سنہ 1960 میں، یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے مانع حمل طریقہ کے طور پر پہلی گولی کہلانے والی اینوائیڈ کو منظوری دی۔ ایک نظر ڈالتے ہیں کہ یہاں تک یہ تحقیق کیسی پہنچی؟

پورٹو ریکو کے دارالحکومت سان جوآن کے ایک عوامی ہاؤسنگ کمپلیکس میں دو خواتین پریشانی کے عالم میں کھڑی دکھائی دے رہی ہیں۔ ان میں سے ایک نے شرماتے ہوئے اپنی کیفیت کچھ یوں بیان کی: ’میرے ہوش اڑ گئے اور میری بینائی دُھندلی پڑنے لگی۔ میں نے صرف اتنا کہا: ’ورجن ڈیل کارمین۔۔۔ میرے بچوں کا خیال رکھنا‘۔
پھر سر ہلاتے ہوئے کہا کہ ’ہم پر بغیر کسی تحقیق کے تجربہ کیا جا رہا تھا۔‘
یہ منظر سنہ 1982 میں ریلیز ہونے والی دستاویزی فلم ’دی آپریشن‘ کا حصہ ہے۔ ان خواتین نے، جن کے ناموں کا یہاں ذکر نہیں کیا گیا، سنہ 1950 کی دہائی میں مانع حمل گولی کے اثرات پر تحقیق کرنے والے پہلے بڑے پیمانے پر کلینیکل ٹرائل میں شریک ہونے کے اپنے تجربے کو بیان کیا ہے۔
فلم میں یہ دونوں خواتین اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ وہ اس ٹرائل کا حصہ بننے سے لاعلم تھیں۔
ان کی طرح پورٹو ریکو سے تعلق رکھنے والی سینکڑوں دیگر خواتین، نادانستہ طور پر، دو امریکی ماہرین تعلیم کی زیرقیادت مطالعے کا حصہ بن گئیں۔
اس دوا نے سنہ 1960 میں ’کمرشلائزیشن‘ کے بعد سے خواتین کو اپنے جسم پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول حاصل کرنے کے قابل بنایا کیونکہ اس کے بعد زچگی کی منصوبہ بندی کے لیے ان کا مردوں پر انحصار نہیں رہا۔ پورٹو ریکو میں امریکی حکومت کی طرف سے زیادہ آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے اس دوا کا تجربہ کیا گیا۔
20 ویں صدی کی پہلی پانچ دہائیوں کے دوران جب آبادی میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا تھا تو بہت سے شہری انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے تھے۔ اب اس کا حل سرکاری سطح پر یہ تلاش کیا گیا کہ پورٹو ریکو کے لوگوں کو بچے پیدا نہ کرنے کی ترغیب دی جائے۔
انا ماریا گارشیا پورٹو ریکو یونیورسٹی کی پروفیسر ہیں جو فلم ’دی آپریشن‘ کی ڈائریکٹر بھی ہیں۔ انھوں نے وضاحت کی کہ یہ کام اس وجہ سے کیا گیا تھا تاکہ غریب کمیونٹی میں بچوں کی پیدائش کم کی جا سکے۔

پورٹو ریکو میں حقوق نسواں کی این جی او ٹالر سالود سے تعلق رکھنے والی لورڈیس انووا کا کہنا ہے کہ انھیں ملک کی غریب ترین، سب سے زیادہ نسلی تعصب کا شکار اور کم تعلیم یافتہ خواتین کی فلاح کے لیے کام کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔
ان کے مطابق اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں ان لوگوں کے پاس اس تجربے کا حصہ بننے کے نتیجے میں خطرات جانچنے کے مواقع بہت کم میسر تھےلہٰذا ایسے میں محض رضامندی کا حصول انتہائی قابل اعتراض بات ہے۔
انا ماریا گارشیا کا کہنا ہے کہ نجی فنانسنگ کے ساتھ بلکہ ریاست کی طرف سے بھی یہ جزیرہ ’ایک بڑا برتھ کنٹرول لیب‘ تھا۔
