برکس سربراہی اجلاس میں مودی اور شی جن پنگ کی متوقع ملاقات سے کیا انڈیا اور چین میں کشیدگی کم ہو گی؟

اگر شی جن پنگ اور نریندر مودی کے درمیان ملاقات ہوتی ہے تو مئی 2020 میں دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازع شروع ہونے کے بعد یہ ان کی پہلی طے شدہ ملاقات ہو گی۔
modi XI
Getty Images

چین نے جنوبی افریقہ میں ہونے والے برکس سربراہی اجلاس میں صدر شی جن پنگ اور انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی کی ملاقات کا عندیہ دیا ہے۔

جنوبی افریقہ میں چین کے سفیر چن جیاؤڈونگ نے پریٹوریا میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان براہِ راست ملاقات اور بات چیت ہو گی۔

انڈین اخبار انڈین ایکسپریس نے ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ دونوں رہنما دو روز تک رہنماؤں کے کانفرنس روم اور لاؤنج میں رہیں گے۔ ایسے میں ان دونوں کے درمیان ملاقات کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا تاہم نئی دہلی میں چینی سفارت خانے سے وابستہ ذرائع کا کہنا ہے کہ انھیں ایسی کسی ممکنہ ملاقات کا علم نہیں۔

نریندر مودی برازیل کے صدر لولا ڈی سلوا اور میزبان ملک جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا کے ساتھ ملاقاتیں کریں گے۔

تاہم پوری دنیا کی نظریں چین کے صدر پر ہوں گی اور اس بارے میں قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ کیا شی جن پنگ اور مودی کے درمیان ملاقات ہونے جا رہی ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا دونوں ملکوں کے تعلقات میں موجودہ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے پر بات ہو گی؟

برکس (برازیل، روس، چین، انڈیا اور جنوبی افریقہ) کے رکن ممالک کے رہنماؤں کی کانفرنس 22 سے 24 اگست تک جوہانسبرگ میں ہونے جا رہی ہے۔

اگر شی جن پنگ اور نریندر مودی کے درمیان ملاقات ہوتی ہے تو مئی 2020 میں دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازع شروع ہونے کے بعد یہ ان کی پہلی طے شدہ ملاقات ہو گی۔

شی جن پنگ 21 سے 24 اگست تک جنوبی افریقہ میں ہوں گے جبکہ مودی آج دوپہر جوہانسبرگ پہنچیں گے۔

برکس ممالک کے رہنماؤں کی اہم کانفرنس 23 اگست کو ہو گی۔ 24 اگست کو برکس کے رکن ممالک کے رہنما افریقی رہنماؤں سے ملاقات کریں گے۔

XI and modi
Getty Images

شی جن پنگ اور مودی کی 20ویں ملاقات

اگر شی جن پنگ اور مودی کی برکس سربراہی اجلاس کے موقع پر آمنے سامنے ملاقات ہوتی ہے تو اقتدار میں آنے کے بعد یہ دونوں کے درمیان اس طرح کی 20ویں ملاقات ہو گی۔

سنہ 2014 سے 2019 کے درمیان دونوں 18 بار ملے ہیں لیکن 2020 میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے قریب وادی گالوان میں دونوں ممالک کے فوجیوں کے درمیان جھڑپ کے بعد شی جن پنگ اور مودی کے درمیان کوئی طے شدہ ملاقات نہیں ہوئی۔

دونوں رہنماؤں نے گذشتہ سال انڈونیشیا کے بالی میں ایک عشائیہ کے دوران 19ویں ملاقات کی تھی تاہم انڈیا کی جانب سے اس بارے میں معلومات سات ماہ بعد دی گئیں۔

اس ملاقات کے بارے میں کہا گیا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو مستحکم کرنے پر بات ہوئی۔

Xi and modi
Getty Images

برکس میں انڈیا اور چین کا ٹکراؤ

لیکن سوال یہ ہے کہ اگر مودی اور شی جن پنگ کے درمیان آمنے سامنے ملاقات ہوتی ہے تو کیا اس سے دونوں ممالک کے درمیان موجودہ کشیدگی کو کم کیا جا سکے گا؟

اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہم نے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سینٹر فار ایسٹ ایشین سٹڈیز کے اسوسی ایٹ پروفیسر اروند یلری سے بات کی۔ یلری فی الحال ایک تعلیمی نمائندے کے طور پر برکس میں شرکت کے لیے جنوبی افریقہ میں ہیں۔

اس سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’فی الحال اس کشیدگی میں کمی کا کوئی امکان نہیں کیونکہ چین برکس کو توسیع دینے میں مصروف ہے اور برکس میں نئے اراکین کو مدعو کیا جا رہا ہے۔‘

سعودی عرب، ایران، متحدہ عرب امارات، مصر اور ارجنٹینا جیسے ممالک برکس میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق اس حوالے سے پاکستان بھی رکن بننا چاہتا ہے اور چین اسے برکس کا رکن بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔برکس سربراہی اجلاس میں پاکستان کے غیرسرکاری نمائندوں کی بڑی تعداد آ رہی ہے۔

