میں آگ لگائی جا رہی ہے۔ یہ آگ پورے ملک کو نِگل لے گی۔‘

دلی کے ایک طالبعلم دویہ جوتی ترپاٹھی نے ملک کی صورتحال کے بارے میں کہاکہ ’نفرت کی آگ پورے معاشرے کو تباہ کر رہی ہے۔ ملک کو انتہا پسندی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ اکثریتی فرقے کو اقلیتوں کے خلاف کھڑا کیا جا رہا ہے۔ اس پر تبھی قابو پایا جا سکتا ہے جب اکثریتی فرقہ اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور ملک کو اس تباہی سے بچائے۔‘

دلی سے تقریباً سو کلومیٹر دور نوح میں فسادات کے بعد اب تک 300 سے زیادہ مسلمانوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ عدالت کی مداخلت کے بعد مسلمانوں کے مکانوں کے انہدام پر تو فی الوقت پابندی لگا دی گئی ہے لیکن اب تک 200 سے زیادہ کچے اور پکے مکان اور دکانیں گرائی جا چکی ہیں۔

نوح اب بھی کرفیو کی گرفت میں ہے۔ فسادات کے بعد بڑی تعداد میں نوجوان گرفتاری کے خدشے سے یہاں سے دوسرے مقامات پر منتقل ہو چکے ہیں۔ دکانیں بند ہیں، محلے ویران ہیں جبکہ سڑکیں خالی ہیں۔ شہر ایک پراسرار خاموشی میں لپٹا ہوا ہے۔

فساد شکن نیم فوجی دستوں کے سائے میں، ٹوٹی ہوئی عمارتوں کے درمیان جو لوگ یہاں ہیں وہ سہمے ہوئے کسی نئی مصیبت کے اندیشوں میں جی رہے ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US