یوں ان کے مطابق خواتین تجرباتی چوہوں کی جگہ استعمال ہونے لگیں۔
دو سائنسدان اور دو کارکن
ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہر حیاتیات گریگوری پنکس پورٹو ریکو میں بڑے پیمانے پر کیے جانے والے کلینکل ٹرائل کے ڈائریکٹرز میں سے ایک تھےاقوام متحدہ کے مطابق اس وقت دنیا بھر کی 150 ملین خواتین اس مانع حمل دوائی کا استعمال کر رہی ہیں۔ یہ دوا یا گولی پورٹو ریکو سے بہت دور میساچوسٹس میں واقع معروف ہارورڈ یونیورسٹی میں تیار ہوئی۔
جن لوگوں نے یہ دوا تیار کی وہ ہارورڈ یونیورسٹی کے دو نامور پروفیسرز جان راک اور گریگوری پنکس تھے۔
تاریخ دان مارگریٹ مارش کا کہنا ہے کہ نیو جرسی کی رٹگرز یونیورسٹی کی پروفیسر وہ پہلی سائنسدان تھیں جنھوں نے یہ خیال پیش کیا تھا کہ شادی شدہ جوڑوں کو یہ فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ کب بچے پیدا کریں۔
ان کے مطابق ایک دوسرے ماہر حیاتیات تھے جنھوں نے زیادہ آبادی کو ترقی پذیر ممالک کے لیے بہت بڑا مسئلہ قرار دیا۔
ان دونوں ماہرین کو ایک نرس اور ماہر صحت مارگریٹ سینگر اور کیتھرین میکورمک نے مانع حمل ادویات کی تیاری کے لیے مالی مدد کی۔
مارگریٹ سینگر امریکہ میں پہلے برتھ کنٹرول کلینک کی بانی تھیںلورڈیس انووا کہتے ہیں کہ انھوں نے خواتین کو معاشرے کے مختلف شعبوں کا حصہ بنانے کی کوشش کی تاکہ وہ زیادہ طاقت حاصل کر سکیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے زچگی کو کنٹرول کرنا ازحد ضروری تھا۔
تاہم یہ معلوم ہے کہ مارگریٹ سینگر نے ’یوجینکس‘ کا دفاع کیا۔ یہ ایک سماجی فلاسفی ہے جو انسانی نسل کی حیاتیاتی طور پر تبدیلی کے حق میں ہے۔
اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اسے غریب خواتین اور کمزوری کے حالات میں استعمال کرنے کی اجازت دی۔
مارگریٹ مارش کے مطابق ’برتھ کنٹرول کی تحریک دو پہلوؤں پر مشتمل تھی۔ ایک تو خواتین کے لیے اپنے تولیدی فیصلے خود کرنا تھا اور دوسرا یہ خیال تھا کہ پیدائش پر قابو پانا اچھا ہے کیونکہ غریب لوگوں کے بچے کم ہوں گے۔‘
کیتھرین میک کارمک جنھوں نے پیدائش پر قابو پانے کےلیے اس منصوبے کو مالی اعانت فراہم کیابتدائی تحقیقات
امریکہ میں پیدائش پر قابو پانے والی گولی کا تجربہ چوہوں اور دیگر جانوروں پر کیا گیا۔
امریکہ میں مانع حمل کی تاریخ کے ماہر مارگریٹ مارش کا کہنا ہے کہ پھر ایک ’غیر اخلاقی‘ فیصلے کے نتیجے میں سائنسدانوں نے یہ دوا میساچوسٹس کے ایک سرکاری ہسپتال میں مریضوں کے ایک چھوٹے سے گروپ کو دی جو دماغی صحت کے مسائل سے دوچار تھے۔
ان کے مطابق ’مریضوں کے اہل خانہ نے تجربہ کرنے کی اجازت دی تھی اور اس وقت یہ قانونی تھا۔‘
پنکس اور راک نے دریافت کیا کہ انھوں نے جو مرکبات بنائے تھے ان کا نتیجہ ’بیضہ دانی‘ کو روکنے کا تھا۔ اس لیے انھوں نے بڑے پیمانے پر ٹرائل کرنے کے لیے جگہ تلاش کی تاکہ امریکی ریگولیٹرز اس گولی کی منظوریدے سکیں۔