یلری کہتے ہیں کہ ’انڈیا کو ڈر ہے کہ چین برکس پر قبضہ کر سکتا ہے چونکہ یوکرین جنگ کے بعد روس مکمل طور پر چین کے زیر اثر ہے۔ اسی لیے برکس میں روس کا اثر و رسوخ کم ہو رہا ہے اور چین نے خلیجی ممالک میں بھی اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا شروع کر دیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے کے بعد دنیا نے دیکھا کہ عرب ممالک میں چین کا اثر و رسوخ کیسے بڑھ رہا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اس کے علاوہ، اس نے برازیل اور جنوبی افریقہ کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے کی مسلسل کوشش کی ہے۔

’اگر چین اپنے بااثر ممالک کو برکس کا رکن بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو انڈیا اس اہم عالمی تنظیم میں تنہا ہو جائے گا۔‘

فنانشل ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ چین برکس کو دنیا کی سات بڑی ترقی یافتہ معیشتوں کے گروپ جی سیون کا حریف بنانا چاہتا ہے۔

اروند ییلری کا کہنا ہے کہ ’چین برکس کو نیٹو مخالف بلاک کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔ ’یہ انڈیا کے لیے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ انڈیا کے امریکہ اور یورپی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔‘

کیا شی جن پنگ مودی کی ممکنہ ملاقات سے سرحد پر کشیدگی کم ہو گی؟

اس سوال پر اروند یلری نے کہا کہ ’وزیرِ اعظم نریندر مودی اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر یقینی طور پر سرحدی مسئلہ پر بات کرنا چاہیں گے لیکن چین اس بات کو پسند نہیں کرے گا۔‘

’دونوں ممالک کے درمیان کور کمانڈر سطح کے مذاکرات کے 19ویں دور کے باوجود صورتحال میں نرمی کے آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔ چینی فوج کے بڑے افسر آتے ہیں، بات کرتے ہیں لیکن تناؤ کم کرنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔‘

یلری کا کہنا ہے کہ ’جب تک شی جن پنگ یا چینی وزیر خارجہ کے ساتھ سفارتی سطح پر بات چیت نہیں ہوتی، سرحدی کشیدگی میں کمی کی توقع فضول ہے۔

’ایسے میں وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر ملاقات میں اس مسئلے کو اٹھانا چاہیں گے تاکہ اس معاملے پر چین سے کوئی ٹھوس جواب مل سکے۔‘

XI and modi
Getty Images

سنہ 2014 کے بعد انڈین اور چین کے تعلقات کیسے رہے؟

نریندر مودی 2014 میں وزیر اعظم بنے۔ اس کے بعد 2015 میں نریندر مودی نے چین کا دورہ کیا۔

سنہ 2017 میں سلی گوڑی کوریڈور کے قریب ڈوکلام میں سرحدی تنازعے کو لے کر انڈیا اور چین کے فوجی دو ماہ تک آمنے سامنے کھڑے رہے۔

تاہم اسی سال وزیر اعظم نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ نے چین کے شہر ژیامن میں نویں برکس سربراہی اجلاس میں ایک نہایت ہی رسمی مختصر ملاقات کی۔

اس کے بعد ہی چین نے امرناتھ یاتریوں کے لیے ناتھو لا پاس کھولنے کا اشارہ دیا تھا۔ ڈوکلام تنازعے کے بعد چین نے اسے بند کر دیا تھا۔

سال 2018 میں شی جن پنگ اور نریندر مودی نے ووہان میں منعقدہ انڈیا چین غیر رسمی سربراہی اجلاس میں بات چیت کی تھی۔

ایک سال بعد 2019 میں وزیراعظم اور چین کے صدر کے درمیان چنئی میں دوسری غیر رسمی سربراہی ملاقات ہوئی۔

سنہ 2020 میں انڈیا اور چین کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی 70 ویں سالگرہ منائی گئی۔

تاہم اسی سال انڈیا اور چین کے درمیان سنگین صورتحال پیدا ہو گئی تھی۔ یکم مئی 2020 کو مشرقی لداخ میں پینگونگ تسو جھیل کے شمالی کنارے پر دونوں ممالک کے فوجیوں کے درمیان جھڑپ ہوئی۔

اس میں دونوں طرف کے درجنوں فوجی زخمی ہوئے۔ اس کے بعد 15 جون کو ایک بار پھر وادی گلوان میں دونوں ممالک کے فوجیوں کے درمیان جھڑپ ہوئی۔

16 جون کو اس جھڑپ کے حوالے سے انڈین فوج کا بیان سامنے آیا جس میں کہا گیا کہ ’جھڑپ کے مقام پر ڈیوٹی پر موجود 17 فوجی شدید زخمی ہونے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔۔۔‘ اس کے بعد اس تصادم میں ہلاک والے فوجیوں کی تعداد 20 ہو گئی۔

لداخ کے گلوان میں انڈین اور چینی فوج کے درمیان پرتشدد تصادم کے بارے میں ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ چین نے اس میں اپنے نقصان کا اندازہ نہیں لگایا۔

خبر رساں ایجنسیوں پی ٹی آئی اور اے این آئی کے مطابق ایک آسٹریلوی اخبار ’دی کلاکسن‘ نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ چین کی جانب سے چار فوجیوں کی ہلاکت کی اطلاع ملی تھی۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US