پروفیسر انا ماریا گارشیا نے وضاحت کی کہ مانع حمل غیر قانونی تھا۔ انسانوں پر تجربات کے لیے قانونی حدود بھی تھیں۔
یہ وہ وقت تھا جب سائنسدانوں کو ایک ’مثالی جگہ‘ کی شناخت کرنا تھی۔
لیبارٹری جزیرہ
پورٹو ریکو کو اس مقصد کے لیے چُن لیا گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس وقت یعنی سنہ 1937 میں وہاں نس بندی اور مانع حمل کے لیے تجربہ کرنا غیرقانونی نہیں تھا۔
انا ماریا گارشیا کہتی ہیں کہ ’ایک تاریخی لمحے پر ایک قانون منظور کیا گیا، جب امریکہ سمیت دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر نس بندی قانونی نہیں تھی۔‘
اس قانون پر گورنر بلنٹن سی وِن شپ نے دستخط کیے تھے، جو ایک ایسے شخص تھے جس نے عوامی طور پر یوجینکس کی حمایت کی تھی، اور نیویارک ٹائمز کے ایک مضمون کے مطابق انھوں نے پورٹو ریکو میں آبادی کے کنٹرول کی تحقیقات کرنے پر زور دیا تھا کیونکہ اس کے لیے یہ واحد ’نسل انسانی کو بہتر بنانے کے قابل اعتماد ذرائع تھے۔‘
پورٹو ریکو یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق سنہ 1950 کی دہائی میں جب ان تجربات کے لیے محققین جزیرے پر پہنچے تو پورٹو ریکو کی 41 فیصد خواتین نے پہلے ہی مانع حمل طریقہ آزمایا ہوا تھا۔
یہ اس لیے ممکن ہوا کیونکہ قانون سازی نے علاقے کے ارد گرد خاندانی منصوبہ بندی کے درجنوں کلینک بنانے کی اجازت دی، یہاں تک کہ انتہائی دور دراز کے قصبوں میں، حکومت کی طرف سے سبسڈی دی جاتی تھی اور جن میں خواتین میں پیدائش پر قابو پانے کو فروغ دینے والا عملہ بھی تھا۔
کلینکس کے نیٹ ورک نے پنکس اور راک کی توجہ بھی اپنی طرف مبذول کروائی، جن کا خیال تھا کہ وہ اپنے پروجیکٹ کو تیار کرنے کے لیے انھیں استعمال کر سکتے ہیں۔
تاہم ٹیم نے سب سے پہلے دارالحکومت سان جوآن کے ایک محلے پر توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا۔
ریو پیڈراس کی خواتین
جزیرے پر یہ تجربہ 1955 میں ایک پروجیکٹ کے طور پر شروع ہوا جس میں میڈیکل اور نرسنگ کے طلبہ نے حصہ لیا۔ لیکن مطالعہ بہت پیچیدہ اور تکلیف دہ تھا، اس لیے بہت سوں نے اسے پورا نہیں کیا۔
پورٹو ریکو میں آزمائی گئی گولی موجودہ گولی سے بہت طاقتور تھی اور اس کے مضر اثرات مرتب ہوئے۔
مارگریٹ مارش کے مطابق ’اس مقصد کے لیے انھیں متعدد دیگر ٹیسٹ کرنے کی ضرورت تھی تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا وہ بیضہ بن رہے ہیں یا نہیں۔ یہ ایک تکلیف دہ طریقہ ہے۔
ان کے مطابق اگر آپ کے پاس ایسے شرکا ہیں، جنھیں واقعی مانع حمل کی ضرورت نہیں ہے تو وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوں گے اورپھر اس تجربے کو جاری نہیں رکھ سکیں گے۔
دوا کی وجہ سے شرکا کو متلی، چکر آنا، قے اور سر درد ہوا۔۔ تاہم پنکس نے اسے محض ایک ’نفسیاتی‘ مسئلہ قرار دیا۔
مارگریٹ مارش نے پنکس کے ساتھی راک کی سوانح عمری لکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’انھیں اس گولی پر اتنا یقین تھا کہ وہ اسے اپنے رشتہ داروں، پوتیوں، بیٹیوں اور ان کے دوستوں تک کو دے رہے تھے۔‘
اس ٹیم نے تجربہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا، لیکن اس بار پورٹو ریکو کے شمال میں ایک مضافاتی علاقے ریو پیڈراس کو اس مقصد کے لیے چُنا گیا۔
سماجی کارکنان اور طبی عملے نے خواتین کے گھر گھر جا کر انھیں مانع حمل گولی پیش کی اور ان میں سے کچھ کے لیے انھوں نے بغیر کسی مالی معاوضے کے ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے ٹیسٹ کروائے۔

پورٹو ریکن معاشرے کے مختلف شعبوں کی طرف سے اس فیصلے کے خلاف رد عمل فوری طور پر دیکھنے میں آیا۔
لورڈیس انووا کا کہنا ہے کہ ’ایسی پریس ریلیزز جاری کی گئیں جن میں اس تحقیق کو 'مالتھوسیئن' کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق ’وہ ڈاکٹرز جو خواتین کو اس تجربے کے لیے منتخب کر رہے تھے ان کی طرف سے بھی ضمنی اثرات کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور اس مقصد کے لیے مزید ٹیسٹ کروانے ضروری ہیں۔‘
ضمنی اثرات کی وجہ سے ان میں سے بہت سی خواتین نے گذشتہ تحقیق کی طرح علاج بند کرانے کا فیصلہ کیا باقی ایسی خواتین جو غربت کی چکی میں پس رہی تھیں مانع حمل کے لیے اس تجربے کو جاری رکھنے پر رضامند ہو گئیں۔
مارگریٹ مارش کے مطابق کیریبین جزیرے پر کیے گئے کلینیکل ٹرائل میں تین افراد ہلاک ہوئے۔ تاہم پوسٹ مارٹم کبھی نہیں کیا گیا۔ لہٰذا ان کی موت کی صحیح وجوہات معلوم نہیں کی جا سکی ہیں۔
منظوری

اموات کے باوجود یہ دیکھ کر کہ گولی حمل کو روکنے کا اثر رکھتی ہے سائنسدانوں نے اپنے منصوبے کو پورٹوریکو کے دوسرے شہروں اور بعد میں ہیٹی، میکسیکو، نیویارک، سیئٹل اور کیلیفورنیا تک پھیلا دیا۔
مجموعی طور پر تقریباً 900 خواتین نے اس تجربے میں حصہ لیا، جن میں سے 500 کے قریب پورٹو ریکن تھیں۔
سنہ 1960 میں، یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے مانع حمل کے طریقہ کے طور پر پہلی گولی کہلانے والی اینوائیڈ کو منظوری دی۔
اس کا پھیلاؤ تیزی سے ہوا۔ صرف سات سالوں میں دنیا کی 13 ملین خواتین نے اسے استعمال کیا۔
لیکن ایف ڈی اے کی طرف سے منظوری کے بعد گولی پیچیدہ ضمنی اثرات کا باعث بنتی رہی، جیسے خون کا جمنا۔ اس سے پھر قانونی چارہ جوئی کا بھی ایک سلسلہ شروع ہوا۔
مگراس سب کے باوجود امریکہ میں یہ تحقیق سنہ 1964 تک جاری رہی۔
آج بھی لورڈیس انووا کا کہنا ہے کہ ’ایسی کوئی ’اہم‘ تحقیق نہیں ہوئی جو ’دوسری قسم کے مانع حمل طریقوں کی تلاش کرتی جن میں گولی کے مضر اثرات نہیں ہوتے جو اب موجود ہیں۔‘
مردوں کے لیے مانع حمل گولی بنانے کے لیے کیے گئے تجربات کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا حالانکہ وہ 30 سال پہلے شروع ہوئے تھے۔
ان کے مطابق ’سب سے بڑے تجربات ہمیشہ حاملہ پر ہوتے رہے ہیں۔‘